
کراچی لٹریچر فیسٹیول (کے ایل ایف) صرف ایک میلہ نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے جس کا مقصد مطالعے کی خوشی اور سیکھنے کی روشنی پھیلانا ہے
کراچی کے بیچ لگژری ہوٹل میں 17 تا 19 فروری منعقد ہونے والا 14 واں کراچی لٹریچر فیسٹیول (کے ایل ایف) گزشتہ ہفتے ادب سے محبت کرنے والوں اور آرٹ کے شائقین کی ریکارڈ شرکت کے ساتھ شاندار انداز میں اختتام پذیر ہوا۔ ادب، فن اور ثقافت کے جشن کے سہ روزہ فیسٹیول کا بہترین اختتام بلاشبہ شرکت کرنے والوں پر دیرپا اثر چھوڑے گا۔ سیشنز کی دلچسپ ترتیب نے اس بات کو یقینی بنایا کہ شرکاء کسی بھی دل چسپ بحث اورفکر انگیز گفت گو سے محروم نہ رہ جائیں۔
کراچی ادبی میلے کے 14 ویں ایڈیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین نے کہا کہ ’’میں شرکاء کی جانب سے ملنے والے زبردست ردعمل کاشکرگزار ہوں۔یہ صرف ایک تقریب نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے جس کا مقصد پورے ملک میں مطالعے کے رجحان اور سیکھنے کے عمل کو پھیلانا ہے۔ میں اپنے تمام مقررین، پینلسٹس، اور فنکاروں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمارے ساتھ رہنے کے لیے دور دراز کا سفر کیا اور اپنے خیالات، تصورات اور جاندار کارکردگی سے ہمیں متاثر کیا۔‘‘
اس سال کے میلے کا آغاز ایک دلچسپ نوٹ کے ساتھ ہوا جومیلے کے آخری روز اسٹیج پر کرکٹ اوپنر کے طور پر آئی۔ اس سیشن نے حاضرین کے دل موہ لیے، لیجنڈ کرکٹر وسیم اکرم، علی خان، احمر نقوی، اور حدیل عبید پر مشتمل ممتاز مقررین کے پینل نے فکر انگیز گفتگو کی۔اس سیشن کی نظامت ندیم فاروق پراچہ نے کی، اس سیشن نے کرکٹ اور پاکستان کی قومی شناخت اور سیاسی منظر نامے کے مابین جڑے رشتے کو دریافت کیا۔ اس سیشن میں وسیم اکرم کی ’’سلطان‘‘ اوراس سیشن سے منسوب علی خان کی کتاب جس کا عنوان ‘پاکستان میں کرکٹ: قوم، شناخت اور سیاست’ دو کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی ۔
اسی دوران پنڈال کا ایک اور حصہ فکری محرکات سے گونج اٹھا، جیسا کہ غازی صلاح الدین کے زیر انتظام ممتاز پینل سیشن ’’ایمان اور عقل‘‘ کے موضوع پر ایک دلچسپ بحث میں مصروف تھا۔ پینل میں قیصر بنگالی، سید سلیم رضا اور سید شبر زیدی جیسے سرکردہ بینکرز شامل تھے، جنہوں نے مذہبی طریقوں میں عقیدے اور عقل کے ساتھ ساتھ عقل کے کردار کے بارے میں گہرائی تک کھوج لگائی۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ’ماحولیاتی انصاف اور سرایت شدہ ناانصافیوں‘ کے سیشن میں موسمیاتی تبدیلی کے اہم مسئلے اور پاکستان پر اس کے اثرات پرضروری توجہ دی گئی ۔ ماہا حسین کے زیر انتظام اس سیشن میں ماہرین کے پینل احمد شبر، زوہا تونیو، اورعافیہ سلام نے موسمیاتی تبدیلی کے کمزور برادریوں پر غیر متناسب اثرات کا جائزہ لیا اوراس بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کارروائی کی فوری ضرورت پر زوردیا۔
علاوہ ازیں’’جنوبی ایشیاء کی الجھنوں کو سلجھانا‘‘ ’’سرچنگ فار پیس اینڈ سیکورٹی ان نیبرز‘‘ اور ’’ایوولنگ جیو پولیٹکس: امپیکٹ آن پاکستان‘‘ کے عنوانات سے متعدد سیشن ہوئے، جن میں خطے کی پیچیدہ حرکیات پردلچسپ گفتگو ہوئی۔ ان سیشنز میں سیکیورٹی، اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کے مسائل پرغور کیا گیا، جس سے پاکستان اورجنوبی ایشیائی خطے کو درپیش چیلنجز کے بارے میں تفصیلی آگاہی حاصل ہوئی۔
اس دن کی خاص باتوں میں سے ایک سیشن ’’سلور اسکرین سے منی اسکرین تک: او ٹی ٹی میڈیا کی گولڈ مائن‘‘ کے عنوان سے تھا، جس میں سفینہ دانش الٰہی بطور ماڈریٹر اور پینلسٹ فصیح باری خان اور صنم سعید نے شرکت کی۔ پینلسٹس نے اس پر روشنی ڈالی کہ کس طرح ڈیجیٹل اسٹریمنگ پلیٹ فارمز خاص طور پر او ٹی ٹی پلیٹ فارمز نے مزید تخلیقی آزادی اور وسیع پیمانے پر ناظرین تک رسائی فراہم کرکے مواد کے تخلیق کاروں کے لیے امکانات کو بڑھایا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں کہانی سنانے کی نئی شکلوں اور ان پلیٹ فارمز کے ذریعے میڈیا انڈسٹری کے ذریعے جمہوریت سازی کے وسیع امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
پاکستان کے سیاسی اور فکری منظر نامے کی دونوں اہم شخصیات سینیٹر (ر) جاوید جبار اور شمیم احمد نے ‘منصفانہ ٹیکس’ کے موضوع پر ایک مذاکرے میں شرکت کی۔ گفتگو ٹیکس اصلاحات سے متعلق مسائل اور معاشی مساوات اور سماجی انصاف کے حصول پر اس کے ممکنہ اثرات کے گرد گھومتی رہی۔
’دسوری ملاقات‘ کے عنوان سے ہونے والے سیشن میں احمد شاہ سے گفتگو کے لیے معروف ڈرامہ نگار انور مقصود اور ان کی اہلیہ عمرانہ مقصود بیٹھ گئے۔ سامعین ان کے جاندار طنزومزاح سے خوب محظوظ ہوئے، سیشن میں ان کے مزاحیہ انداز اور کہانی سنانے کے منفرد انداز کا مظاہرہ کیا گیا۔ ان کی موجودگی کے بغیر کراچی ادبی میلہ اپنی تفریح اور مصروفیت کے ایک اہم جز سے محروم رہ جاتا۔
سیشن ‘اولیاء، صوفی اور مزارات: سندھ کا صوفیانہ منظر نامہ’ نے شرکاء کی خصوصی توجہ حاصل کی کیونکہ اس میں تصوف کی بھرپور تاریخ ،اہمیت، سندھ کی ثقافت اور معاشرے پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ پینلسٹس نے صوفی بزرگوں کے کردار، ان کی تعلیمات اور سندھ میں ان کے مزارات کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔
جیسے جیسے شام قریب آتی گئی، رشیدہ واٹس، کرشا کوپس، شیہان کروناتیلاکا، ڈیمن گالگٹ اور سینان انٹون سمیت معروف بین الاقوامی دانشوروں پر مشتمل کئی سیشن ہوئے۔
سمیع اللہ صدیقی کی زیر قیادت ’پاکستان کی معیشت: گہرائی اور لچک‘ کے عنوان سے ہونے والے اس مذاکرے میں مفتاح اسماعیل، اکبر زیدی، محمد اورنگزیب اور اظفر احسن نے شرکت کی اور پاکستان کی معیشت کو درپیش مسائل اور مواقع کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اقتصادی ترقی کے فروغ اور ملک کو موجودہ مشکلات سے نکالنے میں زراعت، صنعت اور خدمات جیسے شعبوں کی صلاحیت کو بھی اجاگر کیا۔ پینلسٹس نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا اور اس بات پر زور دیا کہ درست پالیسیوں اور مراعات کے ساتھ پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ایک انتہائی پرکشش مقام بن سکتا ہے، جس سے معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
اختتامی تقریب کے دوران گلوکار نوری کی شاندار کارکردگی نے مجمع کو حیران کر دیا۔ علی حمزہ اورعلی نور کے یادگار نغمات اور جوش سے بھرپور اسٹیج پر موجودگی نے حاضرین کو خوب محظوظ کیا، جو تمام حاضرین کے لیے واقعی ایک ناقابل فراموش تجربہ ثابت ہوا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News