
جب جرنی ٹو دی سینٹرآف دی ارتھ کی ویاج فنٹاسٹک اور
اواتار سے ملاقات ہو تو یہ یقیناً ایک ’اسٹرینج ورلڈ‘ہے!
کراچی
ڈزنی اینی میٹڈ فلموں کو عام طور پر تفریحی اور تعلیمی سمجھا جاتا ہے لیکن جب بنانے والے انہیں بہت زیادہ سنجیدگی سے لے لیں تو اسٹرینج ورلڈ کا جنم ہوتا ہے۔ ایک اسٹار کاسٹ پر مشتمل اینیمیٹڈ فلم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی تھی اگر پروڈیوسر کچھ چیزوں پر قائم رہتے لیکن جب آپ نسلوں کا فرق، دنیا کو بچانے، ہم جنس پرست کرداروں اورکثرت سے استعمال ہونے والے پلاٹ کو شامل کرتے ہیں، تو خالص نتیجہ کامیابی نہیں ہوتا اور اسی لیے استرینج ورلڈ سینما گھروں میں آئی اور چلی بھی گئی کسی کو پتہ بھی نہیں چلا۔
کہانی
لیجنڈری ایکسپلورر جیگر کلیڈ (ڈینس قائد کی آواز میں)نے ایک چوتھائی صدی قبل اپنے خاندان کو چھوڑ دیا تھا، جب اس نے اپنے بیٹے سرچر (جیک گیلنہال) کے ساتھ گھر واپس جانے کی بجائے مشن پر جانے کا انتخاب کیا۔ تاہم، جب عالمی محققین، اس کی بیوی میریڈیئن (گیبریل یونین) اور ان کے ساتھ رہنے والا بیٹا ایتھن (جابوکی ینگ وائٹ) کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، تو باپ اور بیٹے کو اپنے لوگوں کی جان بچانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بندھن باندھنا پڑتا ہے۔ حالات خراب ہو جاتے ہیں جب دادا واپس آکر اپنے بیٹے اور پوتے کی مدد کرنے کی بجائے انہیں اپنے مشن کو آگے بڑھانے پر مجبور کر دیتے ہیں ،جو ان کے خیال میں آخر کار مکمل ہونے والا ہے۔ ایک پالتو کتا لیجنڈ، اور ایک نامعلوم نیلی نسل کا سپلٹ شامل ہونے کے بعد آپ کے پاس ایک ٹیم ہے، جو اس وقت تک نہیں رکے گی، لیکن اپنے مسائل حل کرنے کے بعد جب تک کہ وہ سب کو اپنا کام مکمل نہ کرلے ۔
خوبیاں
فلم ’اسٹرینج ورلڈ‘ خاندان کی اہمیت کے گرد گھومتی ہے، جو اسے گزشتہ سال ریلیز ہونے والی بیشتر اینی میٹڈ فلموں سے منفرد بناتی ہے اور اسکرین پر بھی لاجواب نظر آتی ہے۔ اس میں ایک ضدی دادا، ایک تحفظات کا شکار بیٹا، اور ایک پوتا ہے، جو زیادہ تر باپ کے والد جیسا ہے، جو اسے نزدگی کے دائرے کے حوالے سے دلچسپ بنا دیتا ہے۔ دلکش اینیمیشنز اور کسی بھی دنیا کو ڈیزائن کرنے کے لیے آزادی کی وجہ سے، اینی میٹرز نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ اس کی رفتار نہ تو سست ہے اور نہ ہی تیز، یہ شائقین کو نامعلوم سفر پر لے جاتی ہے، جہاں پانی کے اندر کی زندگی آپ کو حیران کر دیتی ہے کہ کیا حقیقی زندگی میں بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔
پس پردہ آوازوں کی کاسٹ کا انتخاب بھی سمجھداری سے کیا گیا ہے۔ ڈینس قائد اور جیک گیلنہال دونوں کے پاس بہت زیادہ تجربہ ہے اور وہ اسے اپنے کرداروں میں جان ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں گیبریل یونین اور لوسی لیو نے ان کی مدد کی ہے جبکہ جبوکی ینگ وائٹ کی آواز مخلوط نسل کے نوجوان پر بالکل فٹ بیٹھتی ہے، جس کے اپنے مسائل ہیں۔ ماحول دوست کہانی، جولس ورن کا احساس، اور تین نسلوں کی کیمسٹری دیکھنے والوں کو آنکھ نہیں جھپکنے دیتی، جو اسے اوتار کے سیکوئل سے مختلف بناتی ہے۔
خامیاں
اگرچہ اسٹرینج ورلڈ کو ایک فیملی مووی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ماضی کے مقابلے میں ذرا الگ قسم کی فلم ہے۔ یہ ان فلموں میں سے ایک ہے جسے ایک بار دیکھنے کے بعد نہ تو کوئی مکالمہ یاد رہتا ہے، نہ ہی پس پردہ موسیقی یا گانا، یا کسی کردار سے تعلق رکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔کہانی میں گزشتہ پانچ ڈزنی فلموں سے زیادہ مسائل ہیں اور یہ صرف نیشنل جیوگرافک کے شوقین پیروکاروں کو اینیمیٹڈ فلموں کے شائقین سے زیادہ راغب کرے گی۔ فلموں کا شائق کون سا بچہ یابڑا یہ سمجھے گا کہ ایولونیا (Avalonia) نامی زمین ایک فوسل فیول پانڈو(Pando) پر کام کرتی ہے، اور جب یہ ختم ہو جاتی ہے، تو وہ اسے حل کرنے کے لیے ’مسائل کے مرکز‘ میں جاتے ہیں۔یقینا،مجھے تو سمجھ نہیں آیا!
نئے کرداروں سے ملنے کا اشتیاق سنسنی خیز ہو سکتا تھا اگر فلم ’اوتار: دی وے آف واٹر‘ کے قریب ریلیز نہ ہوئی ہوتی اورجب کہ کئی نسلوں کا ٹریک زیادہ عرصے کے لیے ناظرین کی دلچسپی کو برقرار رکھتا ہے، اتنا دلکش نہیں ہے۔ تقریباً 100 منٹ طویل فلم خوشگوار اختتام سے پہلے 100 سمتوں میں موڑ لیتی ہے، جو کہ سچ پوچھیں تو زیادہ خوش کن نہیں ہے۔ شریک ہدایت کار ڈان ہال اور کوئ نگوین ایک بہتر کام کر سکتے تھے لیکن جس طرح بہت سارے باورچی کھانا خراب کردیتے ہیں،اسی طرح بہت سارے ایجنڈوں نے فلم کو خراب کر دیا، جو کہ ایک یادگار فلم ہو سکتی تھی۔
حتمی فیصلہ: 5 میں سے 2 نمبر
’اسٹرینج قرلڈ‘ میں کچھ بھی اسٹرینج نہیں ہے کیونکہ دیکھنے والے اسے گزشتہ پچاس سال سے ہالی ووڈ کی فلموں میں دیکھ رہےہیں۔فنٹاسٹک ویاج کی طرح ٹیم کو ایسی برائیوں سے لڑنا ہے جن کے بارے میں انہوں نے کبھی نہیں سنا۔ اوتار کی طرح انہیں’اجنبی‘ حالات میں زندہ رہنا پڑتا ہے۔فلم ’دی گنز آف ناوارون‘ کی طرح انہیں وقت پورا ہونے سے پہلے مشن کو مکمل کرنا ہے اور گوڈزیلا کی طرح، انہیں اندازہ نہیں ہے کہ وہ کس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ کھلے عام ہم جنس پرست نوجوان کا استعمال ڈزنی کے لیے نئی بات ہو سکتی ہے لیکن یہ بالکل بھی اہم نہیں ہے، اور اگر کردار ہم جنس پرست نہ ہوتا، تو اس سے کہانی متاثر نہیں ہوتی۔
ہو سکتا ہے کہ یہ فلم آخر کار ماحولیاتی تباہی والی فلم ہو لیکن اس کے پاس پیش کرنے کے لیے بہت کچھ ہے جو اس کے لیے زیادہ معاون ثابت نہیں ہوگا۔ اس کا اختتام ایک ایسی مصنوعات کی طرح ہوتا ہے جو سب کچھ بننا چاہتی ہے لیکن آکر میں ہر جگہ سے اپنے ٹکڑے سمیٹ رہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، اس کی ریلیز فلم ’اوتار: دی وے آف واٹر‘ کے ساتھ ٹکرائی جو کہ ایک بہت ہی اعلیٰ اور ایک ایسی فلم تھی جس کا سب کو انتظار تھا اور اس نے فلم’اسٹرینج ورلڈ‘ کی توقعات کو تقریباً غرق کردیا۔ اگر یہ ایک تفریحی فلم کے طور پر برقرار رہتی تو شاید یہ باکس آفس پر زیادہ چل سکتی تھی، لیکن یہ ایک ایسی چیز بن گئی جسے آپ ختم ہونے سے پہلے بھول جانا چاہیں گے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News