
یہ پہلا ’میڈ ان پاکستان‘ برانڈ ہوگا جو دنیا کے سب سے بڑے ملبوسات کے تجارتی شو میں اپنی فیشن تخلیقات کی نمائش کرے گا
17 فروری سے 23 فروری تک منعقد ہونے والے لندن فیشن ویک میں دنیا کے سب سے بڑے ملبوسات کے تجارتی شو کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے فیشن برانڈ ’راستہ‘ کو نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔
پہلا ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ فیشن برانڈ راستہ، 17 فروری کو لندن فیشن ویک 2023ء کے پہلے دن اپنے ڈیزائنز کی نمائش کا آغاز کرے گا، جو ہر دو سال میں ایک بار منعقد ہونے والا اور بلاشبہ دنیا کا سب سے بڑا فیشن ویک ہے۔ راستہ ایک اعلیٰ پاکستانی فنکارانہ شہری لباس کا برانڈ ہے جو باضابطہ طور پر جنوبی ایشیائی خطے کے مقامی دستکاری اور فنی ورثے کو سیاق و سباق سے ہٹانے اور اس کی دوبارہ تشریح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
راستہ کے تخلیقی ڈائریکٹر زین احمد کے مطابق، ’’اس کے لیے کافی تیاری کی گئی۔ ہم نے اس قسم کے کلیکشن کو تیار کرنے میں بہت زیادہ وقت اور محنت صرف کی ہے جو لندن فیشن ویک کے لیے مثالی ہو تی۔ شرکت کے لیے منتخب ہونے کے بعد ہمیں ایک بھاری فیس ادا کرنی پڑی۔ خوش قسمتی سے انہیں ہمارا مجموعہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے ہمیں رعایت دی۔‘‘
احمد نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’ہم راستہ میں کاریگروں کے ایک گروپ کے ساتھ کام کرتے ہیں، لیکن اس بار ہم انہیں صرف لباس نہیں بھیج سکتے تھے۔ بنائی کرنے والے سے لے کر ہاتھ کی کڑھائی کرنے والے اور درزی تک، تمام کاریگر ہمارے اسٹوڈیو میں جمع تھے۔ اگرچہ کوالٹی کنٹرول ہمیشہ اہمیت طلب ہوتا ہے لیکن اس بار ہمیں اور بھی زیادہ سخت ہونا پڑا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’راستہ کو ایک پاکستانی برانڈ کے طور پر ممتاز کرنے کے لیے، جو کہ پاکستانی فیشن کے محدود ایکو چیمبر سے باہر کام کرتا ہے، ہو سکتا ہے ہم نے اس مجموعے کے ساتھ تجارتی تحفظات کو قربان کیا ہو۔ پاکستان میں بہت سے کاروبار علاقائی مارکیٹ سے حاصل ہونے والے منافع سے مطمئن ہیں۔ تاہم، دنیا ترقی کر رہی ہے، فیشن زیادہ عالمگیر ہو گیا ہے اور اگر کمپنیاں صرف قلیل مدتی منافع پر توجہ مرکوز کرتی رہیں تو وہ آخرکار مصیبت میں پڑ جائیں گی۔‘‘
زین احمد نے کہا، ’’ میرے خیال میں برانڈ کی ساکھ قائم کرنے کے لحاظ سے یہ لاجواب ہوگا۔ امید ہے کہ اس کے نتیجے میں ہم لندن فیشن ویک یا شاید نیویارک فیشن ویک میں نمائش کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ہم نیویارک یا لندن جیسے بڑے شہروں میں پاپ اپ شاپس چلانے کے بعد پاکستان میں ایک فلیگ شپ اسٹور کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
زین احمد کا خیال ہے کہ ان کی مارکیٹنگ کی کوششیں انہیں منافع دے رہی ہیں کیونکہ ان کی کل فروخت کا 44 فیصد سے زیادہ مقامی مارکیٹ سے حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سچ کہوں تو ہم نے اس کی توقع نہیں کی تھی۔ ہم جانتے تھے کہ مقامی طور پر ہمیں توجہ مل رہی ہے لیکن ہمیں یہ یقین نہیں تھا کہ پاکستانی صارفین اضافی قیمت والے اسٹریٹ ویئر کی طرف متوجہ ہوں گے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں بس انہیں اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت تھی کہ یہ برانڈ اس قابل ہے کہ وہ اس پر اپنا پیسا خرچ کریں۔ وہی گاہک جو رسمی ڈیزائنر لباس خریدتے ہیں، اگر انہیں یہ یقین ہو کہ یہ برانڈ ان کی پسند ہے تو ’راستہ‘ کی بنائی ہوئی ہوڈی یا جیکٹ خریدنے کے لیے تیار ہوں گے۔‘‘
انہوں نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا، ’’ یہ دست کاری کے لحاظ سے بہت مفصل ہے۔ اس مجموعے میں 80 فیصد ہاتھ سے بنے ہوئے کپڑے ہیں اور علاقائی طور پر مخصوص روایتی کڑھائیاں ہیں جو برانڈ کی منفرد شناخت کی عکاس ہیں۔ اس میں دبکہ، زری، گوٹا، پتھر اور موتیوں کا کام نظر آئے گا، لیکن یہ دورِ جدید کے ایک تجریدی ڈیزائن میں چمڑے کی جیکٹ پر بھی ہوسکتا ہے۔ ہم اپنے مجموعوں میں بھی اکثر ہاتھ کی پرنٹنگ کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News