
ڈائریکٹر دارین جے سلام نے کہا کہ عربی زبان میں بننے والی فلم ’’فرحہ‘‘ میں ایک فلسطینی نوجوان لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس کے گاؤں پراسرائیلی فورسز نے حملہ کیا،اردنی فلم ’’فرحہ‘‘پراسرائیل میں شدید تنقید کی گئی،یہ فلم سچے واقعات پرمبنی ہے اور فلسطینی مصائب کے بارے میں’’سمندر میں صرف ایک قطرہ‘‘کے مترادف ہے۔
نیٹ فلکس پرگزشتہ ماہ ریلیز ہونے والی فلم’’فرحہ‘‘ 1948 میں اسرائیل کی تخلیق سے جنم لینے والے تنازعے کے دوران فلسطینیوں کے خلاف مظالم کی عکاسی کرتی ہے، جسے فلسطینی نقبہ یا ’’سانحہ‘‘ کہتے ہیں۔عربی زبان میں بننے والی اس فلم میں ایک فلسطینی نوجوان فرحہ کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس کا گاؤں اسرائیلی فورسز کے حملے کی زد میں آتا ہے۔اس کے والد نے اسے چھپایا ہوا ہے اوردروازے کے شگاف کے ذریعے وہ دو لڑکیوں سمیت ایک فلسطینی شہری خاندان کو پھانسی دیتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔
35 سالہ دارین جے سلام نے کہا کہ ان کی پہلی مکمل فیچر فلم کا پلاٹ ان کی والدہ کی سنائی گئی ایک کہانی سے متاثر ہے، جو ایک فلسطینی خاتون رادیہ کے بارے میں تھی۔
دارین جے سلام نے کہا کہ فلم میں ’’ایک لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو اپنے خوابوں کو ترک کرنے پر مجبور ہو گئی تھی کیونکہ حالات پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں تھا‘‘۔
فلم ’’فرحہ‘‘ 2021ء کے ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے پیش کی گئی اوردیگر فلمی میلوں میں درجن بھرایوارڈز جیت چکی ہے۔اسرائیل میں، جہاں 1948ء کی جنگ کے دوران مبینہ مظالم پر بحث زیادہ تر ممنوع ہے، حکام نے فلم کو اسٹریم کرنے کے فیصلے پر نیٹ فلکس کی مذمت کی۔دارین جے سلام نے کہا کہ ’’میں تاریخ کے اس اہم موڑ کے حوالے سے دنیا کے سامنے حقائق لانا چاہتا تھا،اور یہ بتانا چاہتا تھا کہ یہ سرزمین لوگوں سے خالی نہیں تھی،‘‘جو اب اسرائیل اور فلسطینی علاقے کہلاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ’’بلکہ یہ ایک ایسی سرزمین تھی جہاں کے لوگوں کی زندگیاں، خواب، امیدیں اورتاریخ تھی۔‘‘
میں فرحہ ہوں
اس فلم کی شوٹنگ اردن کے شمالی قصبوں عجلون اور الفوحیس میں کی گئی ہے، جو فلسطینی گاؤں سے مشابہت رکھتے ہیں،جہاں سے فرحہ کی کہانی شروع ہوتی ہے۔
نوعمر لڑکی اپنے والد کو شہر میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کرتی ہے، ایک دوست کی شادی کی تیاری کرتی ہے، اور اپنے گاؤں پر حملہ ہونے سے پہلے انجیرچن رہی ہوتی ہے۔ دارین جے سلام نے کہا کہ اس نے غیرمسلح خاندان کے قتل پر تشدد کا مظاہرہ کرنے سے گریز کیا۔انہوں نے کہا کہ ’’یہ منظر جس نے اسرائیلی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا، نکبہ کے دوران لاکھوں فلسطینیوں کے مصائب کے مقابلے میں محض سمندر میں ایک قطرہ کے مترادف ہے۔‘‘
دارین جے سلام نے مزید فلم سازوں سے فلسطینی تاریخ کے اس دردناک باب کو پیش کرنے کا مطالبہ کیا، جو’’ سینما گھروں میں تقریبا کبھی نظر نہیں آتا‘‘۔
شامی نژاد ڈائریکٹر کو ان کی والدہ نے اس ملک کے ایک پناہ گزین کیمپ میں رادیہ کی کہانی سنی تھی اور اسے ان تک پہنچایا،’’اورمیں نے ایک فلم بنانے اوراسے شیئر کرنے کا فیصلہ کیا‘‘۔
داین جے سلام نے کہا کہ ’’رادیہ کو ان کے خوفزدہ والد نے ایک جگہ بند کر دیا تھا، اورآخرکار جب وہ اس جگہ سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئیں تو وہ شام چلی گئیں۔‘‘’’یہیں اس نے میری ماں کو اپنی کہانی سنائی۔‘‘
فلم ساز نے کہا کہ 2011ء میں جب شام میں لڑائی شروع ہوئی تو ان کی والدہ کے ’’اس خاتون سے تمام رابطے منقطع ہو گئے‘‘ جو کہ دمشق کے شمال میں واقع یرموک کے جنگ زدہ فلسطینی پناہ گزین کیمپ کی رہائشی تھی۔امریکہ میں فلم کی نمائش کے بعد شائقین میں سے ایک خاتون نے دارین جے سلام سے بات کی۔
اس نے کہا کہ اسّی سال کی عمر کی ایک عورت جو نقبہ سے بچ گئی تھی، نے مجھے بتایا کہ’میں فرحہ ہوں‘ ۔
اسرائیل کے سابق وزیرایویگڈور لائبرمین، جنہوں نے گزشتہ ماہ بنجمن نیتن یاہو کے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے تک حکومت میں خدمات انجام دی تھیں، نے نومبر میں کہا تھا کہ فلم کا’’مقصد جھوٹا ڈھونگ رچانا اوراسرائیلی فوجیوں کے خلاف اکسانا ہے‘‘۔
اسرائیل کے سابق وزیر ثقافت چلی ٹراپرنےکہا کہ’’فرحہ‘‘ ’’جھوٹ اور توہین آمیز‘‘ ہے۔
دارین جے سلام کے لیے، جن کے والد فلسطینی ہیں،’’نقبہ سے انکار کا مطلب میرے وجود سے انکار، لاکھوں لوگوں کے المیے سے انکار ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’میرے اپنے والد نقبہ میں بچ گئے۔ وہ اپنے والدین کے ہمراہ اردن فرار ہو گئے۔‘‘
دارین جے سلام کے والد راملہ میں پیدا ہوئے، جو اب وسطی اسرائیل میں شامل ہے۔اس کے زیادہ ترعرب باشندے 1948ء کے تنازعے کے دوران اپنے گھروں سے فرار ہوگئے یا زبردستی علاقہ بدر کردیا گیا، جیسا کہ اس وقت ملک بھر میں 7لاکھ60ہزار سے زائد فلسطینی تھے۔ان کی اولادوں میں سے بہت سے آج بھی اردن، شام اور لبنان میں مقیم ہیں۔
اردن کی تقریباً ایک کروڑ کی آبادی میں سے نصف سے زائد فلسطینی نژاد ہیں، 1948ء اور 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے دوران انہوں نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی، جب اسرائیل نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔
گزشتہ سال اسرائیلی ہدایت کار ایلون شوارز کو موجودہ اسرائیل کے شمال مغرب میں بحیرہ روم کے ایک گاؤں تنتورہ میں فلسطینیوں کے 1948 کے مبینہ قتل عام پر اپنی دستاویزی فلم پرشدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ۔
حاللیہ برسوں میں1948ء کے تنازعے کے دوران نوزائیدہ اسرائیلی افواج کے طرزعمل کے بارے میں اسرائیلی سماجی کارکنوں سمیت دنیا بھر سے زیادہ شفافیت کیلئے مطالبوں میں اضافہ ہوا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News