چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ کا آغاز 2018ء میں ہوا اور اس بڑی جنگ کا طبل سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بجایا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے جنوری 2017ء میں امریکی منصب صدارت سنبھالا اور ڈیرھ سال بعد 6 جولائی 2018ء کو انہوں نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ چھیڑ دی۔ ٹرمپ ری پبلکن صدر تھے۔ قبل ازیں اس طرح کی ایک عالمگیر سرد جنگ ڈیموکریٹ امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین نے سویت یونین کے خلاف شروع کی تھی۔ سرد جنگ دوسری عظیم جنگ کے خاتمے کے بعد 1950ء میں امریکہ اور سویت یونین کے مابین شروع ہوئی تھی۔مگر یہ نظریاتی، نفسیاتی، عملی ، غیر عملی، مذہبی، تعلیمی اور دیگر محاذودں پر لڑی جانے والی جنگ دنیا کے طول و عرض میں لڑی جارہی تھی۔ بلاشبہ یہ ایک کاروباری، تجارتی سائنسی اور بڑی حد تک اعصابی جنگ بھی تھی۔جس کا ایک بڑا محاذ میڈیا اور ذرائع ابلاغ بھی تھے۔ اس جنگ کے صورت گر امریکی وزارت خارجہ کے ایک اہم فرد پال نطشے تھے جو ہیری ٹرومین سے لے کر بل کلنٹن تک ہر امریکی ڈیموکریٹ اور ری پبلکن صدر کے مشیر رہے اور وہ اس سرد جنگ کی کارروائیوں کی راہ راست نگرانی کرتے رہے۔ سرد جنگ کا نقطہ آغاز اگست 1949ء میں ہونے والا پہلا سویت ایٹمی دھماکہ اور اکتوبر 1949ء کا چینی انقلاب تھا۔
ان دو بڑے واقعات کے بعد صدر ٹرومین نے دفتر خارجہ کو امریکی سلامتی کے نئے تقاضوں کے تعین کے لیے ایک مقالہ تیار کرنے کو کہا تھا جو این ایس سی 68 کے نام سے تیار کیا گیا تھا۔
2018ء کی تجارتی جنگ کا نقطۂ آغاز چین اور امریکہ کے مابین وہ تجارتی عدم توازن تھا جس نے امریکی سیاسی اور کاروباری قیادت کو اس امر کا احساس دلایا کہ امریکی تجارتی خسارہ اس حد تک بڑھتا رہا تو امریکہ چین کی منڈی بن جائے گا۔ اس پر امریکہ نے چینی درآمداد پر پر بھاری محاصل عائد کر دیئے۔ ابتدائی طور پر امریکی حکومت نے چینی مال پر 25 فیصد محاصل عائد کئے جن کی مالیت 34 ارب ڈالر تھی۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چین امریکہ تجارت کا توازن بگڑ گیا ہے اس لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس تجارت کا چین کی طرف جھکاؤ کم کرنے کے لیے چینی درآمدات پر ڈیوٹیاں عائد کی جائیں۔جب امریکہ نے اس تجارتی جنگ کا آغاز کیا تو چین کی پانچ کھرب پچاس ہزار ڈالر کی اشیاء پر محاصل لگائے گئے جبکہ امریکہ کی ایک کھرب 85 ارب ڈالر کی اشیاء پر محاصل کا نفاذ ہوا۔
چینی تجارت پر امریکی محاصل کے ایک سال کے اندر ہی عالمی سطح پر ایک اور بڑا واقعہ نمودار ہوا جس نے عالمی تجارت کو ایک تاریخی جھٹکا دیا۔ یہ واقعہ چین میں کووڈ 19 وائرس کا منظر عام پر آنا تھا۔چین نے جنگی بنیادوں پر اس وائرس سے نمٹنے کا فیصلہ کیا جبکہ امریکہ اور یورپی ممالک بُری طرح کووڈ کی لپیٹ میں آگئے۔ کووڈ 19 کے آغاز پر عالمی بینک نے پیش گوئی کی کہ اس وائرس کے سبب عالمی معیشت میں سست رفتاری آئے گی اور ساتھ ہی امریکہ اور چین کی معاشی ترقی کی رفتار کو بڑا دھچکا لگے گا۔دنیا کی دو بڑی طاقتوں کی تجارتی جنگ کے نفع و نقصان کے تخمیے بھی عجیب ہیں۔ اس جنگ کا فائدہ ان ملکوں کو پہنچا جن کی جی ڈی پی بڑی معیشتوں کے مقابلے میں کم تر تھی مگر وہ معیشتیں ابھر کر بڑی معیشتوں میں شمار کی جانے لگی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کی جنگ کا فائدہ ویت نام، ملائشیا اور تائیوان کو پہنچا۔ ان تینوں ملکوں میں بھی ویت نام آگے رہا بلکہ ماہرین اس تجارتی جنگ کا فاتح ویت نام کو قرار دیتے ہیں۔ اس عرصےمیں ویت نام کے ہیلتھ کیئر کے شعبے کو ان دو سالوں کے دوران دگنا فائدہ ہوا اور اس شعبے کو 6 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کی اضافی رقوم حاصل ہوئیں۔
کولمبیا بزنس اسکول کے ایک نئے جائزے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چین امریکہ تجارتی جنگ کا عالمی سطح پر ایک فائدہ یہ ہوا کہ عالمی تجارت میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگیا۔ محاصل کی زد میں آنے والےسپلائی کے سلسلوں میں ایک قسم کا تنوع پیدا ہوا۔ جس سے عالمگیریت کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ قارئین کے لیے یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ چین کے لیے امریکی برآمدات کیا ہیں۔ بالخصوص 2001ء میں نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکہ سے چین کی جانب سے ہوائی جہازوں، موٹر گاڑیوں مائیکروچپس اور سویا بین کی برآمدات کو مرکزی حثیت حاصل ہوگئی۔ سویابین اور موثر گاڑیوں پر چین کی جانب سے محاصل لگائے گئے۔ امریکہ نے ان دونوں مصنوعات کی برآمدات پر توجہ مرکوز کردی۔
ایک وقت تھا جب چند سال پہلے امریکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ چین کا مقروض تھا۔ اس وقت بھی امریکہ پہلے اور دوسرے نمبر پر دو ایشیائی ملکوں میں جاپان اور چین کا سب سے زیادہ مقروض ہے۔ امریکہ چاپان کا 13کھرب ڈالر کا مقروض ہے جبکہ چین کا لگ بھگ دس کھرب ڈالر کا مقروض ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ پر چینی قرضے 23 کھرب ڈالر سے گرکر دس کھرب ڈالر تک آئے ہیں۔اور امریکی تجارتی شراکت داری کی ترجیحات بھی تبدیل ہوئی ہیں۔موجودہ حالات میں امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اس کا سب سے زیادہ قریبی ملک کینیڈا ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کی تجارتی شراکت داری کا حجم تین کھرب سات ارب اور 60 کروڑ ڈالر ہے۔امریکہ کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ملک اس کا جنوب مغربی پڑوسی ملک میکسیکو ہے۔ امریکہ اور میکسیکو کی دو طرفہ تجارتی شراکت داری کا حجم دو کھرب 76 ارب 50 کروڑ ڈالر ہے۔ امریکہ کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار چین ہے۔ امریکہ اور چین کی دوطرفہ تجارتی شراکت داری کا حجم ایک کھرب 51 ارب 10 کروڑ ڈالر ہے۔امریکہ کا چوتھا بڑا تجارتی شراکت دار جاپان ہے جس کا امریکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مقروض ہے۔ امریکہ اور جاپان کی دوطرفہ تجارتی شراکت داری کا حجم محض 75 ارب ڈالر ہے۔
امریکہ کی بیرونی تجارت کے سلسلے میں امریکی حکومت کویہ بات بھی پیش نظر رکھنی ہوتی ہے کہ دو طرفہ تجات کے باعث امریکی روزگار کے مواقع میں بھی اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ چین کے ساتھ تجارت میں امریکہ کے لیے 9 لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئیں ہیں اور امریکہ میں جو چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کرتی ہیں ان سے ایک لاکھ 60 ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ چین نے امریکہ میں ایک بہت بڑا رقبہ اراضی بھی حاصل کیا ہے۔ پاکستان میں جب سی پیک کے منصوبے پر عمل ہورہا تھا تو پاکستان میں یہ خوف پھیلا ہوا تھا کہ چین پاکستان میں وسیع قطعہ اراضی خرید کر اس کے مالکانہ حقوق حاصل کر لے گا جس سے ہماری خود مختاری کے لیے ایک سوال پیدا ہوجائے گا ہم اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ پاکستان کا کوئی قطعہ اراضی کسی بھی دوسرے ملک کو فروخت کیا جائے مگر یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ چین امریکہ میں ایک لاکھ 91 ہزار ایکڑ قطعہ اراضی مالکانہ حقوق کے ساتھ حاصل کر چکا ہے۔چین نے یہ اراضی شمالی ریاست مونتانا اور مینیسوٹا کی درمیانی ریاست شمالی ڈکوٹا میں حاصل کی ہے۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی لازمی ہے کہ یہ بتا دیا جائے کہ امریکہ چین سے کن اشیاء کی درآمدات کرتا ہے امریکہ چین سے تازہ اور محفوظ کیئے گئے پھل، سبزیاں، مصالحہ جات اور چائے درآمد کرتا ہے، امریکہ کی زرعی درآمدات کا تقریباً آدھا حصہ چین سے آتا ہے۔ان حالات میں تجارتی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آیا چین امریکہ کو اپنی زرعی برآمدات پر انحصار کر سکتا ہے۔ 2020 ء میں چین میں امریکی بیرونی براہ راست سرمایہ کاری کی شرح ایک کھرب 23 ارب 90کروڑ ڈالر تھی۔ یہ سرمایہ کاری ایک سال قبل 2019ء کی سرمایہ کاری سے 9 اعشاریہ 4 فیصد زیادہ تھی۔ امریکہ نے چین میں منیو فیکچرنگ، تھوک تجارت مالیات اور انشورنس کے شعبوں میں براہ راست سرمایہ کاری کی جبکہ چین نے 2020ء میں امریکہ میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری 38 ارب ڈالر کی تھی جو 2019ء کے مقابلے میں 4 اعشاریہ 2 فیصد کم تھی۔
چین زراعت کے علاوہ صنعتی اشیاء کی بھی امریکہ کو برآمدات کرتا ہے جس سال دونوں ملکوں میں تجارتی جنگ کا آغاز ہوا اس سال چین کی طرف سے ایک کھرب 52 ارب ڈالر کی الیکٹریکل مشینری، ایک کھرب 17 ارب کی مشینری، 35 ارب ڈالرز کے فرنیچر اور بسترے 27 ارب ڈالرز کے کھلونے اور کھیلوں کا سامان اور 9 ارب ڈالر کی پلاسٹک کی اشیاء برآمد کی گئی تھی۔
امریکہ اور چین دنیا کی دو بڑی معیشت ہیں۔ معیشتوں کی اس دوڑ نے دنیا کو یک ستونی نہیں رہنے دیا۔ دنیا کی دونوں معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ اور معاشی مسابقت بھی جاری ہے۔ اگر یہ جنگ انسانوں کیلئے بہتر مواقع عالمی امن اور ماحولیات کی بہتری کی جنگ بدل جائے تو یہ کرۂ ارض انسانوں کے رہنے کے قابل ہوسکتا ہے۔ دنیا کی اصل لڑائی بھوک، افلاس، ناداری اور ناانصافی سے ہے۔ کیا یہ عالمی طاقتیں ان مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں گی؟
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
