ٹیکس پریکٹیشنرز نے فنانس ایکٹ 2022ء میں ابہام پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ٹیکس جمع کرنے والوں اور ٹیکس دہندگان کے درمیان اعتماد کی فضا کو بحال کرنے پر زور دیا ہے۔
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ اور کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن (کے ٹی بی اے) کے سابق صدر محمد ذیشان مرچنٹ نے کہا کہ سیکشن 14 (اے بی) کے تحت ایف بی آر کو درجہ اول کے خوردہ فروشوں سمیت دیگر افراد کے گیس اور بجلی کے کنکشن منقطع کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ جو سیلز ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنے نام کا اندراج نہیں کراتے، اسی لیے ایف بی آر اس سیکشن کے تحت درجہ اول کے ان خوردہ فروشوں کو مطلع کرتا ہے جو بورڈ کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ساتھ منسلک نہیں ہیں۔
ذیشان مرچنٹ نے کہا کہ ٹیکس دہندگان زیادہ تر کرائے کے جگہ پر کاروبار کرتے ہیں، ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا گیس اور بجلی کی خدمات منقطع ہونے کے وقت ٹیکس دہندہ اب بھی اسی جگہ پر ہے۔
ایف بی آر کے سیکشن 74 میں ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے ذیشان مرچنٹ کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ٹیکس دہندگان کے حق میں ایف بی آر نے عدالتی فیصلوں کے اثر کو ختم کرنے کے لیے قوانین اور ترامیم متعارف کرائی ہیں۔
محمد ذیشان مرچنٹ کے مطابق مزید ٹیکس کے سیکشن 3 (1 اے) کے تحت 3 فی صد شرح ٹیکس کا اطلاق کسی ایسے شخص پر ہوتا ہے جو سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ء کے تحت رجسٹرڈ ہونے کا ذمہ دار ہے، تاہم اس نے سیلز ٹیکس رجسٹریشن نمبر حاصل نہیں کیا ہے۔
مرچنٹ کا کہنا تھا کہ اس سیکشن میں اہم تبدیلی کا مقصد ان افراد کو شامل کرنا ہے جن کا اندراج ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ (اے ٹی ایل) میں نہیں ہے، تاہم ان افراد سے ٹیکس جمع کرنے کا کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے، اور اس کے علاوہ یہ معلوم کرنے کا بھی کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے کہ آیا اب کوئی اے ٹی ایل میں شامل ہے یا نہیں ۔
انہوں نے انکم ٹیکس کی طرح سیلز ٹیکس کے لیے بھی فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست کی دست یابی کی تجویز پیش کی.
محمد ذیشان مرچنٹ نے کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن پر زور دیا کہ وہ اپنی خدمات فراہم کرنے والے افراد جیسے ٹیکس کنسلٹنٹس، وکلاء اور ڈاکٹرز وغیرہ پر مزید ٹیکس اور اضافی ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے معاملہ اٹھائے، جو ایف بی آر کے دائرہ قانون کی فہرست میں نہیں آتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان ترامیم کے مطابق دواؤں یا خام مال کی تیاری کے لیے فعال دواسازی کے اجزاء پر سیلز ٹیکس ان پٹ ٹیکس کی ایڈجسٹمنٹ کے بغیر ایک فیصد کی شرح سے لگایا جائے گا۔ اسی طرح ادویات کے طور پر رجسٹرڈ اشیاء کی درآمد پر بھی ان اشیاء کے درآمدی مرحلے پر ایک فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
محمد ذیشان مرچنٹ کا کہنا تھا کہ اشیاء تیار کرنے والے یا درآمد کنندگان کی طرف سے ادا کیا جانے والا ٹیکس سپلائی چین میں ٹیکس کا حتمی اخراج ہوگا۔ جب کہ ادویات کی فراہمی میں شامل تھوک فروشوں، تقسیم کاروں یا خوردہ فروشوں کو بھی مؤثر طریقے سے اس سے خارج کر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ ان پر بھی سیلز ٹیکس کا اطلاق نہیں ہو گا جو صرف ادویات کی فراہمی کا کام کرتے ہیں۔
ذیشان مرچنٹ نے واضح کیا کہ ادویات کے شعبے کو سیلز ٹیکس گوشوارے جمع کرانے میں مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ آٹھویں شیڈول کے مطابق تجارتی درآمد کنندگان نے صرف 1 فی صد ٹیکس ادا کیا ہے۔ اور اب ایف بی آر کی جانب سے تجارتی درآمد کنندگان کو 3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس بھی ادا کرنے کا کہا جارہا ہے، جو کہ ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے خلاف ہے۔
ذیشان مرچنٹ کا مزید کہنا تھا کہ اس ترمیم کے بعد کی سپلائی کو سیلز ٹیکس کی وصولی سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ تاہم آج تک سیلز ٹیکس ریٹرن اس ترمیم کو پورا نہیں کر رہا ہے، جسے فوری طور پر درست کیا جانا چاہیے تاکہ رجسٹرڈ افراد مقررہ مدت کے اندرریٹرن فائل کر سکیں.
کے ٹی بی اے کے صدر سید ریحان حسن جعفری نے کہا کہ مالی سال 2022ء کے ریٹرن سے ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کالم کو حذف کرنا ایک مخمصہ اور بلا جواز اقدام ہے۔
ریحان حسن جعفری کا کہنا تھا ٹیکس گوشواروں میں دستیاب ریفنڈز کی ایڈجسٹمنٹ کی غیر مناسب اجازت نہیں تھی اور یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے جس کے لیے چیف کمشنرز کے تمام متعلقہ دفاتر نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ایڈجسٹمنٹ کے لیے پہلے تصدیق کا عمل اپنانا ہوگا۔
جعفری نے ایف بی آر پر زور دیا کہ وہ ٹیکس جمع کرنے والوں اور ٹیکس دہندگان کے درمیان اعتماد کی کمی کو دور کرے اور ملک کے حقیقی ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرے۔ یہ حقیقی ٹیکس دہندگان اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری کے طور پر سرکاری خزانے میں اپنے واجب الادا حصہ کا ایک بڑا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔
اس مباحثے کے دوران محمد رضا ایف سی اے اورعدنان مفتی ایف سی اے نے فنانس ایکٹ 2022ء کے مختلف پہلوؤں پر بھی غور کیا۔
انہوں نے ایکٹ میں کی گئی تبدیلیوں اور ترامیم کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا۔
عدنان مفتی نے کہا کہ صوبائی سروس سیلز ٹیکس (ایس ایس ٹی) قوانین کو بڑے پیمانے پر کاروبار کرنے میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے اور کے ٹی بی اے سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز ٹیکس قوانین کو ہم آہنگ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا 2019ء میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنے پروگرام میں مشروط طورپرکاروبار کرنے میں آسانی کے لیے ٹیکس میں ہم آہنگی پر زور دیا ہے۔
ایم ذیشان مرچنٹ
سابق صدر کے ٹی بی اے
ایسا لگتا ہے کہ ایف بی آر نے ٹیکس دہندگان کے حق میں عدالتوں کے فیصلوں کے اثر کو ختم کرنے کے لیے قوانین اور ترامیم متعارف کرائی ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News