Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سیلاب اور معیشت

Now Reading:

سیلاب اور معیشت

حال ہی میں ہم نےایک آزاد ریاست کے طور پر پاکستان کے قیام کی 75 ویں سالگرہ منائی۔ اس پورے عرصے کے دوران ہم بحیثیت قوم اپنے آپ کوعالمی اقتصادی منظر نامے میں کسی بھی قابل ذکر انداز میں پیش کرنے میں کامیاب ہونا تو دور کی بات، بھارت اور چین کی طرح ایک زبردست تاثر پیدا کرنے میں بھی ناکام رہےہیں۔

ان دونوں ممالک، جن میں سے ایک کو ہم سے دو سال بعد آزادی ملی، نے طویل المدتی نقطہ نظر کے ساتھ مستقل اقتصادی پالیسیوں پرعمل درآمد کیا۔ ان کے پالیسی سازوں نے مستقبل کے معماروں کے طور پر کام کیا، جب کہ ہم نے قلیل المدتی فوائد کے لیے قلیل المدتی پالیسی کی تاجرانہ ذہنیت جیسا رویہ اختیارکیا۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ معاشی بہبود کے لیے ہمارا نقطہ نظر ایک المناک اور افسوسناک واقعات کی کہانی ہے، جس میں ہر آنے والی حکومت نے معاشی ڈھانچے کے نئے (گمراہ کن) ماڈلز کے تجربات کو آزمایا۔ ہمارے پاس خالص سرمایہ داری تھی۔ اس کےبعد سوشلسٹ رجحانات،جس کی وجہ سے کارکردگی اور پیداوارمیں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی۔ اس کے بعد ڈی ریگولیشن(آزاد تجارت) اور نجکاری کی گئی۔

معیشت کو آزاد کرنے کی مشق کا بڑا حصہ اپنی مدد آپ کے تحت تھا۔ قانونی ریگولیٹری آرڈرز یا ایس آر اوز کے ذریعے ایک عشرے تک معیشت کو سنبھالا جاتا رہا۔ تنگ اورمحدود دائرہ افق کی سوچ کی بنیاد پر اقتصادی منصوبے تیار کیے گئے تھے۔ کوئی طویل المدتی سوچ موجود نہیں تھی۔ نتیجتاً قلیل المدت میں ڈیموں کی تعمیر کسی ایک حکومت کا کام نہیں ہے، بلکہ ایسے منصوبے کے بارے میں یکے بعد دیگرے آنے والی ہر انتظامیہ کو کام کرنا چاہئے۔ تاہم ایسا نہیں کیا گیا،اس لیے نئے ڈیم بھی نہیں بن سکے۔ حیران کن !

ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے، لیکن ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی کی ایک بڑی قیمت ہےاورہو گی، اب جب کہ ہم اپنے 100ویں یوم آزادی کی جانب گامزن ہیں۔

Advertisement

ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اب یہاں رہیں گے۔ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے۔ چنانچہ آب و ہوا، موسموں اورمعیشت کے مختلف حصوں پر ان کے اثرات میں متوقع تبدیلیوں کے مطابق معیشت کی ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہیں۔ اگرچہ ہم کاربن کے اخراج میں 2 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتے ہیں، لیکن اس کے منفی نتائج کے لحاظ سے اس کا نقصان ہم پر زیادہ ہے، ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔

موجودہ سیلاب بالکل غیرمتوقع نہیں تھے۔موسلا دھاربارشوں اورسیلاب کی پیشین گوئی اپریل یا اس سے بھی پہلے کی گئی تھی۔ صرف کراچی میں ہونے والی بارش گزشتہ دو دہائیوں کی سالانہ اوسط سے پانچ گنا زیادہ تھی۔ اسی طرح شمالی علاقہ جات میں سالانہ اوسط سے زیادہ بارش ہونے کی توقع تھی۔ حکومت غفلت کا شکار تھی یا بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا پہلے سے اندازہ لگانا مشکل تھا ۔2010 ء کے سیلاب کے برخلاف یقینا موجودہ سیلاب زیادہ شدید ہے لیکن ہم نے اس دردناک واقعے سے کیا سبق سیکھا؟ ممکنہ طور پر کوئی نہیں، لہٰذا بڑے پیمانے پرعوام متاثر ہوئے۔

میرے نقطہ نظرسے اس وقت معیشت کو ہونے والے نقصانات ناقابل برداشت ہیں۔ایک سیاسی رہنما کا کہنا ہے کہ نقصان کا تخمینہ 1 ارب ڈالر کا ہوسکتا ہے،جبکہ دوسرے کا کہنا ہے کہ یہ 5 ارب ڈالر ہوسکتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے خیالی اندازوں کو بڑھاتے ہوئے انہیں 35 ارب ڈالر سے زیادہ کردیا۔ دراصل جہاں سے وہ یہ اندازے نقل کرتے ہیں وہ ابتدائی اندازے ہوتے ہیں، یہ زیادہ تر اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہیں۔ سیاسی نکتہ اسکور کرنے کے لیے وہ اپنے غیر تربیت یافتہ معاشی ذہنوں سے ایسے اعدادوشمار بتاتے ہیں جو انہیں لگتا ہے کہ زیادہ مؤثر ہوں گے۔ ترجیحات مزید کتنی بے جا ہو سکتی ہیں!

میڈیا کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ایک ہزار سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، تقریباً دس لاکھ گھر یا تو بہہ گئے ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے، 40 ڈیم یا تو ٹوٹ چکے ہیں یا شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، 2سو یا اس سے زیادہ چھوٹے اور بڑے پل ٹوٹ چکے ہیں،بدقسمتی سے پاکستان کے تمام 116 اضلاع بڑے سیلاب کا شکار ہیں۔بہرحال، یہ کافی بہتر اندازے ہیں۔ اس وقت اصل نقصان کا علم نہیں ہے۔ متاثرہ اور بے گھرخاندانوں کو بنیادی ڈھانچے کی مکمل تباہی کا سامنا ہے۔ پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ اشیائے خوردونوش کی دستیابی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پرمتاثرہ عوام بالخصوص خواتین اور بچوں کی حالت زار اوردلخراش مناظرنےعام شہریوں کے حلق سے لقمہ اتارنا مشکل کردیا ہے۔ یہ بات کسی کے لیے بھی تعجب کا باعث ہوسکتی ہے کہ ان پر حکمرانی کے لیے ووٹ مانگنے والے کیسے کسی افسوس یا دل پراحساس جرم کے بوجھ کے بغیرتقریبات یا میلوں کا انعقاد کرسکتے ہیں۔ان میں اتنا حوصلہ ہے کہ تباہ کن سیلابی پانی میں ڈوبے سندھ کا موازنہ وینس شہر سے کرسکیں۔اس طرح کی بے حسی اپنے عروج پر ہے۔

مستقبل قریب میں معیشت کے تمام شعبوں سے متعلق سپلائی چین بری طرح متاثر ہوں گی۔اشیاء کی نقل و حمل میں تاخیر ہوگی۔خام مال کی نقل و حمل میں تاخیر کے نتیجے میں مصنوعات کی تیاری بھی تاخیر کا شکار ہوگی۔جس سے برآمدات میں کمی واقع ہوگی،جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کی قلت سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بیل آؤٹ پیکج کے باوجود روپیہ دباؤ کا شکار رہے گا۔اس سے درآمدات کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے ،اور اگر درآمدی سامان برآمدات کا جزو ہو تو ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔پہلے ہی قلت کی وجہ سےروزمرہ کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں نے آسمان کو چھونا شروع کردیا تھا۔ چند ہفتے پہلے کی قیمتوں کے مقابلے میں ضروری کھانے پینے کی اشیاء 100 فیصد مہنگی ہوچکی ہیں۔ مویشیوں اوربھیڑوں کے نقصان سے ڈیری اور گوشت کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔مہنگائی جو پہلے ہی 42 فیصد پر جنگل کی آگ کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے،مزید بلندی پر پہنچ جائے گی۔مہنگائی کے تناسب سے آمدنی میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ طلب میں بڑی کمی ہوگی۔ عام آدمی کی کھپت کی صلاحیت بہت زیادہ دباؤ کا شکارہے۔جو سماجی بدامنی کے لیے بارود کا کام کرسکتی ہے۔

عظیم نقصان ایک سوال کو جنم دیتا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کیا کر رہی تھی؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی کیا۔ان کی بے حسی کے نتیجے میں جنم لینے والے مصائب و آلام دیکھنے کا انتظار کررہی تھی۔ اسی طرح حکومت بھی یا تو صدمے کی حالت میں نظر آتی ہے یا وہ اپنی سوچ اور عمل میں بری طرح مفلوج ہے۔ اقتصادی بدحالی پہلے ہی معاشی اشاریوں کو روند رہی تھی،عام لوگوں کومتاثر کررہی تھی، اب ان کی بے حسی سے دکھ اور مصیبت دگنی ہوگئی ہے۔

Advertisement

ہم تجربے سے سیکھنے میں بہت ناقص ہیں۔ 2005ء کا زلزلہ اس کی ایک مثال ہے۔ جب تباہ کن زلزلہ آیا، تو ہمارے پاس بحالی کا کام کرنے کے لیے ملبہ ہٹانے والا کوئی بھاری سامان موجود نہیں تھا۔ یہاں تک کہ استعمال ہونے والی ٹارچیں بھی گھریلو استعمال کی تھیں۔ عالمی برادری نے بحالی کی کوششوں میں ہماری مدد کی۔فوری بنیادوں پر مشینیں درآمد کی گئیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مشینیں آج ناقابل استعمال حالت میں ہوں گی۔ یقیناً یہ بات صرف ماہرین ارضیات ہی نہیں جانتے بلکہ اس ملک کا ہر عام شہری جانتا ہے کہ ہمارے شمالی علاقہ جات جہاں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے واقع ہیں، یہاں زلزلوں کا بہت زیادہ خطرہ ہے،خدانخواستہ، تو کیا حکومت کو کسی بھی قسم کی صورتحال کے لیے تیار نہیں رہنا چاہیے، ہرشعبے میں عمومی تیاری کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ہمارے نظام اورعمل کو ایڈہاکزم(وقتی اقدامات) گھیرے ہوئے ہے۔

یاددہانی کے لیے، ہم ایک بار پھر غلط راستے پرہیں۔ پورا ملک جانتا تھا کہ غیر معمولی بارشوں کے پیش نظرسیلاب آنے والا ہے،بارشیں جو ملک کی سالانہ اوسط سے کہیں زیادہ ہوئی ہیں۔خیبرپختونخوا کے مقابلے میں سندھ اوربلوچستان کے بیشتر حصے قابل رحم بے بسی کی تصویر پیش کررہے ہیں۔یہ تباہی سندھ اوربلوچستان کو قدیم دور کے کھنڈرات کے طور پر پیش کررہی ہے۔بڑے شہر،قصبے اوردیہات اب موہنجو داڑو میں تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔

افسوس کے ساتھ، ہم مالی اور مادی دونوں طرح کی امداد کے لیے اپنے روایتی دوست چین کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے دوستوں کی جانب ایک بار پھر رخ کر رہے ہیں۔ فراخدلی کے ساتھ وہ مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ لیکن کیا عوام اورحکومت کو اس بات پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ گزشتہ 75 سال سے ایک آزاد خودمختار ملک ہونے کے باوجود ہمیں دوسروں کے سامنے ہاتھ کیوں پھیلانے پڑتے ہیں۔قوم کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں گہرائی میں سوچنا ہوگا اورعقلمندی سے کام لینا ہوگا۔ اتحاد ہی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی ہماری صلاحیت ہے، اختلاف سے ہم صرف مزید افراتفری پیدا کرسکتے ہیں۔ ہمیں اپنے راستے میں آنے والی قدرتی آفات سے جنم لینے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے معاشی استحکام کو فروغ دینا ہوگا،جیسا کہ ماحولیاتی تبدیلی موجودہ قدرتی توازن کو بگاڑنے کے لیے مزید جڑیں پکڑ رہی ہے۔

ان حالات میں سیاست دانوں کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ یہ پہلے سے ہی مالی کی تنگی کے شکار عوام سے فنڈز کی اپیل کرنا نہیں ہو سکتا، جو زندگی گزارنے کے لیے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے بہت زیادہ بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنی جانب سے ریلیف فنڈ میں عطیات کا اعلان کر کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔لیکن محض چند ایک نےایسا کیا ہے۔سیاست دانوں اور تمام ارکان پارلیمنٹ کو کم از کم اپنی ایک ماہ کی تنخواہ عطیہ کرنا ہوگی۔ لہٰذا پیروکار اپنے قائدین کی پیروی کریں گے۔ خیرات کا آغاز اوپر کی سطح سے ہونا چاہیے نہ کہ معاشرے کے غریب ترین طبقوں سے۔

ملک کا تقریباً 70 فیصد حصہ سیلابی پانی میں ڈوب چکا ہے۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ مسئلے کا حل ملاقاتیں نہیں بلکہ عمل ہے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرعوام کے حوصلے بلند کریں کیونکہ یہ سانحہ بلاشبہ تباہ کن ہے۔ ملک کے تجارتی اورمالیاتی دارالحکومت کراچی کی گلیاں اور سڑکیں بربادی کی تصویر پیش کر رہی ہیں۔سڑکوں پر نقل وحرکت جھیلوں سے گزرنے کے مترادف ہے۔ہمیں جلد ہی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا ہو گا، جو ریاست پرایک اور بڑا بوجھ ہو گا۔متعدد لائنوں پرریلوے کا ڈھانچہ غیر فعال ہے۔ پٹریوں کو اکھاڑ دیا گیا ہے۔ ہر طرف سیلاب کے نقصان دہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 10 ارب ڈالر سے زیادہ لگایا جا رہا ہے۔ بینکنگ اور فنانس انڈسٹری کو ان کی مقروض صنعتوں کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانے میں ابھی وقت لگے گا۔ باالفاظ دیگر،مزید چیلنجزسامنے آنے والے ہیں۔اگر رعایت نہ دی گئی تو نان پرفارمنگ لون بک (جب بینک سمجھتا ہے کہ قرض واپسی کا امکان نہیں رہا) میں اضافہ ہوگا۔ تعمیرنو کےکام میں سیمنٹ، لوہے اوراسٹیل، سینیٹری ویئر،الیکٹریفیکیشن پراڈکٹس وغیرہ جیسے مواد کی قلت یا شدید قیمتوں میں اضافے کا مشاہدہ کریں گے۔ اس سے گھر کی تعمیر کےاس اقدام کو نقصان پہنچے گا جسےعمران خان کی حکومت نے کامیابی سے شروع کیا تھا۔

Advertisement

تمام اقتصادی منصوبے، اگر کوئی ہیں تو،غیراہم ہوجائیں گے۔ وسائل کی کمی ہمیں معاشی طور پر کم از کم آٹھ سے دس سال پیچھے کرسکتی ہے۔ نیا اورمرمت دونوں بنیادی ڈھانچہ راتوں رات تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔

نقصان بہت زیادہ ہے۔ ہمیں ان سیلابوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا اندازہ لگانے میں کم از کم ایک پورا سال لگے گا۔جبکہ دوبارہ تعمیر میں مزید وقت لگے گا۔ ہمارے پاس ان تمام منفی پہلوؤں میں سے ایک اور مثبت پہلو ہے، جس سے خود کواوردنیا کو ثابت کیا کہ ہم ایک لچکدار قوم ہیں جو بحالی کی خواہش اورصلاحیت دونوں رکھتی ہے۔لیکن اب ہم ایسی تعمیرات کریں گے جو قائم رہیں گی، نا کہ اس معیار کی کہ وہ آسانی سے بہہ کر بحیرہ عرب کا حصہ بن جائے۔

ہمیں صرف معاشی سمت کے احساس کے ساتھ دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے،جسے قوم کو اپنانا ہوگا۔

 (مصنف ایک سینئر بینکر اور فری لانس کالم نگار ہیں)

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
فلسطینیوں کی نسل کشی پر ترکیہ میں نیتن یاہو کی گرفتاری کے وارنٹ جاری
پاکستان اپنے اصولی موقف پر ڈٹ گیا ، استنبول مذاکرات میں ڈیڈلاک برقرار
دواجی کون ؟ ممدانی سے پہلی ملاقات، محبت ، شادی کب کیسے اور کہاں ہوئی ؟
دبئی، آئی سی سی میٹنگ جاری، ممبران پاک بھارت کرکٹ بورڈ میں سیزفائر کے خواہاں
سندھ پولیس کی گھوٹکی میں بڑی کارروائی ، 12 بدنام زمانہ ڈاکو مارے گئے
بگ بیش لیگ کی انتظامیہ نے شائقین کرکٹ کی دلچسپی کیلیے منفرد اسکیم متعارف کرا دی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر