Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

تعلیم: آگے کیا ہوگا اور کیا کیا جانا چاہیئے؟

Now Reading:

تعلیم: آگے کیا ہوگا اور کیا کیا جانا چاہیئے؟

پاکستان میں جیسے جیسے تکنیکی اعتبار سے تعلیمی منظرنامہ اپنے وسیع تناظر میں ترقی پارہا ہے، وہیں ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں سیکھنے والوں اور کمانے والوں کی ضروریات آپس میں ضم ہو رہی ہیں۔ملک میں جامعات، کالجزاوراسکول نوجوانوں کی فکری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی تعلیم کی اہمیت سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اگر تعلیمی ادارے اس بات کی ضمانت دیں کہ وہاں ان کے بچے مناسب تعلیم حاصل کرسکیں گے تووالدین اس کے لیے ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے تیارہیں۔

وطن عزیزمیں مادی مصنوعات کے برعکس، تعلیم کی قدرو اہمیت کا اندازہ بنیادی طورپرڈگریوں، ڈپلومہ، کسی سے الحاق یا ذاتی وابستگی، سند، معیارکے مطابق منظوریوں، داخلوں، ملازمت اور معاوضے کے وعدوں کے نام سے لگایا جاتا ہے۔  طلباء کو داخلہ دینے کی غرض سے، کالج اورجامعات ایک طرح سے سنہرے خواب دکھاتی ہیں اوروہ اس مقصد کے لیے غیرملکی پروگراموں کی تشہیرکرتی ہیں، بین الاقوامی یونیورسٹی کے شعبہ جات اور تدریسی عملے کی  تصاویر دکھاتی ہیں اور کسی ریگولیٹری ادارے کے خوف کے بغیرجھوٹے دعوے کرتی ہیں۔

پاکستان میں زیادہ تریونیورسٹیاں اس قدرمہنگی ہیں کہ وہاں تعلیم حاصل کرنا ہر کسی کی بس کی بات نہیں اورجوتعلیم وہ فراہم کررہی ہیں وہ نوجوانوں کے کسی کام کی نہیں۔ اسی لیے پاکستانی کالجوں اورجامعات کواسکالرشپ اور فنڈنگ کے وسائل پیدا کرنے کے لیے صنعت اورکارپوریٹ پارٹنرشپ تک رسائی حاصل کرنے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ٹیمپل یونیورسٹی جوکہ امریکہ کی معروف یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے، کے صدرڈاکٹرجیسن وِنگارڈ کا کہنا ہے کہ ’ یہ ہمارا آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے جس پر کوئی بحث نہیں کی جاسکتی‘

بدقسمتی سے، پاکستان کی زیادہ تریونیورسٹیاں نئی معاشی حقیقتوں سے مطابقت رکھنے کے لیے جدوجہد توکررہی ہیں لیکن طلباء کوایسے پیشے کے لیے تیار نہیں کر رہی ہیں جس کے وہ منتظرہیں۔ تکنیکی مہارتوں کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن پاکستانی تعلیمی اداروں پراس بات کو یقینی بنانے کے لیے دباؤ ہے کہ گریجویٹس صرف کام کی جگہ کے لیے تیار ہوں۔ہمارے ملک میں تعلیم کا مقصد طلباء کو صرف ایک بہترروزگارفراہم کرنا ہے۔ ہائیرایجوکیشن کمیشن ( ایچ ای سی) جیسی یونیورسٹیاں اورریگولیٹرزیہ نہیں جان سکتے کہ کسی بھی مڈ کیریئرشعبہ جات سے وابستہ افراد کو کس طرح نئے ہنر کی طرف راغب کرنے اورنئی مہارتیں سکھانے میں مدد کی جائے، اسی طرح  طالب علموں کے ساتھ  ہمدردی اورنرمی کا رویہ اپنایا جائے۔ہمارے کالجوں کی فیکلٹی اور انتظامیہ سکھنے کے تجربے کی تمام سطحوں میں کیریئرکی تیاری کوشامل کرنے کے لیے تیارنہیں ہے، جو کہ کامیابی کی کلید ہے۔ ان چیلنجز کوحل کرنا آسان نہیں ہے۔لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کی صدا کونظراندازکرکے اس سے بڑے مقصد کی جانب سفراختیارکیا جائے۔

ڈاکٹرجیسن ونگارڈ نے اپنی وائرل لنکڈ ان پوسٹ میں تعلیم کے چارمراحل کی نشاندہی کی ہے۔ زرعی (1600ء تا 1849ء)، جب چند مراعات یافتہ افراد نے رسمی تعلیم کے حصول کا آغاز کیا تھا۔ صنعتی (1850ء تا 1974ء)، جس میں  عالمگیرثانوی تعلیم متعارف کرائی گئی تھی۔ علم اور آگاہی  (1975ء تا 2009ء)، جب انٹرنیٹ نے زندگی، تعلیم اورکام کویکسربدل کررکھ دیا۔ کساد بازاری کے بعد (2010ء سے 2020ء)، جہاں کسی ڈگری کی قدرواہمیت کا سوال نہیں رہا۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اجتماعی طور پر یہ طے کرنا ہے کہ آگے کیا ہوگا اور کیا کیا جانا چاہئے۔

Advertisement

واضح رہے کہ تعلیم اور روزگار کےمابین رابطہ منقطع ہونا ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ کیونکہ جس کی تعلیم دی جارہی ہے اس کے لیے روزگارنہیں اور جس کے لیے ملازمتیں ہیں اس کی تعلیم نہیں دی جارہی۔

ویلے یونیورسٹی سروسزکے تازہ ترین آجرسروے سے یہ بات سامنے آئی کہ  55 فیصد انجمنوں میں مہارت اورہنرکا واضح فقدان پایا گیا۔ ایسے کالجوں کی فوری ضرورت ہے کہ جو پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل کاریگروں کو دوبارہ نئے ہنرسکھانے میں مدد کریں اور انہیں تیزی سے بدلتی لیبرمارکیٹ میں ترقی کرنے اورآگے بڑھنے کے قابل بنائیں۔یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ وبا کے دوران فاصلاتی کام (ریموٹ جاب) یعنی دفتر کے بجائے گھریا کسی دوسری جگہ بیٹھ کر کام کرنے اور سیکھنے نے ٹیک سیوی (جدید ٹیکنالوجی جیسے کمپیوٹرپر کام کرنے کی صلاحیت) رکھنے والے افراد کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ اس نے کالجوں کو تخلیقی طریقے تلاش کرنے کی ترغیب دی تاکہ طلباء کو تیزی سے مہارت پیدا کرنے میں مدد ملے۔نارتھ کیرولینا میں بلیورج کمیونٹی کالج نے 16 ہفتوں کے کچھ کورسزکوآٹھ ہفتے کے کورسزمیں تبدیل کردیا ہے تاکہ طلباء کوعمومی طورپردو سال سے کم وقت میں ایسوسی ایٹ ڈگری مکمل کرنے میں مدد مل سکے۔ بلیورج کمیونٹی کالج کی صدرلورا لیدرووڈ کا کہنا ہے کہ مختصرٹائم فریم کا مطلب یہ ہے کہ طلباء ایک سمسٹرمیں مزید کلاسیں مکمل کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کالج نے نرسنگ، بیالوجی اورکیمسٹری کورسزمیں سیمیولیشن سافٹ ویئرکا استعمال شروع کیا۔ اس سافٹ ویئرنے نرسنگ، سرجیکل ٹیکنالوجی اورنرس کے معاون طلباء کے لیے یہ تجربہ کرنا ممکن بنایا کہ وبا کے بعد ذاتی طورپرکم ہوتے کام کے مواقع میں طلباء کیسے انفرادی طور پراپنا کام جاری رکھ سکتے ہں۔ایجوکیشن ڈیزائن لیب واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک غیرمنافع بخش ادارہ ہے جو اعلیٰ تعلیم کے لیے نئے ماڈلز کوڈیزائن کرتا ہے، پھر ٹیسٹ کرکے اس کا نفاذ کرتا ہے۔ یہ کمیونٹی کالجوں میں سرمایہ کاری کرنے اورمائیکرو اسناد کوتخلیق کرنے کی کوشش کے دوسرے سال میں ہے جس کا مقصد زیادہ مانگ والے ہنر سکھانا ہے۔

ایسے افراد جوکسی ہنرکوسیکھنے کے لیے کسی جگہ کا رخ کرتے ہیں ان سیکھنے والوں کے ساتھ کام کرتے وقت کسی بھی صورتحال کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت حد درجہ ضروری ہے۔ اکثرملازمت پیشہ افراد اپنے خاندان کی کفالت اورضروریات کوپورا کرنے کے لیے جزوقتی یا کل وقتی ملازمتیں کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے، پاکستانی ریگولیٹرزایسے افراد کواپنی تعلیم جاری رکھنے یا مکمل کرنے سے روکتے ہیں۔

مائیکرواسناد ان لوگوں کے لیے ایک طرح کا ہنرہیں، جنہیں کبھی کالج جانے کا موقع نہیں ملا یا مالی حالات یا شادی کی وجہ سے تعلیم کو درمیان میں ہی خیرباد کہنا پڑا۔ ساتھ ہی یہ کمپنیوں کے لیے ایک متنوع ٹیلنٹ پول تلاش کرنے کا ایک ذریعہ ہے، کیونکہ وہ اپنی ضرورت کی تکنیکی اورغیرتکنیکی صلاحیتوں کے لیے مختارنمائندہ کے طورپرڈگریوں سے ہٹ کر ہنرمند افراد کی تلاش رکھتے ہیں۔

کل وقتی انٹرن شپ کی اہمیت کے قطع نظر، اس طرح کی وابستگی ایک بالغ سیکھنے والے کے لیے ممکن نہیں ہوگی جو جلدی سے فارغ التحصیل ہونے کی کوشش کر رہا ہے یا اس طالب علم کے لیے جو پہلے ہی کسی جگہ ملازمت کررہا ہے۔مثال کے طور پر، سنسناٹی یونیورسٹی کے طلباء مطلوبہ فیلڈ میں کام کرنے والے، پارٹ ٹائم کام کرتے ہوئے، کلاس لینے کے دوران، یا کسی ایک پروجیکٹ پر کام کرنے والے سمسٹرز کے ساتھ متبادل تعلیمی سمسٹرکرسکتے ہیں۔ایڈ ٹیک اسٹارٹ اپس بھی اسے بڑھانے میں اہم کردارادا کررہے ہیں، ریپن بھی ایک تجرباتی سیکھنے کا پلیٹ فارم ہے جوکورس کے منصوبوں کے ذریعے آجروں کو طلباء سے جوڑتا ہے۔ آن لائن مارکیٹ پلیس پارکرڈیوے کالج کے طلباء اورحالیہ گریجویٹس کے ساتھ معاوضے اورقلیل مدتی اسائنمنٹس کے لیے معاہدہ کرتا ہے مثال کے طورپر، 20 ریزیومے ( ملازمت کی درخواست) کا جائزہ لینا اور300 ڈالرمیں اعلیٰ امیدواروں کی درجہ بندی کرنا ہے۔اسی طرح ٹیک اور مینوفیکچرنگ اپرنٹس شپ میں بھی ترقی کا امکان ہے۔

2021ء میں، ایجوکیشن ڈیزائن لیب نے یہ سمجھنے کے لیے اعلیٰ تعلیم سے وابستہ 11رہنماؤں کی ایک جماعت کومدعو کیا:’ جس میں یہ جاننا تھا کہ علاقائی ماحولیاتی نظام کی صف بندی کوبہترطریقے سے چلانے کے لیے اعلیٰ تعلیم کس طرح مضبوط اور ترقی کر سکتی ہے؟‘

Advertisement

دس مہینوں کے باہمی اشتراک کے بعد، لیب کے ڈیزائنرزنے تبدیلی کے لیے تین باتوں کی نشاندہی کی جنہیں اعلیٰ تعلیم کے رہنما نافذ کرسکتے ہیں، علاقائی ماحولیاتی نظام کوہم آہنگ کرنے کے لیے اہم ٹولزکے ساتھ ساتھ سب کے لیے اقتصادی نقل وحرکت پرمبنی تبدیلی کوآگے بڑھا سکتے ہیں۔ ایک لچک دار انفراسٹرکچرکی تعمیر، اثرورسوخ کا فائدہ اٹھانا، اوراختراعات کی ترغیب دینے جیسے اقدامات ہیں جونافذ کیے جانے پرسیکھنے والوں کے لیے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے واضح راستے اور معیشت کو ترقی کی جانب گام زن کرسکتے ہیں۔

پاکستان کوشفافیت اورآزادانہ چیک اینڈ بیلنس پرمبنی تعلیمی اداروں کی نگرانی اورجواب دہی کے ایک مضبوط نظام کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ والدین اورطلباء اپنے خواب کے تعاقب میں کہیں پیسہ توضائع نہیں کر رہے ہیں۔

مصنف ایک ایڈ ٹیک ایکسپرٹ ہیں

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
معاشرتی بگاڑ پھیلانے والے ٹک ٹاکرز اب ہوجائیں ہوشیار
سیلاب متاثرین کو بجلی بلوں میں ریلیف دینے کیلئے حکومت کا آئی ایم ایف سے رابطہ
وزیراعظم اور فیلڈمارشل کا دورہ بنوں، اہم فیصلے متوقع
خیبرپختونخوا میں آپریشن، 35 بھارتی حمایت یافتہ خارجی دہشتگرد ہلاک، 12 جوان شہید
گوادر سے غیر قانونی طور پر ایران جانے کی کوشش ناکام، 17 ملزمان گرفتار
کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا ریپ اسکینڈل، پولیس کی تحقیقات میں لرزہ خیز انکشافات
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر