Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

پاکستانی معیشت کی موجودہ صورتحال اور چیلنجز

Now Reading:

پاکستانی معیشت کی موجودہ صورتحال اور چیلنجز

مِنی بجٹ اور نئے ٹیکس

اپنے پہلے منی بجٹ میں، مسلم لیگ (ن ) کے تحت بننے والی اتحادی حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے حکم پر ایک جانب تو لگژری اور غیرضروری اشیا کی درآمدات سے پابندی ختم کردی ہے تو دوسری جانب 50 ارب کے نئے ٹیکس بھی عائد کردیے ہیں۔ یہ اقدامات آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے بیل آؤٹ پیکجزسے قبل کیے گئے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِخزانہ، مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سگریٹ، تمباکو اور اس سے بنی مصنوعات پر36 ارب کے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں جب کہ بقیہ 14 ارب روپے ٹیکس ریٹیلر کی مد میں کئی تبدیلیوں کے تحت وصول کیے جائیں گے۔

دوسری جانب ریئل اسٹیٹ سیکٹر، کیپیٹل مارکیٹ اور بینکوں پرمجوزہ ٹیکس فی الحال موقوف کردیا گیا ہے۔

جی ہاں! اس طرح پاکستان نےآئی ایم ایف کی جانب سے ایک اعشاریہ سترہ ارب ڈالر کےتوسیع شدہ فنڈ حاصل کرنے کے لیے اس ساتویں اور آٹھویں جائزے میں پیش کردہ تمام تجاویزاور شرائط مان لی ہیں۔ اسی کے ساتھ قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے چار ارب ڈالر کےاضافی فنڈ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ چینی قرضے کی مدتِ واپسی میں تبدیلی بھی حاصل کرلی ہے۔ تاہم آئی ایم ایف اب بھی بعض معاملات پر مزید وضاحت چاہتا ہے۔

Advertisement

حکومتی حلقوں کے مطابق ملک سے قیمتی زرِ مبادلہ کے اخراج کو روکنے اور اس پر قابو کے لیے 19 مئی 2022ء کو مختلف لگژری اشیا پر پابندی عائد کی گئی تھی اوراب ، خود آئی ایم ایف کے کہنے پرحکومت نے اسے ختم کردیا ہے۔

مفتاح اسماعیل کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ زیادہ تعداد میں کھائی جانے والی غذائی اشیا کی درآمد پر توجہ دی جائے جن میں 10 لاکھ ٹن گندم، 2 لاکھ ٹن یوریا، کپاس، خوردنی تیل اوردالیں وغیرہ ہیں تاکہ ملک میں ان اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے ڈالرکی انتہائی محدود تعداد کے تناظرمیں پاکستان کے پاس مہنگی مرسیڈیز، آئی فون اورگھریلواشیا جیسے پرُتعیش اشیا کو روک کر23 کروڑ افراد کی غذائی ضروریات پرتوجہ دینے کا آسان حل موجود ہے۔

آئی ایم ایف کے مطالبے پرعمل کرتے ہوئے حکومت نے درآمدات پرپابندی تو اٹھادی ہے لیکن اسی دوران غیرلازمی اورلگژری آئٹم پر ڈیوٹی کی بجائے انتہائی ضروری اشیا پر400 سے 600 فیصد ڈیوٹی عائد کردی ہے۔

وزیرِخزانہ نے صنعت کاروں کویقین دلایا ہے کہ برآمدات میں مدد دینے والی مصنوعات کی ضروری مشینری اوران کےفاضل پرزہ جات کی درآمدات پرکوئی پابندی نہیں لگائی گئ ہے لیکن اب بھی مقامی پیداواراورضروریات کی اشیا بنانے والی مشینری پرکئی پابندیاں عائد ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسی طرح آٹوموبائل، اسمارٹ فون اورگھریلوبرقی اشیا بنانے والے افراداورتاجرکچھ وقت کےلیے پہلے کے مقابلے میں دست یاب  ضروری اشیا کی نصف تعداد منگواسکیں گے۔

ٹیکس اقدامات کے حوالے سے انہوں نے اپنی اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ خوردہ فروشوں سے 42 ارب روپے ٹیکس وصولی کے اہداف درست نہیں تھےکے کیونکہ یہ چھوٹے تاجروں پربھی لاگو ہوتا اورایک سے دوہزار روپے کے ماہانہ بل دینے والے ایسے صارفین بھی اس میں شامل تھے جو 50 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسے شروع سے یعنی یکم جولائی سے ہی ہٹانا چاہیےتھا۔ اس طرح کل 42 ارب کی بجائے 27 ارب ہی حاصل ہوسکیں گے اور 15 ارب کا فرق بہرحال موجود رہے گا۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ وہ اگلے چند روزمیں ایک آرڈینسنس کی بدولت 5 فیصد سیلز ٹیکس اور7 اعشاریہ 5 فیصد انکم ٹیکس لاگو کریں گے جو تین ماہ تک یعنی 30 ستمبر2022ء تک لاگو رہے گا۔

یکم اکتوبر2022ء تک 50 یونٹ کے استعمال پر بھی ٹیکس لاگو کیا جائے گا اور اسے بتدریج بڑھا کر7 اعشاریہ 5 فیصد تک لایا جائے گا، پھر 10 فیصد ہوگا، پھر 12 اعشاریہ 5 فیصد اور آخرکار 1 ہزار یونٹس پر 12 اعشاریہ 5 فیصد سیلز ٹیکس اور 20 فیصد انکم ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔

وزیرِ خزانہ کے تمام دعووں کے باوجود اعدادوشمارحوصلہ افزا نہیں کیونکہ کنزیومرپرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے تحت مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے جوجولائی 2022ء میں 24 اعشاریہ 9 فیصد تک پہنچ چکی ہے جب کہ جولائی 2021ء میں یہ صرف 8 اعشاریہ 4 فیصد پر تھی۔

عالمی وبا کورونا کے بعد سال بہ سال مہنگائی بڑھی ہے اس میں بین الاقوامی مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کا عنصر اورزرِمبادلہ کے ریٹ کا بھی حصہ ہے جوعالمی وبا کے بعد بہت تیزی سے بدلتے رہے۔

بین الاقوامی مہنگائی کے نتیجے میں گیس، بجلی، ایندھن، ٹرانسپورٹ اورکھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافےکے بھی مقامی معیشت پراثرات مرتب ہوئے۔ جہاں ٹیکس اورمحصولات کی صورت حال پہلے سے مشکلات سے دوچارہے۔

ماہانہ معاشی جائزوں اور امکانات کے تحت دسمبر2021ء میں ملکی ٹیکس کی شرح میں 35 فیصد تک اضافہ ہوا اورجولائی تا نومبر2021ء کے مالیاتی سال میں اس کی شرح 01 اعشاریہ 931 کھرب روپے تک جاپہنچی جوکہ دسمبر 2020ء کی معاشی اپ ڈیٹ کے لحاظ سے 1 اعشاریہ 431 ٹریلین روپے تھی۔ براہِ راست ٹیکس کی وصولی 31 فیصد تک بڑھی ہے، جب کہ ڈومیسٹک محصولات میں مجموعی طورپر40 اعشاریہ 7 فیصد کا اٖضافہ ہوا ہے۔

Advertisement

یہ عالمی وبا کے بعد رونماٗ ہونے والے گزشتہ چند ماہ کی اقتصادی ومعاشی صورت حال کا ایک مختصرجائزہ ہے۔ جہاں تک معاشی صورت حال کا سوال ہے تو یہ اعدادوشمار کسی بھی طرح حوصلہ افزا نہیں اورپاکستان کو ایک اور بحرانی انتشار کی جانب دھکیل دیں گے جن میں غذائی عدم تحفظ سرِفہرست ہے۔

دوسری جانب پاکستان اپنے سرکاری ادارے پاکستان اسٹیٹ آئل ( پی ایس او) کو بچانے کی سرتوڑکوشش کررہا ہے جو بیرونی قرضوں کی بنا پردیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے۔

پی ایس اوکو بچانا ہرصورت ضروری ہے کیونکہ یہ ملکی توانائی کی فراہمی میں ریڑھ کی ہڈی سے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ توانائی والے ایندھن کی بلاتعطل فراہمی واحد آخری شے ہے جسے بچانے کی ضرورت ہے۔

حکومتی اداروں کے غیرمعمولی بل اورواجبات کی ادائیگی ایک درست قدم تو ہے لیکن اس کے لیے حکومت کو اضافی آمدنی کی ضرورت ہے تاکہ آمدنی اور خرچ کوبرابرکرتے ہوئے بجٹ کے اعدادوشمار قابو میں رکھے جاسکیں اوراس کا ممکنہ حل یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ برقرار رکھا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں اس صورت حال یہ تمام امورانجام دینا ایک راہِ خارزار ہے لیکن امید رکھی جاسکتی ہے کہ اس ضمن میں حکومتی ادارے کسی جامع حل کی جانب بڑھیں گے۔

اس تمام تناظرمیں پاکستان کا ائی ایم ایف کی تمام شرائط کوماننا اوراس پر مناسب اقدامات کرتے ہوئے ایک تیزی سے ختم ہوتے ہوئے بیل آٓؤٹ پیکج کو بحال کرنا اس سمت میں درست قدم ہے جو کایا تو نہیں پلٹ سکتا لیکن کچھ بہتری ضرورہوسکتی ہے۔

Advertisement

تاہم، ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے گِرانی مزید بڑھے گی اوریہ اس وقت ہورہا ہے جب لوگ پہلے ہی گزارا کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔

جہاں تک پاکستان کا سوال ہے تو کچھ عجیب نہیں کہ سخت مالیاتی اورمعاشی پالیسیوں سے غیریقینی صورتحال اور مہنگائی کی شدت مزید بڑھ رہی ہے۔

غریب دوست اورکاروباردوست کے دل فریب نعروں سے ہٹ کربھی یہ حکومت گُڈ گورنینس میں مسلسل پیچھے ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت مہنگائی کے خلاف ٹھوس اورمؤثراقدامات کرے، فوری طورپرملکی نمواورترقی پرتوجہ مرکوز کرے۔ اسی طرح کڑے وقت میں درپیش مسائل کوکسی حد تک حل کیا جاسکتا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پی ٹی اے اور میٹا کا مشترکہ قدم، پاکستان میں انسٹاگرام پر کم عمر صارفین کیلیے فیچر متعارف
سونے اور چاندی کی قیمتوں میں ایک بار پھر بڑا اضافہ ریکارڈ
شہرقائد میں ٹریفک کی خلاف ورزی؛ دوسرے روز بھی ڈھائی کروڑ سے زائد کے ای چالان
بنگلادیش کے وزیرخزانہ کا ایف ٹی او سیکرٹریٹ کا دورہ؛ ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی قیادت کو خراجِ تحسین
پاک بحریہ کے بابر کلاس کورویٹ "پی این ایس خیبر" کے فائر ٹرائلز کامیابی سے مکمل
پاک امریکی تجارتی معاہدہ؛ خام تیل کی درآمد کا آغاز ہو گیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر