
کسی ہنر میں مہارت کا فقدان، مارکیٹنگ کے بارے میں معلومات کی کمی، کاروباری تعلقات بنانے میں مشکلات اور ابلاغ (کمیونیکیشن) میں حائل رکاوٹیں ان اہم چیلنجوں میں شامل ہیں جن کا سامنا کاروباری خواتین کو کرنا پڑ رہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار مصباح امین نے بول سے گفتگو میں کیا۔ مصباح امین اس وقت انسٹی ٹیوٹ آف بزنس (آئی بی اے) انٹرپرینیورشپ ڈیویلپمنٹ (سی ای ڈی) کے خواتین انٹرپرینیورشپ کے شعبے کی سینئر ایگزیکٹو ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی بی اے – سی ای ڈی میں، بہت سی خواتین بہت سے مسائل کے ساتھ آتی ہیں۔ ہم انہں کاروباری آگاہی فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ کاروبار شروع کر کے اپنی آمدن کو بہتر بنا سکیں۔
مصباح امین، جو مدرز انٹرپرینیورشپ کیمپ کی پروگرام کوآرڈینیٹر بھی ہیں، پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن (PAFLA) کی اسسٹنٹ نائب صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
بول نیوز کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران، مصباح امین نے اپنے ذاتی اور پیشہ ورانہ تجربات، ان شعبوں میں اپنی معلومات سے آگاہ کیا جن سے وہ وابستہ ہیں اور خواتین کی کاروباری صلاحیتوں پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔
انہوں نے کہا “اگرچہ میرا پس منظر صحت عامہ کے شعبے سے متعلق تھا، میں نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) میں شمولیت اختیار کی جہاں میں نے کامیاب ترین کاروباری لوگوں سے انٹرپرینیورشپ کے بارے میں سیکھا۔”
“مختلف کورسز کرنے کے بعد، میں نے اپنے منصوبے پر بھی کام کرنا شروع کر دیا، کیونکہ میں تعلیمی تحقیق اور لکھنے لکھانے کے شعبےسے بھی وابستہ ہوں۔”
ان کا کہنا تھا کہ اپنی ملازمت کے ایک حصے کے طور پر، مختلف کمیونٹیز اور افراد کے ساتھ بات چیت نے انہیں احساس دلایا کہ کاروباری افراد (خصوصاً خواتین) کے مقام کی کیا اہمیت ہے اور انھیں کن مسائل کا سامنا ہے۔
میں نے محسوس کیا کہ مجھے پچھلی ملازمت میں اپنے کام کے لیے جو معاوضہ مل رہا تھا وہ ناکافی تھا اور اپنے طور پر کچھ کرنا اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا وہ کام تھے جس کا میں نے ہمیشہ خواب دیکھا تھا،” انہوں نے مزید کہا: “میں اس ٹیم کا حصہ تھی جس نے ان خواتین کے لیے ایک پروگرام تیار کیا، جسے بعد میں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، جو اپنے بچوں اور خاندان کی بھی دیکھ بھال کر رہی تھیں، تاکہ انھیں اپنے اوپر سرمایہ کاری کرنے کی تربیت دی جا سکے اور ان میں یہ یقین پیدا ہو کہ وہ بھی معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔”
مصباح امین نے بتایا، “مستقبل میں، میں ایک تربیتی منصوبہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں، جس میں کمیونٹی پر مبنی کام کے لیے سماجی کاروبار پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔”
اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں توازن کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب آپ اپنے شوق کو پیشے میں بدل دیں تو آپ کو توازن محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح میری تمام ذمہ داریاں جیسے کہ تدریس، تحقیق اور کاروبار ایک دوسرے سے باہمی ربط میں ہیں۔
مجھے اس شعبے میں کام کرنے میں مزہ آتا ہے جہاں میں ہر روز نئے جوش و خروش کے ساتھ نوکری پر آتی ہوں، ساتھ ہی اپنے خاندان کو بھی وقت دیتی ہوں۔”
خواتین کو اپنے کاروبار شروع کرنے میں درپیش مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ آئی بی اے – سی ای ڈی کسی خاص مہارت پر کام کرنے کے بجائے ذہن سازی اور تربیت دینے کا کام کرتا ہے۔
مرکز میں کلاسز اور سیشن لینے کے بعد، جب خواتین کاروباری افراد اپنا کاروبار شروع کرتی ہیں، تو انہیں مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں ہنر سیکھنا، اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے بارے میں معلومات کی کمی، اپنے کاروباری تعلقات بنانے میں مشکلات اور کمیونیکیشن گیپ شامل ہیں۔”
شادی شدہ خواتین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ “شادی شدہ خواتین کو وقت کی ایڈجسٹمنٹ کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں اپنے کاروبار کو سنبھالتے ہوئے اپنے خاندان کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے۔”
انٹرپرینیورشپ کے دائرے میں صنفی عدم مساوات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، مصباح امین نے کہا کہ اگرچہ ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے کچھ پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، لیکن اس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مردوں کے مقابلے خواتین کو ذاتی اور پیشہ ورانہ سطح پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ کام کرنے والی خواتین جو اپنی ملازمت کے دوران شادی کرتی ہیں، انہیں خاندانی ضروریات کے تحت وقفہ لینے کی ضرورت پڑتی ہے، جب کہ کچھ خواتین کو اپنے کاروبار شروع کرنے کے لیے اپنے گھر والوں سے اجازت ہی نہیں ملتی۔
ہمیں خواتین کی تمام شعبوں میں شرکت بڑھانے کے لیے انہیں ایسی ملازمتیں دینے کی ضرورت ہے جن میں ان کے کام کے اوقات کار لچکدار ہوں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کو بھی انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر خواتین کم نظر آتی ہیں۔”
ان کے مطابق، کاروبار کو چلانے اور بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری اور سرمائے کی کمی ایک مسئلہ ہے جو ابتدائی مرحلے میں کاروبار کے بانیوں اور کاروباری افراد کو ہر شعبے میں درپیش ہے۔
بطور آئی بی اے – سی ای ڈی رکن وہ کاروبار شروع کرنے کی خوہش مند خواتین کو بھاری سرمایہ کاری اور فنڈنگ کا انتظار کرنے کے بجائے ہاتھ میں موجود رقم کے ساتھ اپنا کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
اس بابت ان کا مزید کہنا تھا، “ہم انہیں صفر سے شروع کرنے اور کم لاگت سے اپنے کاروبار کو آہستہ آہستہ بڑھانے کی تربیت دیتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ قرض لیں یا سرمایہ کاری کے بدلے دوسروں کو حصہ دیں۔”
اگر ابتدائی مرحلے پر ہی کسی کاروباری فرد کو سرمائے کی ضرورت ہو تو، ہم تجویز کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے اُسی سے آغاذ کریں۔ اپنے آپ کو پہچانیں، اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور اپنے حلقۂ احباب کی مدد لیں۔ اس طرح اپنے کاروبار کو جلد شروع کرنا ممکن ہو جائے گا۔
مصباح امین کا خیال ہے کہ بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ کاروبار شروع کرنے کا تصور زیادہ تر ناکام رہتا ہے۔ “اتنے بڑے پیمانے پر کام کرنے کے لیے فنڈنگ اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے سرمایہ کاروں کو منافع دینے کا دباؤ پڑتا ہے۔ ایک تجربہ کار کاروباری جو مالی طور پر بھی مستحکم ہے اور اس طرح کے نقصان کو برداشت کر سکتا ہے، ضرور بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ کاروبار شروع کر سکتا ہے، لیکن ایک نئے کاروباری فرد کے لیے یہ ایک پرخطر منصوبہ ہے۔”
پاکستان کے پاس فری لانسرز کی چوتھی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جس کی دوسری سہ ماہی کے دوران ان کی آمدنی میں گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
عالمی ادائیگی کے پلیٹ فارم، پے او نیرز گلوبل گگ اکانومی انڈیکس کے مطابق، بھارت، بنگلہ دیش اور روس سمیت علاقائی ممالک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سرفہرست فری لانس مارکیٹوں میں پاکستان بھی شامل ہے۔تاہم، اس شعبے کا اتنا بڑا حجم بھی اب تک اس کی قدر میں اضافہ کرنے میں ناکام ہے، کیونکہ ملک کی انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) کی برآمدات میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔
مصباح امین نے برآمدات کے معمولی حجم کا ذمہ دار آئی ٹی کمپنیوں اور افراد کو قرار دیا جنہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر خود کو رجسٹر نہیں کرایا، فری لانسرز کو اپنی کاروباری سرگرمیوں میں درپیش اس کے علاوہ بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، “فری لانس معیشت کے شرکاء اور حکومتی حکام کے درمیان اعتماد کی کمی بہت سی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ان افراد اور کمپنیوں کو حکومت کی طرف سے کوئی سہولیات اور مراعات فراہم نہیں کی جاتیں، جو انہیں رجسٹریشن کے لیے راغب کر سکتی ہیں۔”
فری لانسنگ کا لازمی حصہ لین دین کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنا ہے۔ قواعد و ضوابط نے فری لانسرز کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنا بھی مشکل بنا دیا ہے۔ انہیں اکاؤنٹ کھولنے کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت محدود آپشنز فراہم کیے گئے ہیں۔
ان کے مطابق، مستقل مزاجی کا فقدان ایک اور عنصر ہے جس کا گگ اکانومی پر منفی اثر پڑتا ہے، کیونکہ لوگ طویل عرصے تک توجہ مرکوز نہیں رکھتے اور جلدی ہار مان لیتے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News