Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

دماغی صحت پر بات، وقت کی ضرورت

Now Reading:

دماغی صحت پر بات، وقت کی ضرورت

ایک سوال جو میں اکثر اپنے کچھ کلائنٹس سے اس وقت پوچھتا ہوں جب انہیں کام کے دوران دیگر ملازمین کے ساتھ دباؤ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو، وہ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی زخمی ہے یا اسے چوٹ لگی ہےتو آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟اس سوال کے ممکنہ جوابات یہی ہوسکتے ہیں کہ زخمی کے جسم پر پٹی بندھی ہوئی ہو گی یا وہ لنگڑا کر چل رہا ہو گا ۔یہ جواب سن کر میرا اگلا سوال یہ ہوگا کہ جسمانی چوٹ تو آپ نے دیکھ لی لیکن یہ کیسے معلوم ہوگا کہ کیا اسے کوئی اندرونی زخم بھی آیا ہے یا نہیں ؟اس سوال کے بعد سامنے والا یقینی طور پر کچھ دیر رک کر سوچنے پر مجبور ہوجائے گا۔یہ ممکن ہےکہ آپ اس کے رویے سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسے کسی ذہنی چوٹ یا تکلیف کا بھی سامنا ہے ،لیکن جن لوگوں کو اندر سے چوٹ لگی ہوتی ہے ، ان میں سے بہت سے لوگ پوچھ گچھ یا تفتیش کے ڈر سے اسے اپنے اندر ہی چھپا لیتے ہیں ۔ٹانگ میں موچ بھی آجائے تواس تکلیف کو ظاہر نہیں کرتے ، جب تک کہ کوئی اس بات پر زیادہ توجہ نہ دے یا خیال رکھنے کی حد تک سوال جواب کرتا رہے ، صرف یہ جاننے کے لیے کہ سب کچھ مکمل طور پر ٹھیک ہے بھی یا نہیں؟

یہاں مجھے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اپنے پورے کیریئر میں دماغی صحت کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے میں، میں نے کافی دیر کردی ، مجھے اس بارے میں اس وقت علم ہوا جب اس نے مجھے براہ راست بہت زیادہ متاثر کیا۔میں کافی خوش قسمت ثابت ہوا تھا کہ کام کے دوران دباؤ سے باہر نکلنے کے لئے میرے چیئرمین اور ڈائریکٹر نے میری پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے مجھے مناسب وقت اور موقع دیا ۔ میں اس دباؤ کو کئی سالوں سے لگاتا ر محسوس کر رہا تھا اور یہ اب مجھ پر بری طرح اثر انداز ہورہا تھا ۔ اس کیفیت نے مجھے احساس دلایا کہ میرے اردگرد رہنے والے ہزاروں لوگ بھی اسی تجربے سے گزر رہے ہیں۔میں خود کو خوش نصیب سمجھ رہا تھا کہ میں اس وقت تک میں اپنا کیریئر بنا چکا تھا ، جب میری صحت نے مجھے کام سے کچھ عرصے کےلیے دور رہ کر آرام کرنے کی اجازت مانگی ۔وقت کا یہی تقاضہ تھا کہ میں کام کو ترجیحی بنیادوں پر انجام دوں اور اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ پرُ سکون اور مناسب وقت گزاروں۔ ہم میں سے ایسے کتنے خوش نصیب ہوں گے جو اپنی صحت کی جانب بھرپور توجہ دینے کے ساتھ ایک نئے کیریئر کے حصول میں کامیاب ہوسکیں؟ایسے کتنے لوگ ہوں گے جو میری طرح اپنے شوق کی تسکین کےلئے آمدنی کے دیگر ذرائع کو اپنا سکیں؟شاید یہی وجہ ہےکہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے گزشتہ ہفتے 10 اکتوبر کو عالمی یوم ذہنی صحت کے طور پر منانے کے اعلان کو سنجیدگی سے لیا۔ کارپوریٹ سیکٹر میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو اس حقیقت سے واقف ہوکہ عالمی ادارہ صحت اس دن کو گذشتہ 30 سالوں سے منارہا ہے ۔

اگرچہ بہت سے لوگوں نے اس بات کا نوٹس لیا ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت کم لوگ اس مسئلے کے حل کےلیے کوئی ایسا پروگرام پیش کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں جو ملازمین کو (دوران ملازمت)درپیش ذہنی صحت کے مسائل کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوسکے ۔یقین کیجئے کہ جب میں کارپوریٹ سیکٹر میں اپنے ارد گرد نظر ڈالتا ہوں، تو مجھے بہت سے اشارے اور علامات یاد آتی ہیں جو اُس وقت تو کچھ کہنے یا سمجھانے سے قاصر تھے لیکن اب وہ چیخ چیخ کر مجھے متوجہ کررہے ہیں ۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کئی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہےکہ ہمیں کام (نوکری )کی جگہ پر ذہنی صحت کو کس قدر سنجیدگی سے لینا چاہیے؟ ایک اندازے کے مطابق ڈپریشن اور ذہنی پریشانی کی وجہ سے سالانہ 12 بلین کام کرنے کے دن ضائع ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے عالمی معیشت کو تقریباً 1 ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ اس حقیقت کی اہمیت کے پیش نظر ، اگر اس بات کو کمپنی کی بیلنس شیٹ پر ڈالنا ضروری ہوگیا ہے تو بورڈ آف ڈائریکٹرز لازمی طور پر اس حوالے سے نوٹس لینے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ وہ یہ ضرور سوچیں گے کہ ایسے افراد کو، چلنے والی کمپنیوں کی تعداد سے تقسیم کرنے سے فی کمپنی زیادہ رقم خرچ نہیں ہوگی لیکن یہ بات یا یہ تقسیم اتنی آسان نہیں ہے ۔ کچھ کمپنیوں کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور وہ تکلیف پہلے سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔

چیف ایگزیکٹیو افسران یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ دماغی صحت کے مسائل کی بڑی وجوہات کا تعلق کمپنی سے باہر کے عوامل سے بھی ہوسکتا ہے۔ میں اس بات سے متفق ہوں کہ پاکستان میں انفراسٹرکچر کی کمی اور یوٹیلیٹیز (بنیادی خدمات )کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ملازمین کو دوران ملازمت دماغی صحت کے مسائل جیسے نفسیاتی تشدد یا بہتر اصطلاحات کے استعمال کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔اس کے باوجود کارپوریٹس کے پاس اہل افراد اور رقم دونوں لحاظ سے وسائل موجود ہیں جو یہاں کے پبلک سیکٹر کے پاس نہیں ہیں، جس کی بدولت ذہنی دباؤ کے اثرات کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

Advertisement

پاکستان میں، کم از کم وہ ادارے اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کی آپ کو ہر سطح پر پبلک سیکٹر کمپنیوں، یہاں تک کہ حکومتی اداروں میں کمی نظر آتی ہے۔اسی طرح آرگنائزیشنز اب بھی زیادہ اچھا کام کر سکتی ہیں۔مثال کے طور پر، میں ہر آرگنائزیشن میں ایک مشیر کا عہدہ شروع کروں گا۔چاہےوہ درمیانے درجے کی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہی کیوں نہ ہو۔

یہ صرف پرہیزگاری کے مقاصد کے لیے نہیں ہے بلکہ پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔مجھے یقین ہے کہ پوزیشن (عہدہ )سے وابستہ لاگت خود کو معیار کے فوائد کے لحاظ سے ادا کرنے کے قابل ہوگی جو پھر مقداری نتائج میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر، زیادہ پیداواری آمدنی میں اضافہ کا باعث بنتی ہے جو ایک مشیر کی لاگت کو پورا کرتی ہے۔

ان لوگوں کے لیے جو شاید اسے ایک عیش و عشرت سمجھتے ہوں، یاد کریں کہ پاکستان میں کتنی آرگنائزیشنز کے پاس ہیومن ریسورسز مینیجر تھے جو کہ ایک وسیع ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کو چھوڑ دیں۔اب بہت سی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کے پاس ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹس موجود ہیں جن کی قیادت ایک تجربہ کار اور بھاری تنخواہ والے ایگزیکٹو کرتے ہیں۔آج وہ ایچ آر کی قدر کو سمجھ سکتے ہیں ۔پھر انہیں گذرے ہوئے کل دفتر میں بیٹھے، اپنے ملازمین سے بات کرنے اور ان کے مسائل کو سننے والے کل وقتی مشیر کی قدر کا احساس ہوگا۔مجھے یہاں یہ کہہ لینے دیں کہ میں ایک علیحدہ اور خود مختار پوزیشن کی بات کر رہا ہوں جو ایچ آر کے ماتحت نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی ملازمت کی تفصیل شامل ہے ،جسے فی الحال ایچ آر کے شعبے میں کوئی شخص سنبھالتا ہے۔مشیر، تمام پہلوؤں سے ، ایک معالج کی طرح ہوگا۔تجربہ کار اور اہلیت کا بھی حامل ہوگا۔ ملازمین کے تمام پیشہ ورانہ مسائل کو اب بھی ایچ آر کا شعبہ ہی دیکھے گا۔ کونسلربنیادی طور پرصرف اس مسئلے کو سن سکے گا جس کا ملازم کو دفتر میں یا دفتر کے باہر سامنا ہے۔دراصل یہ اس پوزیشن کا بنیادی مقصد ہے۔ ذاتی مسائل کا معالج بننا ملازم کےلیے پریشان کن ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ذاتی ذہنی صحت کے مسائل میں دفتر کو کیوں شامل کیا جائے؟تو اس کا جواب یہ ہےکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ویسے یہاں پر میرا جوابی سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے ملازمین کو میڈیکل انشورنس کی سہولت کیوں دی گئی ہے؟ جب کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب یہ سہولت محض چند بڑی کمپنیوں تک محدود تھی۔ جس طرح طبی بیمہ تیار کیا جاتا ہے ۔میں صرف اتنا بتا رہا ہوں کہ ہمارے پاس ذہنی صحت کی لاگت بھی شامل ہے۔

یہاں اگلا سوال یہ ہوگا کہ کیوں نہ اسے میڈیکل انشورنس پالیسی میں شامل کیا جائے؟اس کی ایک ناکافی وجہ یہ ہے کہ ایک اچھے معالج کےانتظار کی مدت بہت طویل بھی ہوسکتی ہے اور اس میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ لاتعداد ملازمین اتنی دیر سے گھر پہنچتے ہیں کہ ان کے اندر انتظار گاہوں میں گھنٹوں بیٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی، اور انہیں وہاں تک پہنچنے میں ٹرانسپورٹ سمیت دیگر مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے جس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ کے پاس دفتر میں کوئی کونسلر بیٹھا ہو ، تو ملازمین دفتر ہی میں ملاقات کا وقت لے کر اس سے مل سکتے ہیں ۔ ہر ہفتے 30 منٹ کا سیشن ان میں سے بہت سے لوگوں کے مسائل کو حل کر سکتا ہے ۔ان کے لیے کوئی بھی دوا تجویز کی جاسکتی ہے اور ان کے اکاؤنٹس سے تصدیق کی جا سکتی ہے جیسا کہ میڈیکل انشورنس صرف اس وقت ملتا ہے جب ملازم اسپتال میں داخل ہو، کیونکہ ایسے موقع پر جعلی نسخوں کا استعمال ممکن نہیں ہوتا ۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہےکہ ملازمین ،معالج کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ملازمین ساتھیوں کے سامنے خود کو ظاہر ہوتا ہوا محسوس کریں گے؟ یہی وجہ ہے کہ میں ایک مشیر کی حیثیت سے صورتحال کوواضح کر رہا ہوں اور یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ملازم کام کے دوران اپنے مسائل پر بات کر سکتا ہے۔ پیشہ ور اور تربیت یافتہ مشیر ہمیشہ ہر چیز کو خفیہ رکھتے ہیں تاکہ کوئی بھی ذاتی مسئلہ پوشیدہ رہے۔اس کے علاوہ ، جب آرگنائزیشن اس صورتحال پر بات کرتی ہے تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ دماغی صحت ایک حقیقت ہے اور اگر بورڈ آف ڈائریکٹرز کسی کونسلر کی خدمات حاصل کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک حقیقی اور وقت کی ضرورت ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا، 1970ء کی دہائی میں، وہ آرگنائزیشنز جن کے پاس ایچ آر کے شعبے نہیں تھے، ان کی رائے تھی کہ ادارے میں اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی اور یہ کہ شعبے کے سربراہوں کو ایچ آر کی منصوبہ بندی سمیت دیگر مسائل کے تمام پہلوؤں کو سنبھالنے کے قابل ہونا چاہئے۔تب انہوں نے محسوس کیا کہ ملازمین ایک اپنی ایک قدر ہوتی ہے اور اس کی الگ انداز سے ہینڈلنگ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کہ تمام شعبوں کے سربراہان دفتر کے تمام امور کو نہیں سنبھال سکتے ،جیسا کہ آج ایچ آر مختلف چھوٹے بڑے اداروں میں ان امور کی نگرانی کرتے ہیں ۔ کمپنیاں اب بھی طبی انشورنس پالیسی میں ذہنی صحت کو شامل کر سکتی ہیں، لیکن ایسا صرف غیر معمولی صورت میں ہی ممکن ہے۔میں اس بات سے ناواقف ہوں کہ میڈیکل انشورنس پالیسیوں میں تھراپی شامل ہے یا نہیں ؟ جب تک اس مد میں رقم کی وصولی اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک کہ ملازم اسپتال میں داخل نہ ہوجائے لیکن چونکہ میڈیکل پالیسی فوری طور پر خاندان کے دیگر افراد تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے جنہیں اس کی ضرورت پڑسکتی ہے، اس لیے اسے علاج میں شامل کیا جانا چاہیے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ملازم کو خود تو کوئی ایسا طبی مسئلہ درپیش نہ ہو لیکن شریک حیات یا بچوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی ذہنی عارضہ لاحق ہو تو یہ کمپنی میں کام کرنے والے ملازم پر اثر انداز ہوسکتا ہے ۔یہاں میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ آج کل کچھ تنظیمیں، اپنے اخراجات میں کمی لانےکےلیے ملازمین کی مجموعی تعداد میں کمی لانے کی خواہشمند ہیں لیکن ایک بار پھر، میں اس نکتے کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آخر کار بورڈ میں ایک کونسلر رکھنے سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے،اور کچھ نہیں تو عوام کی بھلائی کے لیے ہم نا صرف اس کے بارے میں بات کریں بلکہ اسے بھی نافذ کریں ۔دماغی صحت کے حوالے سے ہر روز با ت کیا کریں ۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں؛ 31 خارجی دہشت گرد جہنم واصل
بھارت کی قومی ٹیم بھی انتہاپسندوں کے نرغے میں، ہاتھ نہ ملانے کی وجہ سامنے آگئی
کیش لیس اکانومی؛ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان تعاون مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسرا ہائی وولٹیج ٹاکرا 21 ستمبر کو ہونے کا امکان
میچ ہارگئے توکیا ہوا جنگ توہم جیتے'، پاکستانی شائقین کے بھارت پر کرارے وار
اسٹار لنک کی انٹرنیٹ سروس ایک بار پھر متاثر، ہزاروں صارفین مشکلات کا شکار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر