Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

برطانوی معیشت کا سنگین بحران اورحالات کے تقاضے

Now Reading:

برطانوی معیشت کا سنگین بحران اورحالات کے تقاضے

برطانیہ صدیوں سے سیاسی نظریات، سائنسی ایجادات، صنعتی ارتکاز، فلسفیانہ افکار اور فنی مہارتوں کا مرکز رہا ہے۔ برطانیہ یورپی عالمی نوآبادیاتی قبضہ گیری کا مرکزی کرداررہا ہے۔ برطانیہ خلافت عثمانیہ کے بطورسُپرپاورزوال کے آغازپرایک متبادل سُپرپاور کے طورپرابھرکر سامنے آرہا تھا۔ تہذیبوں، خلافتوں، سلطنتوں اورعالمی طاقتوں کا عروج یا زوال لمحاتی یا آناُفاناً کا واقعہ نہیں ہوتا بلکہ صدیوں کے سیاسی، سائنسی، سماجی، معاشی، مالیاتی، تزویری ،فلسفیانہ ارتقااورجنگی مہمات کا عمل کسی بھی خطہ، علاقے، تہذیب یا تمدن کے عالمگیراثرات کے پیمانے طے کرتا ہے۔ اوریہی عمل کسی ریاست یا مملکت کی عالمگیربالادستی کی بنیاد پراس کے سُپرپاور ہونے کے معیارات کا فیصلہ کرتا ہے۔

برطانیہ دنیا میں سرمایہ داری، لبرل ازم، نیولبرل ازم، انارکزم، سیکولرازم، سوشلزم اور کمیونزم جیسے نظریات، طرزہائے حیات وتصورات کا ایک اہم مرکزبھی رہا ہے۔1686ء کےعظیم برطانوی انقلاب،1776ء کے امریکی انقلاب اور1789ء کے فرانسیسی انقلاب نے جس روشن خیالی کے عہد کا آغاز کیا، وہ عہد دراصل لبرل ازم کے آغاز کا دور تھا۔ لبرل ازم کے پہلو بہ پہلو اس کے خلاف کمیونزم ایک متبادل نظام حیات کے طورپرابھرا۔ لبرل ازم نے سرمایہ داری کی نظریاتی آبیاری کی جب کہ کمیونزم ملکیت پرستی اور سرمایہ کے ارتکازاوراستحصال کے خلاف ایک اور نظریہ کے طورپرسامنے آیا۔ سرمایہ داری کی نظریاتی آبیاری آدم اسمتھ نے کی جو1723ء میں برطانیہ کے صوبہ اسکاٹ لینڈ کے مشرقی ساحلی شہرکرکولڈی میں پیدا ہوا جب کہ کمیونزم کونظریاتی طورپر کارل مارکس نے مسلح کیا جس نے زندگی کا نصف آخری حصہ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں گزارا اور یہاں پرہی اس نے معرکتہ الاراء تصنیف “سرمایہ” لکھی۔برطانیہ کے بارے میں تعارفی کلمات قدرے طویل ہوگئے مگرہم نے اس اظہاریہ میں دراصل رواں دور میں برطانیہ کے معاشی حالات کے بارے میں بعض معروضات اورچند حقائق پیش کرنا تھے۔ سب سے پہلے آپ کوچونکانے سے گزارشات کا آغاز کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں برطانیہ کا امیرترین شخص یا خاندان کون ہوسکتا ہے۔ یقیناً آپ بھی میری طرح یہی کہیں گے کہ ظاہرہے، برطانیہ کا سب سے مالدارشخص کوئی انگریز ہی ہوگا، یا پھریہ بھی کہا جاسکتاہے کہ کوئی امریکی، فرانسیسی، جرمن، ڈچ، ہسپانوی یا اطالوی برطانیہ کا امیرترین شخص یا خاندان ہوسکتا ہے۔جی نہیں ایسا نہیں ہے، میں یہ تجسس ختم کرتا ہوں، برطانیہ کا امیرترین خاندان سندھ کے شہر شکارپورمیں پیدا ہونے والے پرمانند دیپ چند کا خاندان ہے جس کے برطانیہ کے علاہ صرف امریکہ میں 50 ارب ڈالر کے اثاثے ہیں۔ اس شخص نے 1914ء میں شکارپور میں اپنی کمپنی ہندوجا گروپ قائم کی تھی۔اس گروپ نے اپنا پہلاغیرملکی دفتر1919ء میں ایران میں قائم کیا تھا۔ یہ گروپ آٹوموبائل، انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیا انٹرٹینمنٹ اینڈ کمیونیکیشن، انفرا اسٹرکچرپروجیکٹ، آئل، کیمیکلز، توانائی، ریئل اسٹیٹ، ہیلتھ کیئراوردیگر شعبوں میں بین الاقوامی سطح پرکاروبارکرتا ہے۔

اب ہم واپس برطانوی معیشت کی موجودہ صورتحال پرآتے ہیں جوان دنوں شدید بحران کا شکار ہے۔ برطانوی معیشت اوپرتلے دوبڑے واقعات کے زیراثرموجودہ زبوں حالی کا شکارہوئی۔ سب سے بڑا دھچکہ اسے بریگزٹ سے پہنچا اور رہی سہی کسرکووڈ-19 نے پوری کردی۔ بریگزٹ کے بعد یورپی ممالک کے باشندوں کے برطانیہ سے چلے جانے پرافرادی قوت کی کمی واقع ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی بینک آف انگلینڈ نے جاب مارکیٹ سے باہر ہوجانے والے افراد پراپنی نظریں مرکوزکردیں۔ مزید برآں ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ نے ٹیکس ریونیوکی کمزوریاں ظاہرکرنا شروع کردیں۔ اس کے ساتھ کووڈ-19 پراُٹھنے والے اخراجات نے سماجی تحفظ اورہیلتھ کیئرپرپڑنے والے بوجھ میں اضافہ کردیا۔ یوں برطانوی معیشت کودرپیش خطرات ابھرکرسامنے آنے لگے۔ مثلاً کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ، پیداواری ترقی میں کمی، عالمی سرمایہ کاری میں کمی، غیرمتوازن شرح نمواورافراطِ زر نے معیشت کی ترقی کے آگے بند باندھنے کا کام کیا۔ علاوہ ازیں افراطِ زر کا ڈبل ہندسوں میں چلے جانا کوئی کم ہوشربا نہیں تھا کہ ملک پر کسادبازاری کے خطرات منڈلانے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بینک آف انگلینڈ کے لیے شرح سود میں قابلِ ذکراضافہ کرنے کے حالات پیدا ہوگئے۔

یورپی ماہرین خاص طورپرپیرس کے ایک تھنک ٹینک کے چیف اکنامسٹ لاؤرنس بُون کا کہنا ہے کہ برطانیہ کئی مسائل کے مجموعے کے باعث بحران کا شکارہوا جن میں شرح سود میں اضافہ، بھاری ٹیکسوں کا نفاذ، تجارت میں کمی اور خوراک اورتوانائی کے اخراجات میں بھاری اضافہ شامل ہیں۔ ادھر بی بی سی نے اس امرکی پیشین گوئی کی کہ رواں مالی سال کی دوسری اور چوتھی سہ ماہی میں جی ڈی پی پر دباؤ رہےگا۔معاشی ماہرین یہ امکانات ظاہرکررہے ہیں کہ شرح سود میں اضافہ، افراطِ زر اور کساد بازاری کے خدشات کا نتیجہ گھروں کی قیمتوں کے 10 سے 15فیصد تک گرنے کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ بینک آف انگلینڈ سال رواں میں کساد بازاری کے خدشات ظاہر کرچکا ہے۔ موجودہ صورتحال کے کئی اسباب ظاہرہورہے ہیں لیکن یوکرین جنگ کے یورپ کی معیشت پرپڑنے والے منفی اثرات کوبیان کرنے سے عمداً گریز کیا جارہا ہے۔ ماہرین یہ خدشات بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ برطانیہ میں سراُٹھانے والی کساد بازاری اگلے سال 2023ء میں بھی جاری رہ سکتی ہے۔ یوں برطانیہ سال رواں کے آغازپرہی جس کساد بازاری کا نشانہ بنا وہ نئے سال کے اختتام تک جاری رہے گی۔ بعض ماہرین برطانوی کساد بازاری کا دورانیہ اگلے تین سال تک کا بتا رہے ہیں۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ کساد بازاری کی سنگینی کے بارے میں جیسے اندازے لگائے جا رہے ہیں، برطانیہ میں معاشی صورتحال اس قدرسنگین نہیں ہوگی۔ ادھر ماہرین کا یہ بھی کہناہے کہ برطانوی معیشت پرغیریقینی کے سائے کافی عرصے تک چھائے رہیں گے۔

یورپ کی دیگرمعیشتوں کی طرح برطانوی معیشت پربھی توانائی کے بحران کے سائے منڈلاتے رہیں گے۔ اوپیک ممالک کی طرف سے تیل کی پیداوارمیں روزانہ بیس لاکھ بیرل کمی کے اعلان نے خطرے کی ایک بڑی گھنٹی بجا دی ہے۔ اگرچہ امریکی صدرجوبائیڈن اس اقدام پرسعودی عرب کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے پراُتر آئے ہیں مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سعودی عرب اوپیک کے 13 رکن ممالک میں شامل ایک ملک ہے۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کے اس گروپ میں سعودی عرب کے علاوہ ایران، عراق، کویت، لیبیا، کانگو، متحدہ عرب امارات، وینزوویلا، الجزائر، انگولا، گنی اورگبون شامل ہیں۔ 2016ء میں اس گروپ میں روس بھی شامل ہواتھا جوایک کروڑ بیرل تیل یومیہ پیدا کرتا ہے۔ سعودی عرب کودھمکی کے اثرات سے قطع نظریہ سوال تو رہے گا کہ روس کو کیسے سنگین نتائج کی دھمکی دی جائے گی۔ روس تو یوکرین پرجنگ کی شکل میں ایسی دھمکیوں کے اثرات اورنتائج سے کافی آگے نکل چکا ہے۔

Advertisement

ہم برطانیہ کی معیشت کی جانب واپس آتے ہیں جہاں کساد بازاری کئی برسوں کے لیے اپنے پیرجماچکی ہے۔ برطانوی معیشت کی شرح نمو میں 3اعشاریہ 2 فیصد اضافے کے تخمینے کسی خوشگوارصورتحال کا اظہارنہیں کرتے۔لگ بھگ پچاس باون برس پہلے برطانیہ میں بیروزگاری کی جوشرح تھی آج بھی ویسی ہی صورتحال دوبارہ پیدا ہوگئی ہے۔ ملکہ ایلزبتھ دوم کے انتقال اور بعدازاں ان کی موت کے سوگ کے ایام میں برطانوی معیشت ایک اور جھٹکے کا شکار ہوئی۔ تاہم معاشی ماہرین اور تجزیہ کار اس صورتحال میں امید کی کرن دیکھ رہے ہیں۔برطانیہ موجودہ حالات میں ایک اہم موڑپرکھڑا ہے۔اس وقت توبرطانوی شہریوں کے لیے اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنا ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔1980ء کے بعد افراطِ زر بلند ترین سطح پرپہنچ گئی ہے۔ جو دس فیصد کے قریب جا پہنچی ہے۔ مزید براں روس کی طرف سے توانائی کے وسائل میں بڑے پیمانے پرکٹوتی کے نتیجے میں یہ بحران بھی سنگین ترہوگیا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں برطانوی پونڈ کی قیمت گزشتہ 37 برس کی کمترشرح پر آگئی ہے۔ علاوہ ازیں ترقی کی شرح نموایک اورمسئلہ کے طورپرسامنے موجود ہے۔ حالیہ سوگ کے دنوں میں ترقی کی شرح کارجحان منفی رہاہے۔ یورپ میں توانائی کی قیمتوں نے لوگوں کے روزمرہ کے اخراجات پرہوشربا بوجھ ڈال دیا ہے۔ ایک سال پہلے توانائی کی جو قیمتیں تھیں ان میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ گزشتہ سال یہ قیمتیں 70 یوروفی کلوواٹ تھیں جوایک سال بعد بڑھ کر217 یوروفی کلوواٹ تک جا پہنچی ہیں۔ اس سال موسم گرما نے صدیوں پرانے ریکارڈ توڑدیئے مگراس بارشہریوں کے لیے موسم سرما کاٹنا بھی ایک بڑامسئلہ ہوگا۔ غالباً لوگوں کے بجلی اورگیس کے بلوں کی ادائیگی کے لیے ضروری رقوم کادستیاب ہونا بھی خاصا دشوار ہوگا۔

اس قدرمایوس کن صورتحال میں معاشی ماہرین اورتجزیہ کاروں کے اندازوں کے برعکس یہ توقع کی جارہی ہے کہ اگلے سال اپریل میں معاشی نمومیں ترقی کی رفتاربڑھ جائے گی۔ قومی شماریات کا دفتریہ اندازہ لگا رہاہے کہ گزشتہ مہینوں کے اعدادوشمارپرنظرثانی سے معیشت کی ایک مختلف تصویرسامنے آتی ہے۔ چیف یوکے اکنامسٹ کا کہنا ہے کہ اعدادوشمارسے یہ ظاہرہوتاہے کہ افراطِ زرمیں اضافے کے باوجود معیشت ترقی کی جانب پیش قدمی کرتی محسوس ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے یہ خبریں آرہی تھیں کہ بینک آف انگلینڈ اگست میں شرح سود میں0اعشاریہ 5 فیصد اضافہ کرے گا، مگراس نےدرحقیقت0 اعشاریہ25 فیصداضافہ کیا۔ یوں اندازہ ہوتا ہے کہ خراب حالات کے باوجود معیشت سنبھلتی دکھائی دے رہی ہے۔ان تمام تر خوش گمانیوں کے باوجود برطانیہ کو اپنی معیشت کی بہتری کیلئے تجارتی توازن کوبہتربنانے، غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے ماحول سازی اوربریگزٹ کے نقصانات کوپوراکرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ توانائی کے بحران کوحل کرنے کیلئے معاملات کی سنگینی کوامریکی مفادات کے نقطۂ نظرسے دیکھنے کی بجائے خوداپنے معروضی حالات کوپیش نظررکھنا ہوگا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پاکستان نے اینٹی ڈرون جیمر گن تیار کر لی ، ایکسپو نمائش میں متعارف کروا دی گئی
اگلے ہفتے آئینی ترمیم کی کوئی شکل نکل آئے گی ، خواجہ آصف
پاکستان میں پہلی بار گوگل اور ٹیک ویلی کی شراکت سے کروم بوک اسمبلی لائن کا آغاز
زہران ممدانی کی جیت؛ اسرائیل نے تمام یہودیوں کو نیویارک سے واپس بلالیا
دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر مرمتی کام شروع کر دیا گیا ، ترجمان واٹر بورڈ
امریکا، کارگو طیارہ عمارتوں پر گر کر تباہ، عملے کے تین افراد سمیت 9 ہلاک
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر