Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

خواتین اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں

Now Reading:

خواتین اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں

صنفی مساوات ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔مردوں اور عورتوں کے درمیان مواقع تک رسائی اور فیصلہ سازی میں وسیع خلا موجود ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیم تک ضرور ت سے کم رسائی، صحت اور تحفظ کے حوالے سے لاحق خطرات اور سیاسی میدان میں کم نمائندگی کے ساتھ خواتین کا روزگار کے میدان میں بھی عمل دخل زیادہ نہیں ہے۔پاکستان اس سال اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ منا رہا ہے،پھر بھی اسے معاشی ترقی اور ہنر مند افرادی قوت میں توسیع کے لیے اپنی نوجوان آبادی خصوصاً خواتین کا استعمال کرنا ہوگا۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی تقریباً 44 فیصد آبادی کم آمدنی والے طبقے پر مشتمل ہے۔ اسی طرح، صرف 21 فیصد خواتین افرادی قوت کا حصہ ہیں – ان میں سے صرف 25 فیصد خواتین کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری ہے۔ معاشی سرگرمیاں سست پڑ تی جارہی ہیں اس لیے تمام ڈرائیوروں اور لیبر فورس کے سائز کا جائزہ لینا بہت ضروری ہوگیا ہے۔

کل آبادی کا 49 فیصد ہونے کے باوجود، پاکستانی خواتین کی کم سے کم تعداد سرکاری اداروں یا پبلک سیکٹر میں کسی نہ کسی

Advertisement

اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ چونکہ ملک میں گزشتہ برسوں کے دوران فی کس آمدنی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے، اس لیے حالات کو بہتر بنانے کے لیے خواتین کی فعال شرکت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایک اور مسئلہ، جس کا ہماری خواتین کو سامنا ہے، وہ بلا معاوضہ کام ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں انہیں گھر کے کام کاج کی دیکھ بھال کے علاوہ زراعت کے شعبوں میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے معاوضہ نہیں دیا جاتا ۔

پاکستان میں کاروباری افراد کی تعداد ، دنیا کے مقابلے میں سب سے کم ہے اور ان میں سے صرف 8 فیصد کاروباری اداروں کی ملکیت خواتین کے پاس ہے۔یہ حقائق واضح طور پر اشارہ کرتے ہیں کہ معیشت میں خواتین کو بااختیار بنانا اب بھی ایک ضروری عمل ہے اور جس سے فوری فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ترقی کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے اور لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو بحال کیا جا سکے۔ اگر خواتین کو افرادی قوت میں یکساں مواقع فراہم کیے جائیں تو پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار2025ء تک تقریباً 60 فیصد تک یعنی بہتری کی طرف بڑھ سکتی ہے۔رپورٹس کے مطابق جنوبی ایشیا کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں پاکستان میں صنفی برابری سب سے کم سطح پر ہے۔یہاں ہم مختصر عرصے میں بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی پر غور کر سکتے ہیں۔آزادی کے بعد کے ابتدائی سالوں کے دوران ملک کو غربت کی خطرناک شرح کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر ایسے اقدامات کیے گئے ، جو یہاں کی معیشت کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ۔ پاکستان کی دیہی خواتین کا معیار زندگی، بشمول صحت اور تعلیم تک رسائی کا فقدان ان کے معاشی طور پر بااختیار بننے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

تعلیم، صحت جیسی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور معیشت کے شعبے میں سے غیر فعال ہونے کے نتیجے میں خواتین کو معاشی طور پر آزادی بھی حاصل نہیں ہوتی ۔ان اسٹرکچرل اور ثقافتی چیلنجوں کی وجہ سے، پاکستان 2021ء کی پائیدار ترقی کے اہداف کی درجہ بندی میں 165 ممالک میں سے 129 ویں نمبر پر ہے اور اس نے خاص طور پر صنفی مساوات کے اہداف پر مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

ایک تقابلی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی بے روزگاری کی شرح 9 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد ہو گئی ہے،جبکہ بنگلہ دیش نے افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت میں قابل ذکر پیش رفت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ، جس سے اس کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔کاروبار کے میدان میں خواتین کی شمولیت میں رکاوٹ پیدا کرنے والا ایک اور اہم عنصر ثقافتی اور ادارہ جاتی آمریت بھی ہے، جہاں لڑکی ذات کو ایک بوجھ تصور کیاجاتاہے ۔ناقص تعلیمی اور صحت کی سہولیات، لڑکی کی نقل و حرکت پر پابندیاں، کم عمری اور جبری شادیاں، گھریلو کاموں کو مرد ذات کے ساتھ تقسیم نہ کرنے کی روایت، روزگار کے نامساعد حالات، امتیازی سلوک اور کم اجرت یہ تمام عوامل خواتین کو ملکی معیشت میں فعال طور پر حصہ لینے سے روکتے ہیں۔معیشت کے شعبے میں خواتین کی شرکت کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان کو خواتین کے معیار زندگی کو بلند کرنے اور صنفی مساوات میں اضافے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان بنگلہ دیش کی ترقیاتی حکمت عملی کو نقل کر سکتا ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز، ریاست، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی ڈونرز ،بنیادی طور پر خواتین کی تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔در اصل تعلیم یافتہ عورت معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ پاکستان کا زرعی شعبہ تقریباً 65 فیصد خواتین کو ملازمت دیتا ہے، جو

مجموعی ملکی پیداوا ر میں 18 فیصد سے زیادہ کا حصہ ڈالتا ہے۔زراعت کے شعبے میں جدید کاری خواتین کو جدید تکنیکی طریقوں سے واقفیت کے ساتھ ساتھ انہیں بااختیار بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔اسی طرح پاکستان کو صنفی مساوات کے فقدان کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے خواتین پر مبنی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ، اسٹریٹجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک (2020/25) کے تحت برآمدات کو بڑھانے کے حکومتی منصوبے میں ،حکومت کی جانب سے تمام شعبوں کی خواتین کو شامل کرنے اور ان کی مدد کرنے پر زور دینا چاہیے۔

Advertisement

 صنفی فرق ایک ملک سے دوسرے ملک میں جسمانی تشدد اور محرومیوں سے لے کر زندگی میں غیر مساوی مواقع تک مختلف شکلیں اختیار کرتا رہتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مصیبت کے وقت تشدد کا نشانہ بننے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔صنفی عدم مطابقت بھی معاشی زندگی میں مکمل طور پر حصہ لینے کے غیر مساوی مواقع کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

جیسا کہ ورلڈ بینک گروپ کی خواتین، کاروبار اور قانون 2020ء کہتا ہےکہ مواقع ملنےکی یکساں صورتحال اصل میں بہترمعاشیات کہلاتی ہے۔درحقیقت، یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ خواتین کی ملازمت اور صنعت کاری کے میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے دنیا کو اس کے جی ڈی پی کا تقریباً 15 فیصد خرچ کرنا پڑتا ہے۔

میک کینسی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق مکمل صلاحیت رکھنے کی حامل خواتین،اگر مردوں کی طرح معیشت میں حصہ لیں تو اس سے2025ء تک سالانہ عالمی مجموعی ملکی پیداوارمیں معمول کے مطابق 28 ٹریلین ڈالر (26 فیصد) کا اضافہ ممکن ہو جائے گا۔

صنفی مساوات کی پیمائش کے لیے استعمال کیے جانے والے اشاریوں میں سے میک کینسی گلوبل انسٹی ٹیوٹ نے چار

مخصوص مسائل جیسے تعلیم، مالیاتی اور ڈیجیٹل شمولیت، قانونی تحفظ اور بلا معاوضہ نگہداشت کے کام کی نشاندہی کی ہے،جن پر اگر توجہ دی جائے تو کام پر صنفی مساوات حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی ا قتصادی فوائد کو حاصل کرنے کی طرف اہم پیش رفت میں مدد مل سکے گی ۔

یوایس ایڈ پہلے ہی پاکستانی خواتین کے لیے تعلیم، صحت اور بہتر معاش کے لیے سرمایہ کاری کے پروگرام شروع کر چکا ہے۔پاکستان یو ایس ایڈ اور دیگر ایسے اداروں کے تعاون سے خواتین کے لیے مخصوص بجٹ بھی مختص کر سکتا ہے جو دنیا بھر میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔خواتین میں سرمایہ کاری کی بدولت معاشی ترقی، مسابقت، روزگار کی تخلیق اورمجموعی ملکی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔حکومتی اداروں اور بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ خواتین پر مرکوز ترقیاتی پالیسیوں پر توجہ دیں تاکہ مقامی سطح پر انہیں معاشی طور پر بااختیار بنایا جاسکے۔ یہ حکمت عملی خواتین کی تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کی مد میں سرمایہ کاری کے طورپر مدد گار ثابت ہوسکتی ہےاور ہنر مند خواتین کی افرادی قوت کو تیار کرنے کے لیے کاروبار کو فروغ کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔یہ اقدامات بالآخر ملک کی اقتصادی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی خواتین معیشت کے مختلف شعبوں بشمول تجارت اور سرمایہ کاری، حکمرانی اور قیادت میں کام کرنے کی بے پناہ صلاحیت اور ہنر رکھتی ہیں۔دیگر ممالک کی طرح تعلیم یافتہ اور ہنر مند خواتین ورکرز نہ صرف معاشرے کی بہتری بلکہ ملک کی پائیدار ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے اٹھانا بے حد ضروری ہے۔

Advertisement

پاکستان میں بچوں کی دیکھ بھال کی مناسب سہولیات کی دستیابی بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔خواتین کو ترقی دینے بلکہ بعض اوقات انہیں ملازمتیں دینے سے بھی انکار کر دیا جاتا ہے ۔ ان کے حوالے سے ایک غلط تاثر کو پروان چڑھایا جاتا ہےکہ وہ گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے نوکری کے اوقات میں کام پر زیادہ توجہ نہیں دے پائیں گی ۔ خواتین کو مواقع کی فراہمی سے یکسر انکار کرنے کے بجائے، حکومت، کاروباری اداروں اور عوام میں سے ہر ایک کو اپنے تجربات کی روشنی میں نوجوانوں خاص طور پر خواتین کے ساتھ صنفی فرق کو کم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ انہیں درپیش سماجی مسائل پر قابو پا یا جاسکے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
امریکا بگرام ایئربیس کی واپسی کا خواب دیکھنا چھوڑ دے، ذبیح اللہ مجاہد
شکتی سائیکلون کے اثرات، کوئٹہ میں گرد و غبار کا طوفان، حدِ نگاہ صفر کے قریب
کراچی میں جرائم بے قابو، 9 ماہ میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں 50 ہزار کے قریب پہنچ گئیں
غزہ میں ہولناک تباہی، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں لرزا دینے والے حقائق بے نقاب
اسرائیل و حماس میں بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور آج ہو گا، جنگ بندی پر پیش رفت متوقع
سینیٹ اور قومی اسمبلی اجلاس سے پیپلز پارٹی کا واک آؤٹ، ن لیگ سے معافی کا مطالبہ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر