وزیرخزانہ اسحاق ڈارپاکستان مسلم لیگ (ن) پرعوام کا اعتماد بحال کرنے کے امدادی مشن پر ہیں، جسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنے قرض پروگرام کے تحت عائد کردہ سخت شرائط سے بری طرح متاثر کیا تھا۔ لیکن ڈالر کے مقابلے روپے کو مصنوعی طورپرسہارا دینےاوربرآمدات پرمبنی صنعت کے لیے رعایت دینے کا ان کا فیصلہ ملک کے مالیاتی بحران کومزید شدید کر سکتا ہے۔
مفتاح اسماعیل کا وزیر خزانہ کی حیثیت سےغیررسمی طورپراخراج اوراسحاق ڈار کی اس کلیدی عہدے پرواپسی نے بظاہر مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت کی ساکھ کو تحفظ فراہم کیا، کیونکہ وزیر خزانہ کی جانب سے معیشت کو فروغ دینے کے لیے سبسڈیز اور اقتصادی پیکج کےاعلان کےساتھ روپیہ بحال ہوا۔ جوواضح طورپرآئی ایم ایف کے ساتھ وعدے کی شرائط کی خلاف ورزی کررہی ہے۔جب اسحاق ڈار نے ٹیکسوں کی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے پیٹرول کی قیمت میں 12روپے63پیسے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا تومفتاح اسماعیل نے اسے غیرذمہ دارانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایندھن کے ٹیکسوں کو بتدریج 50 روپے فی لیٹر تک بڑھانے کی آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ ٹائم لائن کی کسی بھی خلاف ورزی آئی ایم ایف کے لیے ’’ریڈ لائن‘‘ تھی۔
اسحاق ڈار کے پاس اس جہاز کا رخ موڑنے کے لیے شاید صرف چھ ماہ یا ممکنہ طورپراس سے بھی کم ہیں۔ اور انہوں نے کس طرح بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کے ساتھ غنڈہ گردی اورقرض دہندہ کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا انتخاب کیا ہے۔پاکستان کے پالیسی ساز آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط طے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اسحاق ڈار کا جارحانہ اندازمعیشت کی کمزور بنیادوں کو نہیں بدل سکتا۔ ملک کو مالیاتی استحکام اورزرمبادلہ کے ذخائر کی تعمیر کی ضرورت ہے، ہوسکتا ہے کہ ان اقدامات سے جذبات میں بہت بہتری آئی ہو لیکن ان سے ایک سال سے بھی کم عرصے میں معیشت پرمنفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔
صرف گزشتہ سال کے دوران مارکیٹ میں جتنی تیزی سے بہتری ہوئی ،اتنی ہی تیزی سے خراب ہوئی۔ پاکستان کو مالیاتی پالیسی کے لیے میکرو پروڈینشل اپروچ(بینکوں اور مالیاتی تنظیموں کے قوانین، قواعد و ضوابط جن کا مقصد مالیاتی نظام کو خطرے سے بچانا ہے) کی ضرورت ہے۔ وزارت خزانہ میں محافظ کی تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ مخلوط حکومت نے حقائق کے حوالے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔اسحاق ڈار یہ تاثرقائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اور وہ اس سے معاملات طے کرلیں گے۔ آئی ایم ایف آخری حربے کے طور پرقرض دہندہ ہے، جب کہ پاکستان پریشان حال قرض دار ہے۔ شوکت ترین کی طرح اسحاق ڈار کی ہٹ دھرمی ان کی ناکامی کا سبب ہو سکتی ہے۔
بدقسمتی سے صرف اس بات پر زور دینے سے معیشت اورکروڑوں پاکستانیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔اس مشکل شخص کا نقطہ نظرکام نہیں کرے گا۔ اسحاق ڈارکو بین الاقوامی مالیاتی شراکت داروں کے ساتھ کرنسی ڈیلرز کے ساتھ بات چیت کے مقابلے میں تھوڑے زیادہ تحمل مزاجی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ان کو بہت سے اسٹیک ہولڈرز کا انتظام کرنا ہے اورانہیں محتاط انداز میں چلنا سیکھنا چاہیے۔
گزشتہ ہفتے موڈیزکریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان کی درجہ بندی کو گھٹا کر Caa1 کر دیا، جس نے ملک کے عوامی قرضوں کو’’انتہائی خطرناک‘‘ بنا دیا ہے۔متعدد واضح اشارے ہیں۔ موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو گھٹا دیا ہے۔ موڈیز کا فیصلہ پرانے ڈیٹا پر مبنی ہو سکتا ہے۔ تاہم، اسحاق ڈار کا موڈیز کو ’’مناسب جواب‘‘ دینے کے اپنے منصوبوں کی نشاندہی کرنے والے الفاظ کا انتخاب چونکا دینے والا ہے۔ پھر ایندھن کی قیمتوں میں بڑی کمی کے بعد، آئی ایم ایف کے کنٹری ہیڈ کا ردعمل بھی اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ موڈیز موجودہ وزیر خزانہ کے جواب سے ناراض ہوا ہے اور پانچ پاکستانی بینکوں الائیڈ بینک لمیٹڈ (ABL)، حبیب بینک لمیٹڈ (HBL)، MCB بینک لمیٹڈ (MCB) ، نیشنل بینک آف پاکستان (NBP) اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ (UBL) کے طویل مدتی ڈیپازٹ کی درجہ بندی کو B3 سے گھٹا کر Caa1 کردیا ہے۔اسد عمر، شوکت ترین، مفتاح اسماعیل اوراب اسحاق ڈار کی معیشت کو بچانے میں لگاتار ناکامیوں نے طاقتوں کوغلط سگنل بھیجنے کا خطرہ مول لے لیا، یہ کہ سیاسی جماعتوں کے پاس پیش کرنے کے لیے کوئی معاشی منصوبہ ہی نہیں ہے۔
اسحاق ڈاراچھی لڑائی لڑ سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بغیر کسی کوتاہی، زیبائش یا تبدیلی کے مکمل سچ بولیں۔ مثال کے طورپر یہ دکھاوا کرنا غلط ہے کہ پاکستان کا جاری آئی ایم ایف پروگرام کسی بھی طرح 2013/14 کے پروگرام سے مشابہہ ہے۔ اس وقت ملک آئی ایم ایف کے پاس صرف سستے قرضوں کے لیے گیا تھا، اس لیے نہیں کہ اسے کرنسی کے بحران کا سامنا تھا۔اس بارآئی ایم ایف کے بغیر کوئی دو طرفہ شراکت دارقرض دینے کو تیار نہیں۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) قومی اور پنجاب اسمبلیوں میں نئے مینڈیٹ اور اکثریت کے ساتھ منتخب ہوئی تھی۔ اس بار یہ مختصر مدت کے لیے کمزوراتحاد میں لیڈ یا سینئرشراکت دار ہے۔اس زمانے اوراس وقت کے درمیان میکرو بنیادی باتوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ مسلسل بلند مالیاتی خسارے کے باوجود اسحاق ڈار خرچ کرنے میں مصروف ہیں۔ ٹیکسٹائل برآمدکنندگان کو اس سے زیادہ دیا گیا،جوانہوں نے مانگا تھا۔
اسحاق ڈار نےآئی ایم ایف کی رضامندی کے بغیر پیٹرولیم لیوی بھی منجمد کردی ہے۔ انہوں نے سوئی کمپنیوں کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی سفارش کو مسترد کر دیا ہے۔ وہ معیشت پربڑا داؤ کھیل رہے ہیں، سوائے اس کے کہ جوا کھیلنے کے لیے یہ ان کے چِپس نہیں ہیں۔
ملک کی عوام کو مطمئن کرنے کی کوششیں ان کے غیرملکی اسٹیک ہولڈرز کو پریشان کر رہی ہیں۔ یوروبانڈ کی پیداوارمیں یہ واضح طور پرنظرآیا ہے۔
اسحاق ڈار کے کرنسی کے جنون نے معیشت کو ایک بارتباہ کیا اور شاید دوبارہ ایسا ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ روپیہ بمقابلہ ڈالر کی برابری 2سو کی نفسیاتی سطح سے نیچے آجائے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی عجلت بڑھتی جارہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ شرح مبادلہ ہفتوں میں نہیں دنوں میں گرے، اور اس کے ساتھ ہی وہ شرح سود میں کمی کی خواہش کا اظہارکرتے ہیں۔اگر اسحاق ڈارمالیاتی پالیسی کومزید ڈھیل دیتے ہیں تو مالیاتی پہلوپرپیچ کوسخت کرنے کی ضرورت ہوگی۔
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے واشنگٹن روانگی سے قبل میڈیا بریفنگ میں اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ دوطرفہ قرض دہندگان سے قرض کی ری شیڈولنگ کی درخواست کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ تجارتی اور پیرس کلب کے قرض دہندگان کو بروقت ادائیگی کی جائے گی تاکہ بڑھتی ہوئی مالی ضروریات اوراس کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے دو طرفہ قرضوں کی ری شیڈولنگ ٹھیک ہے، انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ آئندہ چھ ماہ میں معاشی حالات کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اورپھر بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں میں قدم رکھیں گے۔ تاہم، انہوں نےاس وقت تک خودمختار بانڈزکے ذریعے قرض حاصل کرنے کے کسی بھی منصوبے کوملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔وزارت اقتصادی امور کے اعدادوشمار کے مطابق 97 ارب ڈالر سے زائد بیرونی عوامی قرضوں میں سے دو طرفہ قرض 20اعشاریہ3 ارب ڈالریا 21 فیصد پرمشتمل ہے۔
اگر تمام دوطرفہ قرض دہندگان اپنے قرضوں کی تجدید کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں تو پاکستان کو رواں مالی سال میں 2اعشاریہ3 ارب ڈالر کی گنجائش ملے گی، جوپیرس کلب سے ملنے والی رقم سے دوگنی ہے۔
رواں مالی سال کے دوران 2اعشاریہ3 اب ڈالر کے دو طرفہ قرضوں میں سے پاکستان چین کو 9سو ملین ڈالر سے زائد کی ادائیگی کرنے والا ہے۔ 20اعشاریہ3 ارب ڈالر کے مجموعی دوطرفہ قرضوں میں سے چین کا قرض 9اعشاریہ7 ارب ڈالر یا 48 فیصد ہے۔وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ ملک پیرس کلب سے قرضوں کی تجدید کا مطالبہ نہیں کرے گا اورتجارتی قرضوں اورخودمختار بانڈز کی بروقت ادائیگی بھی کرے گا۔انہوں نے کہا کہ جب حکومت 34 ارب ڈالر کا بندوبست کرسکتی ہے تو وہ مزید 1اعشاریہ2 ارب ڈالربھی اکٹھا کرسکتی ہے،جو کہ موجودہ مالی سال میں پیرس کلب کو ادا کی جانی تھی۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کی مجموعی مالیاتی ضروریات کا تخمینہ 40 ارب ڈالر لگایا ہے، جس میں زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے 6 ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔اسحاق ڈار نے تبصرہ کیا کہ پیرس کلب کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی قیمت اس کے فوائد سے زیادہ ہے۔سینئر ماہرمعاشیات اورپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق ترجمان برائے خزانہ مزمل اسلم نے کہا کہ لگتا ہے کہ اسحاق ڈارمسلم لیگ (ن) کے سیاسی سرمائے کو بحال کرنے کے مشن پر ہیں جوآئی ایم ایف کے دباؤسے متعلق غیر مقبول فیصلوں کی وجہ سے کھو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ تاہم اسحاق ڈار نے عہدہ سنبھالنے کے بعد جو بھی فیصلے کیے وہ تباہ کن ثابت ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرخزانہ اپنے دعوے کی تصدیق کیے بغیرمسلسل کہہ رہے ہیں کہ ڈالر کی اصل قیمت 2سو روپے سے نیچے ہے۔ ہرکوئی جانتا ہے کہ ملک میں ادائیگیوں کے توازن کا بحران بڑھ رہا ہے اور مرکزی بینک کےغیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اس کا ثبوت ہے، جو کہ اب 8 ارب ڈالر سے نیچے آ گئے ہیں۔
مزمل اسلم کے مطابق اسحاق ڈار کے فیصلے کے اثرات دو سے تین ماہ میں سامنے آجائیں گے کیونکہ وہ ناقابل عمل اورغیر پائیدار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے درآمد کنندگان کے 50ہزارڈالر تک کے لیٹر آف کریڈٹ (LCs) پرپابندیاں ہٹا دی ہیں، جوکہ ایک مذاق ہے کیونکہ کسی بڑے یا حتیٰ کہ درمیانے یا چھوٹے سائز کے درآمد کنندگان کی ایل سی کی رقم اتنی کم نہیں ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اسحاق ڈارکس کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اطلاعات ہیں کہ وزیر خزانہ یک طرفہ طور پر تمام فیصلے کررہے ہیں اورلندن میں اپنی پارٹی کے سربراہ نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف کو براہ راست رپورٹ کر رہے ہیں، وہ محض ربڑ اسٹیمپ ہیں۔
وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور نسٹ کے پرنسپل ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بھی انہی خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ اسحاق ڈار کی غیردانشمندی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیرخزانہ صرف اس صورت میں جارحانہ اور خود اعتماد ہو سکتے ہیں جب معیشت مستحکم ہو اورمالی طورپر استحکام ہو، خالی جیب بدمعاشی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے لیے توانائی کی بلند قیمتیں، تمام کرنسیوں کے مقابلے ڈالر کی قدرمیں اضافہ اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ سیاسی غیر یقینی صورتحال ملک میں معاشی عدم استحکام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرضوں کی تجدید کے لیے وزیر اعظم کی اپیل نے بین الاقوامی مارکیٹ میں خوف و ہراس پیدا کیا اور غلط اشاریے بھیجے کہ ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹراشفاق خان کے مطابق اگرچہ فاریکس مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں قدرے کمی آئی ہے، لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اب تک ڈالر کی ہیرا پھیری میں ملوث بینکوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جنہوں نے مصنوعی طریقوں سے اس کی قدر میں اضافہ کیا، جس سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News