Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

لاکھوں پاکستانی غذائی قلّت کے بڑھتے خطرے سے دوچار

Now Reading:

لاکھوں پاکستانی غذائی قلّت کے بڑھتے خطرے سے دوچار

ایک اقتصادی تجزیہ کار اے اے ایچ سومرو کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کو زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے تکنیکی ترقّی کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔

ملک کو کثیر جہتی مسائل کا سامنا ہے جیسے آبادی میں تیزی سے اضافہ اور شہری آبادکاری، قوت خرید میں کمی، قیمتوں میں زیادہ اتار چڑھاؤ، خوراک کی غیر مؤثر تقسیم اور بڑھتے ہوئے موسمیاتی چیلنجز وغیرہ۔

اے اے ایچ سومرو کے مطابق حکومتی عہدیداروں کو ملکی طلب پر قابو پانے، افغانستان میں اسمگلنگ کو روکنے، کولڈ اسٹوریج اور گودام کی سہولت کے قیام اور کسانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کھیت سے منڈی (فارم ٹو مارکیٹ) کا تصور متعارف کرانے کے لیے آبادی میں اضافے کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

اے اے ایچ سومرو نے تجویز پیش کی کہ “چھوٹے کاشت کاروں کو فصلوں کی انشورنس فراہم کی جانی چاہیے جبکہ زمین کی منصفانہ تقسیم اور چھوٹے سے درمیانے درجے کے کسانوں کو بااختیار بنانے کے لیے زمینی اصلاحات متعارف کرائی جانی چاہئیں”۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے عمودی کھیتی باڑی اور ہائیڈروپونک سلوشنز کی ترغیب دینی چاہیے، جبکہ تمام بڑے شہروں میں کارپوریٹ فارمنگ کی سہولت موجود ہونی چاہیے جس میں ویلیو ایڈیشن کو بڑھانے کے لیے مناسب سکیورٹی ہو۔

Advertisement

عارف حبیب کموڈٹیز کے منیجنگ ڈائریکٹر اور چیف ایگزیکٹو افسر احسن محنتی نے کہا کہ حکومت کو درآمدات یا صوبوں سے اشیاء کی بروقت فراہمی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گندم، کپاس، چینی اور چاول کی فصلیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور انہیں درآمد کرنے کے لیے زرمبادلہ کی دستیابی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

احسن محنتی نے کہا کہ پاکستان ادویات اور زرعی مصنوعات جیسے آلو اور پیاز کی درآمد کے لیے بھارت سے تجارت کھولنے پر بھی غور کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ روس روپے – روبل تجارت کے ذریعے گندم کی قلّت میں مدد کر سکتا ہے اور چین کی یوآن کی کلیئرنگ چین سے پٹرولیم مصنوعات پر رعایت حاصل کرنے اور اس پر عمل درآمد میں مدد کر سکتی ہے۔

اقوامِ متحدہ نے اپنی رپورٹ میں قحط کے خاتمے، غذائی تحفظ کے حصول، بہتر غذائیت اور پائیدار زراعت کو فروغ دینے کے مقصد سے کئی اہم شعبوں کا تصور دیا ہے لیکن حکومتی کوششیں اب تک مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہی ہیں۔

اسی طرح ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی کمزوریوں اور دھچکوں اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی مشکلات نے آگ میں مزید تیل ڈال دیا ہے۔ مزید مصائب کے دیگر عوامل علاقائی تنازعات اور ہنگامہ خیز جغرافیائی سیاسی صورتحال ہیں جو صورت حال کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔

روس یوکرین جنگ نے عالمی منڈیوں میں گندم مکئی اور سورج مکھی کی فراہمی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی برآمدات میں تقریباً 25 سے 30 فیصد گندم، 18 سے 20 فیصد مکئی اور 80 فیصد سورج مکھی سے متعلقہ بیج کی مصنوعات کی کمی دیکھی گئی ہے۔

Advertisement

اپنے 28 اکتوبر 2022ء کے اجلاس میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے حکومت سے حکومت کے سودوں کے ذریعے درآمدی کوششیں ناکام ہونے کے بعد آنے والے مہینوں میں متوقع کمی کو جلد پورا کرنے کے لیے کھلے ٹینڈرز کے ذریعے تقریباً 30 کروڑ ڈالر مالیت کی گندم اور یوریا کھاد کی درآمد کی اجازت دے دی ہے۔

ای سی سی نے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کو 373 ڈالر فی ٹن کے حساب سے 3 لاکھ 80 ہزار ٹن گندم درآمد کرنے کے ٹینڈر کی منظوری کے علاوہ مزید 8 لاکھ ٹن کی درآمد کے لیے مزید طریقے تلاش کرنے کا اختیار بھی دیا۔

ملک میں کئی اجناس کی قلت ہے جس سے ملکی غذائی تحفظ پر منفی اثر پڑے گا۔ لہٰذا حکومت اِن اجناس کی بروقت درآمدات کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر اور فوری کوشش کرے۔

اگرچہ پاکستان یہ اجناس آذربائیجان، چین، سعودی عرب اور ایران سے مؤخر ادائیگیوں پر خریدنا چاہتا تھا تاہم اِن ممالک نے اس میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

پاکستان کاٹن گروورز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کپاس کے تاجروں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

پی سی جی اے کے چیئرمین چوہدری وحید ارشد نے کہا کہ جنگی بنیادوں پر اقدامات کے بغیر ملک میں گندم کی کاشت ناممکن ہو جائے گی جس سے غذائی قلّت اور غذائی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

Advertisement

ان کے مطابق ٹیکسٹائل شعبے نے کپاس کی خریداری روک دی ہے اور حکومت کاشتکاروں کو بڑے معاشی بحران سے بچائے۔

فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) کی رپورٹ “دنیا میں غذائی تحفظ اور غذائی صورتحال” کے مطابق 2021ء میں دنیا میں 72 کروڑ سے 82 کروڑ 80 لاکھ افراد (دنیا کی 8 اعشاریہ 9 فیصد اور 10 اعشاریہ 5 فیصد آبادی) کو قحط کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال کے دوران 2020ء کے مقابلے میں مزید 4 کروڑ 60 لاکھ افراد قحط سے متاثر ہوئے۔ 2019ء کے بعد سے مجموعی طور پر 15 کروڑ اضافی آبادی متاثر ہوئی۔

یہ اعداد و شمار اس تاثر کو زائل کرتے ہیں کہ جہاں تک قحط اور غذائی قلّت کو مٹانے کا تعلق ہے، دنیا درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ دستیاب اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایشیا میں تقریباً پانچ افراد میں سے ایک، 9 اعشاریہ 1 فیصد، لاطینی امریکا میں 8 اعشاریہ 6 فیصد اور شمالی امریکا اور یورپ میں 2 اعشاریہ 5 فیصد سے کم قحط اور غذائی قلّت کا سامنا کر رہے ہیں۔

جدید زرعی تکنیک کو اپنانے سے پاکستان کم پانی کا استعمال کرکے اور نئی فصلوں کی کٹائی کے مواقع پیدا کرکے فی ایکڑ پیداوار کو مؤثر انداز میں بڑھا سکتا ہے۔

حکومت کو زرعی شعبے کو بین الاقوامی معیارات کے برابر لانے کے لیے ایک جامع پالیسی ضابطہ تیار کرنا ہوگا اور مالیاتی شعبے کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی کہ وہ زرعی پیداوار اور پروسیسنگ کے لیے شعبے کو مخصوص قرضہ جات کی پیشکش کرے جیسا کہ تعمیرات اور ریئل اسٹیٹ شعبوں کے لیے کیا گیا تھا۔

Advertisement

اس سے کاشتکاروں اور زرعی شعبے سے وابستہ کاروباری افراد کو جدید تکنیک کو بروئے کار لانے اور اپنی کارکردگی میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی سے منسلک خطرات سے نمٹنے کے لیے منصوبے تیار کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اب ایک حقیقت بن چکی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ درجہ حرارت فصلوں کی کاشت کے لیے مطلوبہ سطح سے تجاوز کر جائے گا جو متوقع پیداوار کو شدید متاثر کرے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے جامعات اور دیگر اداروں میں تحقیق کی جائے۔

وقت آ گیا ہے کہ اس بلند خطراتی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک فعال طریقِ کار وضع کیا جائے ورنہ ہمارے پاس عوام کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنیادی اجناس کی درآمدات پر انحصار کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔

پاکستان معاشی عدم استحکام اور سیاسی بحران کے باعث مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور ان بڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو انتقامی سیاست ترک کر کے ملکی بہتری کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
29 سالہ اطالوی ماڈل پامیلا جینینی کو بوائے فرینڈ نے بے دردی سے قتل کردیا
بھارت روس سے تیل نہیں خریدے گا،ٹرمپ کا دعویٰ ،مودی سرکار یقین دہانی سے مکرگئی
وزیراعظم شہبازشریف سے بلاول کی قیادت میں پی پی کے وفد کی اہم ملاقات
تصادم نہیں، تعاون وقت کی ضرورت ہے، جنرل ساحر شمشاد مرزا کا اسلام آباد سمپوزیم سے خطاب
کراچی، 48 انچ قطر لائن کی مرمت کا کام مکمل، متاثرہ علاقوں میں پانی کی فراہمی بحال
ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کتنا اضافہ ہوا، اسٹیٹ بینک نے بتا دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر