
مالی سال 2022-23ء کے پہلے چار ماہ (جولائی سے اکتوبر) کے دوران مشکل معاشی حالات اور بلند شرح سود کی وجہ سے نجی شعبے کے لیے قرضے میں 99 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران قرضوں کا آف ٹیک صرف 1اعشاریہ 85 ارب روپے رہ گیا ہے جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران یہ 271 ارب روپے تھا۔
صنعتی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے خام مال اور کیپٹل گڈز کی درآمد پر پابندیوں کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔
اس کے علاوہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں بڑے پیمانے پر اضافے نے بھی نجی شعبے کی جانب سے نئے قرضے لینے کی حوصلہ شکنی کی۔
صنعت کاروں کا کہنا تھا کہ حکومت نے مئی 2022ء میں پُر تعیش اور غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی تاہم اگست 2022ء میں یہ پابندی ہٹا دی گئی لیکن اسٹیٹ بینک نے اشیا کی درآمد پر کچھ پابندیاں برقرار رکھی تھیں۔ پابندیوں میں لیٹر آف کریڈٹ (LCs) کھولنے کی حد شامل تھی۔ شروع میں یہ حد 25 ہزار ڈالر تھی لیکن بعد میں اسے بڑھا کر 50 ہزار ڈالر کردیا گیا ج بکہ حال ہی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے اس حد کو ایک لاکھ ڈالر تک بڑھانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایل سی کھولنے کی حد بڑھانے کے باوجود صنعتوں کو ایل سی کھولنے میں مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ بہت سے بینک اپنی درآمدی کنسائنمنٹ کے لیے ڈالر کا بندوبست کرنے میں ناکام رہے۔
افراط زر میں بڑے پیمانے پر اضافے کی وجہ سے نجی شعبے کے قرضوں میں بھی کمی آئی۔
اسٹیٹ بینک نے 10 اکتوبر 2022ء کو جاری کردہ مانیٹری پالیسی بیان میں کہا ہے کہ نجی شعبے کے قرضے میں آسانی سست معاشی سرگرمی کے مطابق ہے۔
مرکرزی بینک نے مزید کہا، ’’یہ کریڈٹ بنیادی طور پر ورکنگ کیپیٹل لونز کی ریٹائرمنٹ اور کنزیومر فنانس میں زبردست گراوٹ کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘
اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کے بارے میں کہا کہ اگست میں ریکارڈ بلندی تک پہنچنے کے بعد ستمبر میں افراط زر 4 فیصد پوائنٹس سے زائد گر کر 23اعشاریہ 2 فیصد سال بہ سال پر آ گیا، جو کہ ایک انتظامی مداخلت کے باعث بجلی کے نرخوں میں کمی کی وجہ سے ہے۔
اسی وقت، افراط زر کی رفتار بھی توقع سے زیادہ سست ہوئی، 1اعشاریہ 2 فیصد ماہ بہ ماہ کی کمی واقع ہوئی۔ اس کے علاوہ بنیادی اور خوراک کی افراط زر دونوں میں مزید اضافہ ہوا۔
آگے چل کر سیلاب سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں رسد میں تعطل کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں کُل افراط زر پر اضافی دباؤ پڑنے کی توقع ہے۔
اس کے باوجود، مالی سال کے بقیہ حصے میں، باالخصوص دوسری ششماہی میں، کُل افراط زر میں بتدریج کمی کا امکان ہے۔ اس کے بعد، مالی سال 2023-24ء کے آخر تک اسے 5 سے 7 فیصد درمیانی مدت کے ہدف کی بالائی حد کی طرف آنا چاہیے۔
نجی شعبے کے قرض لینے میں کمی کو بینچ مارک پالیسی ریٹ میں بڑے پیمانے پر اضافے کی وجہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس سے قبل، مرکزی بینک نے 22 اگست 2022ء کو شرح 15 فیصد پر رکھتے ہوئے کہا تھا، “معا شی حد کو بڑھانے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے، گزشتہ ستمبر سے پالیسی کی شرح میں مجموعی طور پر 800 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہے۔ “
نجی شعبے کے قرضے لینے کی تفصیلات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روایتی بینکوں نے رواں مالی سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران 108 اعشاریہ 54 ارب روپے کے قرضے دیے جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مہینوں میں 171اعشاریہ 34 ارب روپے تھے۔
اسی طرح اسلامی بینکوں نے زیر جائزہ مہینوں کے دوران 36اعشاریہ 74 ارب روپے کے قرضے بڑھائے جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 29اعشاریہ 8 ارب روپے تھے۔
تاہم، روایتی بینکوں کی اسلامی بینک شاخوں کے معاملے میں نجی شعبے کے قرضوں کی خالص ریٹائرمنٹ دیکھی گئی ہے۔ نجی شعبے نے رواں مالی سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران 143اعشاریہ 43 ارب روپے کا قرضہ حاصل کیا جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مہینوں میں 70 ارب روپے کے قرضے لیے گئے تھے۔
شاہنواز اختر
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News