
اسٹیڈیم میں بغیر کسی رکاوٹ کا سامنا کرتے ہوئے آپ ٹکٹ لے کر سیکیورٹی مراحل سے گزرنے کے بعد اپنی سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں ۔میچ کے دوران کھانے پینے کی چیزوں سے لطف اندوز ہونے اور کھیل ختم ہونے پر پارکنگ میں جا کر اپنی گاڑی میں سوار ہوکر گھر واپس چلے آتے ہیں ۔یا پھر آپ اپنے ویک اینڈ کو مزید مزیدار بنانے کےلیے گھر میں ہی ٹیلی ویژن کے سامنے آرام سے بیٹھ کر میچ دیکھنے کا ارادہ کرلیتے ہیں ۔ مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کو ترانے کے لیے قطار میں کھڑا دیکھ کر آپ کو وہ دور یاد آسکتاہے جب آ پ اپنے دفتر کے ایڈمن سپروائزر سےامپائرنگ کرنے کی درخواست کرتے تھے ، جو اس سے پہلے کلب کرکٹ کھیل چکا ہو۔
آپ کے خیال میں کیا یہ سب کچھ اتنا آسان ہے؟غور کریں اور سوچیں کہ اگر ایسا ہو کہ کلب کے سیکریٹری نے کھیل کا میدان بک کرانے کےلیے آپ کی جانب سے بھیجی جانے والی ای میل پڑھی ہی نہ ہو اور کسی دوسرے شخص کو اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچنے کے احکامات جاری کردیئے ہوں ؟ یا پھر ایسا ہو کہ ایڈمن سپروائزر کی موٹر سائیکل خراب ہو گئی
ہو یا پھر فرض کریں کہ ساؤنڈ سسٹم لانے والے شخص نے اسے دوبارہ چیک نہ کیا ہوا کہ کہیں سسٹم گذشتہ رات بیچ پارٹی پر اس کے بیٹے کی جانب سے استعمال ہونے کی وجہ سے خراب تو نہیں ہوگیا؟ یقینی طور پر آپ نے کبھی ایسا نہیں سوچا ہوگا۔اگرچہ یہ معمولی نوعیت کے مسائل عالمی ایونٹ کی منتظم ٹیم کو درپیش نہیں ہوسکتے لیکن مسائل کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اندیشے کے امکانات کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔ مجھے یہ سب اس لیے معلوم ہے کیونکہ میں نے کئی سال پہلے ایشین اسنوکر چیمپئن شپ جیسے بڑے علاقائی ایونٹ کے انتظامی امور کی دیکھ بھال کی ہے۔
اس موقع پر پلیئر مینجمنٹ پاکستان بلیئرڈ اور اسنوکر چیمپئن شپ(پی بی ایس اے ) کو ایک دوسرے کا تعاون حاصل تھا لیکن باقی سب میرے ماتحت کام کر رہے تھے اور بطورا سپانسرز ہم ہر چیز کی ادائیگی کے پابندتھے ۔ پاکستان بلیئرڈ اسنوکر ایسوسی ایشن کے رضاکاروں پر مشتمل مختصر سی ٹیم کو اتنے بڑے ایونٹ کے انتظام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ دوسری طرف ہم اس سے پہلے قومی سطح پر بہت سے کام کرچکے تھے اور جانتے تھے کہ ہمیں اس کام کو کیسے انجام دینا ہے ؟
کئی سال بعد مجھے جنوبی افریقہ میں 2003 ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کے انتظامی امور کی ذمہ داری دی گئی ۔ اس دوران میں نے اتنے بڑے ادارے کے انتظامی امور کا بغور جائزہ لیا ۔مجھے یاد ہےکہ میرا ٓدھا وقت ایگزیکٹوز کے ساتھ جب کہ باقی وقت براڈکاسٹ ٹیموں کے ساتھ گزرتا تھا۔اس لیے میں اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہوں کہ کھیلوں کے عالمی ایونٹ کے انتظامات کیسے کیے جاتے ہیں ؟ اسی طرح بڑے سیاسی اور ماحولیاتی مسائل پر عالمی سربراہی اجلاسوں کے انتظامات کےلیے کن امور کو مد نظر رکھا جاتا ہے؟
آپ کو بس وہاں موجود تماشائیوں میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ ایک ایونٹ ایک ہی مقام پر تین سے چار دن تک جاری رہتا ہے۔میرے خیال میں اولمپکس یا کسی اور کھیل کے ورلڈ کپ مقابلے کے ایونٹ کو دو سے چھ ہفتوں کے دوران متعدد شہروں میں منعقد کرانا چاہیے۔
پہلا قدم :
جب بھی کوئی ایسا ایونٹ ملتا ہے تو شروعات ہمیشہ آرگنائزنگ کمیٹی کو کرنا ہوتی ہے ،جیسے کہ آسٹریلیا میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ یا قطر میں نومبر میں ہونے والا فٹ بال ورلڈ کپ جیسے ایونٹس کےلیے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا تقرر کیا جاتا ہے۔کیونکہ یہ کام در اصل ایک کمپنی شروع کرنے کے مترادف ہے، جس کو کم از کم دو سال تک کام کرنا پڑتا ہے، لیکن اس کے اثرات اگلے کئی سالوں پر سامنے آتے رہتے ہیں ۔ خاص طور پر اس ووقت جب کسی سطح پر انتظامی امور کے حوالے سے کوئی غلطی سر زد ہوجائے تو اسے تادیر یاد رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد سی ای او مختلف محکموں کے لیے ایک ٹیم بناتا ہے جو اس ایونٹ کے تما م امور کے ذمہ دار کہلاتے ہیں ۔
یہاں ممکن ہےکہ کارپوریٹ سیکٹر میں کچھ ایونٹس کے عنوان مختلف ہو جائیں جب کہ بعض کے تبدیل نہ ہوں ۔یعنی جن اسٹیڈیمز میں میچ منعقد کرانا ہوں ، اسٹیڈیم کے ڈائریکٹرز انتظامیہ کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ تمام امور کو انجام دینےکے پابند ہوں گے۔ کاروباری دنیا میں مذکورہ ڈائریکٹر کو ویئر ہاؤس یا صارفین کے سروس سینٹرز کے ذمہ دار شخص کا نام بھی دیا جاسکتاہے یعنی یہ کہنا غلط نہ ہوگا آپ کو ہر جگہ کم و بیش اسی طرح کا تنظیمی ڈھانچہ نظر آئےگا۔
کسی بھی ایونٹ کو منافع بخش بنانے کےلیے سی ای او آمدنی کے تخمینوں اور لاگت کے بجٹ کے ساتھ بزنس پلان پر کام شروع کرتا ہے۔ حالانکہ کچھ سال پہلے برازیل میں فٹ بال ورلڈ کپ مقابلے کے دوران پیش آنے والے واقعات کے نتیجے میں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تھا ۔ کچھ اسی طرح کا حال بہت سےاولمپکس مقاملبوں کا بھی ہوا ہے۔ خاص طور پر 1984 ء کے لاس اینجلس گیمز کی بات کرتے ہیں جب منافع حاصل کرنےکی غرض سے اسپانسرز کے لیے کسی قسم کی مارکیٹنگ نہیں کی گئی تھی ،جب کہ لاس اینجلس گیمز کافی اچھا منافع کما سکتے تھے ۔
1972 ء کے میونخ اولمپکس میں آٹھ کھلاڑیوں کے اغوا اور بالآخر قتل کے افسوس ناک واقعے کے بعد سیکیورٹی پلاننگ کی اہمیت نے زور پکڑ لیا۔سیکیورٹی کو یقینی بنانا درحقیقت سب سے مشکل کام ہوتا ہے، کیونکہ تفویض کردہ لوگوں کو اس با ت کا پابند بنایا جاتا ہے وہ وہ ٹکٹ خریدنے والے تماشائیوں یا کھلاڑیوں کے لیے مشکلات کھڑی نہ کریں ۔انتظامیہ ہر لحاظ سے یہاں اہمیت کی حامل ہے ۔ عالمی معیار کے کھلاڑیوں کے ساتھ بڑے ایونٹ کی تیار کرنے کی وجہ ساری دنیا کی نظریں آپ کی طرف ہوتی ہیں اور یہاں آپ کی اچھی یا بری کارکردگی کا مشاہدہ بھی کیا جاتا ہے۔بطاہر یہ سب کچھ آسان نظر آتا ہے۔بس اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہےکہ ٹیم کا کوچ ہوٹل میں موجود ہو اور کھیل کے آخر تک وہ اسٹیڈیم میں موجود رہے ۔تاہم کھیلوں کے دوران بعض اوقات اگر کوئی بڑا کھلاڑی آخری لمحات میں اکیلے ڈنر یا شاپنگ پر جانے کا فیصلہ کرتا ہے تو ایسے میں سیکیورٹی معاملات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ 2019 ء کے ورلڈ کپ مقابلے جیسے عالمی ایونٹ کے چیلنجز کے حوالے سے ایڈم کولنز نے مئی کے دی کرکٹ ماہنامہ کے شمارے میں ڈائریکٹر آپریشنز کا انٹرویو شامل کیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے ایک ایسا منظر نامہ پیش کیا جس سے پتہ چلتا ہےکہ ایک سادہ سا فیصلہ کس طرح ایک سے زیادہ اعمال کی وجہ بن سکتا ہے ۔ یعنی اگر کسی ایک کو بھی نظر انداز کر دیا جائے تو کسی نہ کسی مرحلے پر بڑا نقصان آپ لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ایڈم کولنز نےیہ تصور کرنے کو کہا کہ ایک تربیتی سیشن منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ایڈم کولنز نے یہ سوال اس ورلڈ کپ کے ڈائریکٹر آپریشنز گریگ وارنیک کے سامنے رکھا۔اس سوال نے جواب میں گریگ وارنیک نے کہاکہ ہمیں تقریباً 25 لوگوں کو اس حوالے سے مطلع کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ ہمیں ان لوگوں کو ایونٹ کا مقام بتانے کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے پاس ہر سیشن کے لیے دائیں اور بازو کے اسپن بالزر سمیت8 نیٹ باؤلرز موجود ہوں گے۔ ایڈم کولنز نے مزید کہا کہ ہم ٹیم میں شامل کسی بھی کھلاڑی کے حوصلے کو پست نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں تقریباً 300 پریکٹس سیشنز بھی کرانے ہوں گے ۔گراؤنڈز کے ذمہ داروں کو بھی ان کھلاڑیوں کے حوالے سے آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ کسی بھی ردو بدل کی صورت میں اپنی تیاری مکمل رکھیں ۔
ایڈم کولنز کا کہناتھا کہ ہمیں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کو بھی تمام تبدیلیوں سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ میڈیا پریکٹس سیشنز کی کوریج کےلیے موجود ہوتا ہےاور آئی سی سی کو اسی روز اینٹی ڈوپنگ کے بارے میں اپنے مقرر کردہ اہداف حاصل کرنے ہوتے ہیں ۔ ایڈم کولنز کہتے ہیں کہ جن ہوٹلوں میں کھلاڑی قیام کریں ، ان کی انتظامیہ کو بھی متعلقہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں تاکہ وہ ٹیموں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھ سکیں ۔کچھ اضافی پریکٹس سیشنز کرنے کی صورت میں ٹیم کے کوچ کو ان سیشنز کے اوقات کار کا تعین کرنا ہوگا، کیونکہ قانونی طور پر صرف متعین کردہ گھنٹوں کے دوران ہی فرائض انجام دے سکتے ہیں ۔ کسی بھی ایونٹ سے پہلے یہ تمام تیاریاں اور ہم آ ہنگی بہتر کھیل کو پیش کرنے میں مدد دیتی ہے۔اس کے بعد ایونٹ کی مارکیٹنگ کےلیے کام کیا جاتا ہے، جس کے قانونی اثرات بھی سامنے آتے ہیں اور آپ کو استعمال کیے جانے والے تمام مواد کے حقوق کو بھی لازمی طور پر خریدنا ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی تشہیری مہم کو مکمل طور پر دلچسپ بنانے کی بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔ خاص طور پر غیر معروف کھلاڑیوں کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے مقابلوں کےلیے شائقین کو ترغیب دینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔کسی بھی ایونٹ کو منفرد اور برانڈ بنانے کےلیے اسے ایونٹ کے پچھلے ایڈیشنز مختلف رکھنے کا طریقہ بھی استعمال کرنا چاہیے۔ ایونٹ کی سیکیورٹی کو قومی سلامتی کے ادارے کے ساتھ منسلک کرنا ضروری ہے ۔ ممکنہ مداخلت کرنے والوں کی شناخت بھی لازمی ہے ۔ یہاں تک ہر اسٹینڈ کے قریب تعینات سیکیورٹی اہلکاروں کو عام تماشائیوں کے قریب کھڑا ہوکر کہ تخریبی عناصر پر نظر رکھنی چاہیے۔
ایونٹ میں دیئے جانے والے تحائف کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے،ان تحائف کی خریداری ایونٹ شروع ہونے سے ہفتوں پہلے ہی کرلی جاتی ہے۔پھر اس کی دستیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔کیا آپ کو ایسا لگتا ہےکہ ایونٹ کے فائنل مقابلےکے اگلے روز انتظامی امور میں شامل تمام لوگ گھروں کو چلے جاتے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہےکہ کچھ ایونٹس کے بعد ایسا ہوتا ہےکہ فائنل کے بعد انتظامیہ کو اگلے ایک سا ل سے زائد عرصے تک کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔کسی بھی ایونٹ کے لیے مالی معاملات کو حتمی شکل دینے میں کم سے کم تین سے چار مہینے لگ سکتے ہیں، یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہےکہ اس کے آڈٹ کےلیے بھی کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں ۔مفاہمت میں کئی کئے ہفتے لگ سکتے ہیں ، ایونٹ کے دوران کسی بھی قسم کی گڑ بڑ کی صورت میں انکوائری کی نوبت آسکتی ہے۔آخر میں ایونٹ سے متعلق سینکڑوں صفحات پر مبنی حتمی رپورٹ مرتب کی جاتی ہے یا یہ دستاویز کی صورت میں بھی محفوظ کرلی جاتی ہے۔جسے آپ ا یک پریزنٹیشن کے طور پر دیکھتے ہیں وہ دراصل ایک انتہائی پیچیدہ قسم کے مواد پر مبنی ہوتی ہے۔
غرض ایونٹ آپ گھر میں ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ کر دیکھ رہے ہوں یا پھر آپ میدان میں موجود ہوں ۔در حقیقت یہ چھوٹے پیمانے پر کی جانے بہت ساری والی محنت کے اشتراک کا نتیجہ ہے، جسے ورلڈ کپ جیسے عالمی ایونٹ کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News