Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

لز ٹرس کا اعتراف

Now Reading:

لز ٹرس کا اعتراف

برطانیہ کی تیسری خاتون وزیر اعظم لز ٹرس نے انتہائی کم مدت کے دوران اپنی دو شاندار کامیابیوں کا کریڈٹ خود لے لیا۔ وہ برطانیہ کی پارلیمانی تاریخ میں سب سے کم مدت کےلیے اس عہدے پر فائز رہیں ۔ انہوں نے اپنے دفتر میں صرف 44 روز گذارے۔ ا س موقع سے پہلے 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ نے کبھی بھی اس عہدے کی مدت میں توسیع نہیں دیکھی تھی ۔

75 سالوں سے زائد کے عرصے میں پہلی بار، لز ٹرس وہ واحد وزیر اعظم تھیں جنہوں نے دو بادشاہوں کے ساتھ روابط رکھے ، ملکہ الزبتھ دوم سے اپنے عہدے کا حلف لیا اپنا استعفیٰ بادشاہ چارلس سوم کو پیش کیا۔اس حقیقت کے باوجود کہ ابھی ان کی عمر اتنی زیادہ نہیں اور وہ ایک بار پھر اس عہدے پر فائز بھی ہوسکتی ہیں لیکن فی الحال ان کے سیاسی کیریئر کے حوالے سے کچھ اس طرح کا جملہ کہا جا سکتا ہےکہ’ وہ آئی ، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا،لیکن پھر وہ ناکام ہوگئی اور اس نے اسے تسلیم کرلیا‘۔

Advertisement

اس مضمون میں برطانیہ کے سیاسی افق پر لز ٹرس کے عروج کے ساتھ ہی ان کے زوال پذیر ہونے کی وجوہات کا احاطہ کیا جارہا ہے۔عالمی وبا کورونا کے بعد بعض وجوہات کی وجہ سے سابق وزیر اعظم بورس جانسن کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا ۔اس دوران اس موقع کی پہلے سے منتظر لز ٹرس نے 1922ء کی کمیٹی کی حمایت حاصل کی اور کنزرویٹو کی قیادت کے لیے نامزد ہوگئیں ۔لز ٹرس ووٹنگ کے ذریعے منتخب نہیں ہوئیں بلکہ انہوں نے پہلے سے طے شدہ فیصلے کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیا۔یہ تو بس شروعات تھی۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف ہونے کی کوشش کی اور سیاسی مہم جوئی کا باقاعدہ آغاز کردیا ۔

لزٹرس نے معاشی میدان میں کئی تبدیلیاں کیں جس سے کافی ہلچل پیدا ہوگئی ۔ بدقسمتی سے سیاست دان کبھی بھی مارکیٹ کی اس صورتحال کا درست اندازہ نہیں لگا پاتے جن پر وہ کبھی قابو نہیں پا سکتے ۔ بس پھر کیا تھا ؟ معیشت کے حوالے سے بنیادی باتوں کے خلاف لز ٹرس کے اقدامات کے نتیجے میں افراتفری اور انتشار کی صورتحال نے جنم لے لیا۔ بحیثیت پاکستانی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے تعلقات حقیقی برطانوی پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ کافی دوستانہ رہے ہیں۔در حقیقت ہمارے یہاں بھی حکمران میوزیکل چیئرز کا کھیل کھیل رہے ہیں ، اور معاشی منتظمین مارکیٹ کے جذبات کے خلاف فیصلے لینے میں مصروف ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہےکہ قوم مزید معاشی بدحالی کی طرف جارہی ہے۔

برطانیہ میں اسی معاشی مہم جوئی کے دوران بدقسمت وزیر خزانہ کواسی کوارٹینگ کو 60 ارب پاؤنڈز سے زیادہ کا مالیاتی خسارہ پورا کرنےکے طریقے اور مناسب حل تلاش کرنے کا کام سونپ دیاگیا۔

ملک میں ’منی بجٹ‘ کا تصور اصل میں سابق وزیر اعظم لز ٹرس کا تھا لیکن اس تصور کو ستمبر کے آخری ہفتے میں چانسلر کی جانب سے پیش کیا گیا۔حکومت کے قرضے لینے کی لاگت بڑھتی چلی جارہی تھی جب کہ وزیر اعظم کی مقبولیت میں نمایاں طور پر کمی دیکھی جارہی تھی ۔اس واضح اشارے نے مارکیٹ کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا۔43 ارب پاؤنڈز کی غیر فنڈ شدہ ٹیکس کٹوتیو ں کے حصول کو ابتدا ہی سے ناممکن اورخودکشی کے مترادف قرار دیا جارہا تھا،کیونکہ اس منصوبے سے یہ واضح طور پر ظاہر ہوتا ہےکہ اس پالیسی کے تحت اخراجات کو نمایاں طور پر کم کرنے کا مرحلہ طے کیا گیا تھا۔

غیر فنڈڈ ٹیکس کٹوتیوں کے منفی ردعمل کے جواب میں، لز ٹرس نے انکم ٹیکس کی شرح 45 فیصد سے بھی بڑھادی ، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر یہ خسارہ 43 ارب پاؤنڈز تک کم ہوسکتا تھا لیکن اس خیال کو فوری ترک کردیا گیا۔

اپنی کابینہ کے ساتھ سابق خاتون وزیر اعظم ترقی کے منصوبے کو آگے بڑھانے ناکام نہیں ہوئیں بلکہ وہ اپنے ہی منی بجٹ کی دلدل میں دھنس گئیں ۔

Advertisement

برطانیہ میں مہنگائی کی شرح 13 اعشاریہ 9 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو کہ 2008ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ملک میں خام افراط زر 10 اعشاریہ 2 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ان بنیادی اصولوں سے صاف ظاہر ہوچکا تھا کہ معیشت جمود کا شکار ہو جائے گی۔اگر دیکھا جائے توہمارے یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے لیکن ہمارے پاس ضرورت کے مطابق معاشی لچک نہیں کہ ہم اس شدت کے ساتھ اس بہاؤ کا مقابلہ کر سکیں۔

 رشی سُونک نے بطور چانسلر 2020 ء میں بجٹ امداد میں کٹوتی کی تھی، جو پارٹی کے منشور کی سراسر خلاف ورزی تھی۔

اُس وقت ان کا خیال تھا کہ 2024 ء تک جب حکومت کا بنیادی قرض کم ہو جائے گا تو جی ڈی پی اخراجات صفر اعشاریہ 7 فیصد بحال ہو جائیں گے۔ یہ مقصد بظاہر کسی کو قابل حصول نظر نہیں محسوس ہوا۔

اقتصادی ماہرین نے پیش گوئی کی ہےکہ جی 7 ممالک میں شامل برطانیہ میں افراط زر کی شرح دسمبر2023 ء تک سب سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔آئی ایم ایف کے چیف اکنامسٹ پیئر اولیور گورنچاس نے لز ٹرس کی ٹیکس کٹوتیوں کے فیصلے کے بعد تبصرہ کچھ ان الفاظ میں کیا ہے: مارکیٹ قرضوں کی ان بلند سطحوں کو دیکھ رہی ہے ۔ وہ سود کی شرح میں ممکن اضافے کو بھی دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ قرض کی بلند سطح کو برقرار رکھنا مشکل ہو گا، اس لیے اسے نیچے کی طرف آجانا چاہیے۔اس تبصرے کو آئی ایم ایف کی لِز ٹرس کی ٹیکس کٹوتی کی تجاویز کے خلاف رویے کے مجموعی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔لزٹرس نےایک حقیقی سیاست دان کی طرح سب سے پہلے منی بجٹ پر یو ٹرن لے کر اپنی پوزیشن بچانے کی کوشش کی اور اُس وزیر خزانہ کو برطرف کر دیا، جس نے اس بجٹ کو تیار کرکے پیش کیا تھا ۔لز ٹرس نے اخراجات اور چانسلر کواسی کوارٹنگ کے ساتھ مجوزہ ڈی ریگولیشن کو بھی اسی طرح چھوڑ دیا۔لز ٹرس ، ہمیشہ سے کارپوریٹ ٹیکس میں اضافے کو مزاحمت کے لیے استعمال کرتی رہیں ،لیکن پھر اس میں 19 فیصد سے 25 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔

برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کے رکن اسٹیورٹ روز نے لز ٹرس کا استعفیٰ سامنے آنے سے ایک ہفتے قبل فنانشل ٹائمز کے ساتھ گفتگو میں کہا تھا کہ بطور وزیر اعظم ، آپ کو کاروبار، سرمایہ کاروں، ووٹروں اور پارٹی کے ساتھیوں کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ان کے پاس ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے، چنانچہ دیوار پر لکھی ہوئی تحریر واضح تھی ۔ کابینہ کے ایک اور وزیر کرسپن بلنٹ نے لز ٹرس کی حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ کھیل ختم ہو چکا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ منی بجٹ کی پالیسی لانے کےبعد، لز ٹرس نے خود کو خطرناک صورتحال سے دو چار کرلیا ہے، جس کے بارے میں وہ اچھی طرح واقف تھیں کہ یہ دھماکہ کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ لز ٹرس نے خود کو مکمل طور پر پھنسا لیا تھا ۔

Advertisement

اس تمام صورتحال کے بعد یو ٹرن لینے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ابتدائی طور پر، لز ٹرس نے اپنی تجویز پر تنقید کا مقابلہ کرتے ہوئے کواسی کوارٹنگ کی جگہ جیریمی ہنٹ کو تعینات کرنے کی کوشش کی لیکن ناقدین نے اس اقدام کو بھی مارکیٹوں کے لیے مکمل طور پر ناکامی قرار دے دیا۔ چانسلر جیریمی ہنٹ نے آخری لمحات میں منی بجٹ میں بعض تبدیلیاں کیں لیکن وہ بھی بے سود ثابت ہوئیں اور لز ٹرس کی حکومت خاتمے کے قریب پہنچ گئی ۔

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ٹوریز کو اکثریت حاصل ہے ،لیکن اس کے باوجود اس جماعت کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔

میری نظر میں رشی سونک کے پاس ، اسٹاپ گیپ(وہ انتظام جو بعض ہیلتھ فنڈز کے ساتھ فرق کی ادائیگی کے بارے میں کیا جائے )کا انتظام موجود ہے، کیونکہ جس گندگی میں ٹوریز خود اتر چکے ہیں ، اس سے لیبر کے عہدے میں بہتری کی امید پیدا ہوگی اور ملک میں ووٹروں کی مدد سے حکومت قائم کرنے کے آثار نمایاں ہوں گے۔

خاتون وزیر اعظم لز ٹرس کی حکومت کے خاتمے سے چند روز پہلے ، دی اکانومسٹ نے ٹوری ممبران کی رائے کے بارے میں کچھ یوں لکھا تھا :ممبران پارلیمنٹ جنہوں نے لز ٹرس کو کبھی بھی اہم درجہ نہیں دیا، گھر کے مالکان جن کی متوقع رہن کی شرح قابل تعریف حد تک بڑھ چکی ہے اور اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہےکہ بانڈ مارکیٹ کے سرمایہ کار جو کبھی برطانوی پالیسی سازوں پر بھروسہ کرتے تھے ، اب نہیں کرتے۔ یہ وہی ٹوری ممبران تھے ، جنہوں نے لز ٹرس کو پارٹی لیڈر منتخب کیا تھا۔حکومت تیزی کے ساتھ اپنی ساکھ کو کھو رہی تھی اور خاتون وزیر اعظم کا استعفیٰ سامنے آنے تک معاشی صورتحال کافی حد تک بگڑ چکی تھی ۔

معاشی مسائل کو مزید پیچیدہ کرنے کے لیے، مغرب کے دیگر مرکزی بینکوں کے مقابلے میں، فیڈرل ریزرو نے پالیسی کو سخت کرتے ہوئے زیادہ جارحانہ انداز میں کام کیا۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ دنیا کی تمام معیشتوں کو مہنگائی کی صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا ، جس سے برطانیہ نمایاں طور پر متاثر ہوسکتا ہے ۔

معیشتوں کا باہمی ربط مستقبل میں بنیادی طور پر واضح طور پر نظر آ نے کے امکانات روشن ہیں ،جیسے جیسے برطانیہ اور امریکہ کا مالیاتی بحران بڑھتا جائے گا، ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتا جائےگا۔زیادہ تر ممالک کو اپنی مالیاتی پالیسیوں کو درست سمت میں رکھنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ ہم پاکستان میں کئی دہائیوں سے ان بنیادی خامیوں کو درست کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

Advertisement

بے شک سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ممبران نے پارٹی کو بچانے کے لیے گٹھ جوڑ کر کے خاتون وزیر اعظم کی حکومت کو صلیب پر چڑھا دیا۔یہاں تک کہ 1922 ء کی کمیٹی کے قوانین کے تحت لز ٹرس کو جو تصوراتی تحفظ حاصل تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا ۔ اس سے پہلے قبل بورس جانسن اور تھریسا مے دونوں کو ہی قواعد کو مکمل نظر انداز کرنے کی پاداش میں حکومت سے برطرف کردیا گیا تھا۔

اگرچہ بہت سے لوگوں نے عام انتخابات کے عمل سے گزرے بغیر نئے لیڈر کو منتخب کرنے کے عمل کو پاگل پن قرار دیا ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ رشی سُونک تیسرے وزیر اعظم ہیں، جو عام رائے دہندگان کی حمایت کے بغیر 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں داخل ہوگئے ۔یوں لگتا ہے جیسے وہ یہاں کے حالات سے بخوبی واقف ہیں ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگاکہ ہم نے صحیح معنوں میں برطانوی پارلیمانی نظام کی تمام خامیوں کی پیروی کی ہے۔جیسا کہ مقامی طور پر دیکھا گیا ہےکہ ٹوریز کی جانب سے میوزیکل چیئرز کا کھیل کھیلنے کے بجائے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔اپوزیشن بھی تاحال فوری انتخابات کے امکان کو دیکھ رہی ہے،کیونکہ بہرحال وہ ملک میں معاشی استحکام کے خواہشمند ہیں ۔

متعدد سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہےکہ لیبر پارٹی نے معیشت کو بہتر طریقے سے سنبھال لیا ہے۔ سماجی و اقتصادی شعبوں میں ٹوریز نمایاں مارجن سے پیچھے ہیں۔لز ٹرس کے عروج اور زوا ل پر ہالی وڈ میں ایک بہترین فلم بنائی جاسکتی ہے جو شاید بزنس کرکے ریکارڈ بھی قائم کرلے ۔اس فلم کا نام’ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں 44 روز‘ رکھا جاسکتاہے۔

لز ٹرس نے بڑے عہدے کو بڑی خوبصورتی سے چھوڑدیا، جس کےلیے وہ بلاشبہ تعریف کے قابل ہیں ، کیونکہ ہمارے یہاں دفاتر میں مختلف عہدوں پر کام کرنے والوں کو نکالنا پڑتا ہے،لیکن وہاں غیر رسمی انداز میں عہدے سے علیحدگی اختیار کرنے کو برا نہیں سمجھا جاتا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
فلسطینیوں کی نسل کشی پر ترکیہ میں نیتن یاہو کی گرفتاری کے وارنٹ جاری
پاکستان اپنے اصولی موقف پر ڈٹ گیا ، استنبول مذاکرات میں ڈیڈلاک برقرار
دواجی کون ؟ ممدانی سے پہلی ملاقات، محبت ، شادی کب کیسے اور کہاں ہوئی ؟
دبئی، آئی سی سی میٹنگ جاری، ممبران پاک بھارت کرکٹ بورڈ میں سیزفائر کے خواہاں
سندھ پولیس کی گھوٹکی میں بڑی کارروائی ، 12 بدنام زمانہ ڈاکو مارے گئے
بگ بیش لیگ کی انتظامیہ نے شائقین کرکٹ کی دلچسپی کیلیے منفرد اسکیم متعارف کرا دی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر