
لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے سابق چیئرمین احمد رافع عالم نے کہا ہے کہ موجودہ نظام کی مزاحمت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نیٹ ورک میں قابل تجدید توانائی کے وسائل کی شمولیت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کے لیے درآمدی رکازی ایندھن پر بہت زیادہ انحصار معیشت اور ماحولیات دونوں کے لیے خطرناک ہے۔ متبادل اور قابل تجدید وسائل کو شامل کرکے بجلی کے پیداواری نظام کو بتدریج بہتر بنانے کے لیے قلیل المدتی اور طویل المدتی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے بول نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کے (ہائیڈل پاور جنریشن) منصوبے مہنگے ہیں اور ان کی تکمیل میں بھی کافی وقت لگتا ہے، اس کے مقابلے میں قابل تجدید وسائل جیسے شمسی توانائی کے منصوبے کم قیمت کے حوالے سے موثر ہیں جو تنصیب کے فوراً بعد بجلی پیدا کرتے ہیں۔ انفرادی اور اداروں کی طرف سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نیٹ ورک کے اندر قابل تجدید توانائی کے وسائل کی شمولیت میں موجودہ نظام کی مزاحمت اصل چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی کی تمام حکومتوں کی جانب سے طلب اور رسد کے فرق کو پر کرنے کے لیےجیواشم ایندھن سے چلنے والے پلانٹس کی تنصیب میں سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ جیواشم ایندھن کے ذریعے مہنگی لاگت پر بجلی پیدا کرنے کے نتیجے میں زائد ٹیرف نے حکومت اور صارفین دونوں کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ کچھ وقت پہلے جیواشیم ایندھن سے چلنے والے پلانٹس پر انحصار کم کرنے کے لیے دو میگا ڈیموں کی تعمیر کا اعلان کیا گیا لیکن اس میں وقت لگے گا اور اس وقت تک ہم جیواشیم ایندھن سے پیدا ہونے والی توانائی پر انحصار کرتے رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگ اور ادارے یوٹیلیٹی بلوں پر اخراجات کو کم کرنے کے لیے سولر پینل لگا رہے ہیں۔
معروف وکیل اور ممتاز ماہر ماحولیات نے کہا کہ اس کا انتخاب کرنے کے لیےزیادہ سے زیادہ افراد اور اداروں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں لوگوں کے لیےزائد بجلی خریدنے کے حوالے سے انتظامات کرنے چاہئیں، کیو ں کہ نیٹ میٹر تنصیب کے بعد بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے رہے۔
ایچی سن کالج سے او لیولز اور انٹرنیشنل اسکول آف چوفیت لاہور سے اے لیولز مکمل کرنے کے بعد احمد رافع عالم نے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز سے 1999ء میں ایل ایل بی (آنرز) کی ڈگری حاصل کی۔
وہ 2015ء سے انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان میں ایک سند یافتہ ڈائریکٹر اور2006 ء سے ورلڈ فیلو یل یونیورسٹی اور لائی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے تاحیات رکن بھی ہیں۔
وہ پنجوانی حصار واٹر انسٹی ٹیوٹ، این ای ڈی یونیورسٹی اور لاہور اسکول آف اکنامکس کی وزیٹنگ فیکلٹی، شیخ احمد حسن اسکول آف لاء، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اینڈ دی نیشنل مینجمنٹ کالج میں لیڈ کورس انسٹرکٹر بھی ہیں۔
وہ ایک درجن سے زیادہ اشاعتوں کے مصنف اور شریک مصنف بھی ہیں جن میں ماحولیاتی قوانین کا مینوئل (2011)، دی لاء آف پبلک انٹرسٹ لٹیگیشن (پلاٹینم پبلشنگ، لندن 2000)، پاکستان میں پانی کی آئینی تاریخ (2019)، پاکستان میں قومی ماحولیاتی قوانین اور پالیسیوں کے حالات کا تجزیہ (2017)، ہند-پاک کا زمینی پانی پر عبوری سرحدی تعاون، مسائل، چیلنجز اور مواقعوں کا قانونی تجزیہ(2016)، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مشترکہ ماحولیاتی خدشات (2014)، پاکستان کی آبی گفتگو: آب و ہوا کے انتظام کے طریقوں پر رویہ، ماحولیاتی تبدیلی کو شامل کرنا (2014)، پنجاب کی صحت کی پالیسی (2013)، موسمیاتی تبدیلی اور آبادی کی صحت، پاکستان کے لیے پالیسی اور ریسرچ آف ڈیوولیشن (2012)، سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے پبلک ٹرسٹ کا نظریہ اور ماحولیاتی مسائل (لاء جرنل 2012)، پاکستان میں مفاد عامہ کی قانونی چارہ جوئی میں کمیشنوں کا کردار (2011)، شہری تبدیلی اور دیہی، سپلائی آب و ہوا کی تبدیلی، آبادی کی حرکیات اور خوراک کی حفاظت کے درمیان گٹھ جوڑ (2010) اور لینڈ لاکڈ، غیر منقولہ جائیداد سے متعلق لین دین کو متاثر کرنے والی کچھ نااہلیوں کا جائزہ(2006) شامل ہے۔
انہوں نے 2000ءمیں عمر بندیال اور ایسوسی ایٹس کے ساتھ بطور ایسوسی ایٹ پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز کیا۔2004ء میں بھنڈاری اور نقوی (اب حیدرموتا بی این آر) کے ساتھ اسی حیثیت سے خدمات انجام دیں جس کے بعد انہوں نے اپنی قانونی فرم احمد رافع عالم اینڈ کمپنی قائم کی ہے اور اب وہ ایک معروف فرم سلیم، عالم اینڈ کمپنی کے پارٹنر بھی ہیں۔
عالم 2011ء سے 2013ء تک لیسکو کے چیئرمین، 2012ء سے 2018ء تک شہری یونٹ کے وائس چیئرمین اور 2012ء سے 2017ء تک لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ڈائریکٹر اور دو بار چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
وہ اپنے شاندار کیریئر کے دوران ایک استاد، پیشہ ور وکیل اور ماہر ماحولیات کے طور پر نجی شعبوں، اداروں اور نجی انجمنوں کی مختلف کمیٹیوں کا حصہ بھی رہے۔ ان کمیٹیوں میں پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل (2019ء سے آج تک)، پنجاب انوائرنمنٹ پروٹیکشن کونسل (2013ء سے اب تک)، پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (2013ء سے 2016ء تک)، لاہور کینال ہیریٹیج پارک ایڈوائزری کمیٹی (2013ء سے 2016ء تک)، دلکش لاہور کمیٹی، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور (2012 ءسے 2014ء تک)،شہری ترقی پر ٹاسک فورس، پلاننگ کمیشن آف پاکستان (2010ء) شامل ہیں، اس کے علاوہ پانی کے معقول استعمال پر حصار فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے مشیر، ایئر کوالٹی ایشیا کے نائب صدر، پاکستان انوائرمینٹل لاء ایسوسی ایشن میں بورڈ آف ڈائریکٹرز، پبلک انٹرسٹ لاء ایسوسی ایشن آف پاکستان میں بورڈ آف گورنرز، سٹیزن آرکائیو آف پاکستان کے ایڈوائزری بورڈ میں (2010ء سے 2016ء تک)، پاکستان گرین بلڈنگ کونسل میں (2012ء سے 2014ء تک) قانونی مشیر اور لاہور بینیل فاؤنڈیشن کے سیکریٹری وقانونی مشیر اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے قانونی مشیرکے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔
ان سے خصوصی گفتگو کے اقتباسات درج ذیل ہیں:
آپ کی سب سے بڑی کامیابی؟
2005ء میں ماحولیاتی منصوبوں کے اثرات کی تشخیص پر عوامی کی بہت کم شنوائی ہوتی تھی، میں اس غیر قانونی عمل کے خلاف اٹھنے والی مضبوط آواز کا حصہ تھا، ہم نے لاہور میں درختوں کی غیر ضروری کٹائی کی مخالفت کی۔ اس وقت حکومتی ادارے بڑے پیمانے پر عوام کی شکایات سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ لیکن اب آپ سال میں ماحولیاتی اثرات کی تشخص کے منصوبوں پر عمل درآمد سے پہلے ہزاروں عوامی سماعت دیکھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ درخت لگانے کی مہم میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کافی عام ہے۔ لاہور رنگ روڈ کے ساتھ ساتھ ہوائی اڈے اور شہر کے دیگر حصوں کے قریبی علاقوں میں دسیوں ہزار درخت لگائے گئے ہیں۔
کیا لاہور بچاؤ تحریک نے اپنا مقصد پورا کیا؟
مجھے یقین ہے کہ اس نے اپنا مقصد پورا کیا کیونکہ تحریک کا آغاز 2005ء میں نہر کنارے سڑک کو چوڑا کرنے کے لیے درختوں کی کٹائی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لاہور کینال کے کنارے درختوں کو بچانے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا۔ پرویز حسن کی سربراہی میں کمیشن میں سرتاج عزیز، سید بابر علی، سردار ایاز صادق اور عارف حسن شامل تھے۔
میں اس کمیشن کا سیکرٹری تھا جس نے اپنی رپورٹ دونوں اطراف میں چوڑائی کو محدود کرکے درختوں کو بچانے کی سفارش کے ساتھ پیش کی تھی۔ 2013ء میں کینال ہیریٹیج پارک ایکٹ بنایا گیا تھا جس کے تحت افراد اور محکموں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ درخت کاٹنے کے لیے پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی سے پیشگی اجازت لیں۔ پی ایچ اے نے کینال روڈ کے ساتھ گرین کور کو بہتر بنانے کے لیے مختلف مراحل میں ہزاروں درخت لگائے۔
کیا ہم موجودہ توانائی کے ساتھ برقی گاڑیوں میں شفٹ ہو سکتے ہیں؟
موجودہ توانائی کے ساتھ برقی گاڑیوں پر جانا غیر پائیدار ہے۔ ہمیں متبادل اور قابل تجدید توانائی کے وسائل کے ساتھ رکازی ایندھن کی جگہ لینے کے لیے قلیل المدتی اور طویل المدتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تک ہمیں ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں اور الیکٹرک موٹر سائیکلوں اور رکشوں کو متعارف کروانا چاہیے۔ ہم دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے لئے شمسی توانائی سے چلنے والے چارجنگ اسٹیشن کے قیام میں سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔
ہمیں اس دوران موجودہ قوانین میں ترمیم کرنی چاہیے تاکہ گاڑیوں کی رجسٹریشن صرف چیسس نمبر کے ساتھ ہو سکے۔
موجودہ توانائی کو بہتر بنانے کا راستہ ؟
ہم بجلی کی پیداوار کے لیے درآمد شدہ رکازی ایندھن پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں جو کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے غیر پائیدار ہے۔
2013ء میں توانائی بحران کے معاملے پر عام انتخابات لڑے گئے اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے رکازی ایندھن سے چلنے والے پاور پلانٹس کی تنصیب کے ذریعے توانائی کے بحران کو حل کرنے کا سہارا لیا کیونکہ ہائیڈل سے چلنے والے منصوبے نہ صرف مہنگے پڑرہے تھے بلکہ بہت زیادہ وقت بھی لیتے تھے۔
حکومت کی یہ ترغیب فیل ہوگئی، حکومت کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے شمسی توانائی جیسے قابل تجدید وسائل کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔حکومت لوگوں اور اداروں کو اپنے استعمال کے لیے بجلی حاصل کرنے کے لیے سولر پینل لگانے کا مشورہ اور اضافی رقم پر تقسیم کار کمپنیوں کو فروخت کرنے کی ترغیب دے سکتی تھی۔
جنوبی کوریا کو 1990ء کی دہائی میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا۔ درآمدی توانائی پر انحصار کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے حکومت کو آہستہ آہستہ قابل تجدید وسائل کی طرف بڑھا چاہئے تھا۔ہمیں جنوبی کوریا کی مثال پر عمل کرنا چاہیے تھا۔
توانائی کے نظام کو بتدریج بہتر بنانے کے لیے قلیل اور طویل المدتی منصوبوں کو وضع کرنے اور ان پر عمل درآمد کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے موجودہ نظام اور انفراسٹرکچر کو افراد اور اداروں کی طرف سے سولر پینلز کے ذریعے پیدا کی جانے والی بجلی کے لیے قابل قبول بنایا جانا چاہیے۔
موسمیاتی تبدیلی کتنی سنگین ہے؟ آگے بڑھنے کا راستہ؟
آب و ہوا کی تبدیلی میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن یہ موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرے والے 10 ممالک میں شامل ہے۔ غیر معمولی موسمی حالات سیلاب، گرمی کی لہروں اور خشک سالی کے ذریعے زندگیوں اور معاش کو تباہ کر رہے ہیں۔
ہمیں ماحول دوست سرگرمیاں اپنانی چاہئیں جیسے درخت لگانا، بہتر کاشت کاری کے طریقوں کو اپنانے کی ضرورت ہے اور گرمی سے بچنے والی اور پانی کی بچت کرنے والی فصل کی اقسام تیار کرنے کے لیے تحقیق پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
فضائی آلودگی کا مسئلہ کتنا سنگین ہے؟ اسباب اور ممکنہ راستہ؟
عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے سالانہ 70 لاکھ سے زائد افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان میں صورتحال واقعی تشویش ناک ہے۔ آلودگی پودوں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ پھیپھڑوں، دل، جلد کی بیماریوں اور دماغی صحت کے مسائل کا باعث بن رہی ہے۔
حکومت کے مطابق صنعتوں میں آلودگی پھیلانے والے ایندھن کے استعمال، اینٹوں کے بھٹوں کو چلانے اور کپاس کو جلانے کے ساتھ آلودگی پھیلانے والے ایندھن کے استعمال سے گاڑیاں بھی فضائی آلودگی میں اضاف کررہی ہیں اس کے علاوہ دیگر ممکنہ عوامل کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے جیسے کہ کباب و تکے کی دکانوں پر کوئلہ جلانا بھی شامل ہے۔
اس لیے ہمیں حقیقی صورتحال اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے قابل اعتماد اور مستند ڈیٹا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ میری رائے میں فضائی آلودگی ترجیح نہیں ہے۔ آگے بڑھنے کے لیےہمیں اتفاق رائے پیدا کرنا ہے کیونکہ فضائی آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ فضائی آلودگی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے سیاسی رضامندی اور کافی فنڈزمختص کرنے کی ضرورت ہے۔
بلین ٹری سونامی اور دس ارب ٹری سونامی منصوبوں پر آپ کی رائے ہے؟
کم از کم اعلیٰ حکومتی سطح پر اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہو چکا ہے۔ یوں میرے خیال میں یہ وہ اچھے اقدامات ہیں، جنہیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی نعروں کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ان اقدامات نے ملک کا ایک بہتر تاثر پیش کیا۔
حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں نے بھی شجر کاری مہم شروع کی، جس سے سبزہ زار کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔ حکومت کی اہلیت اور نیت پر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن مخالفت برائے مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔
ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر پاکستان اور انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر جیسے اداروں کی ساکھ پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا جنہوں نے ان منصوبوں کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کیا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق پاکستان میں شجرکاری کی شرح 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ میرے خیال میں شجرکاری کی شرح طے شدہ عالمی معیارات سے بہتر ہے۔
ہم گرمی کی لہروں کے اثرات کو کیسے کم کر سکتے ہیں؟
کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہر ہیٹ آئی لینڈ کے اثرات کی وجہ سے حد سے زیادہ ہیٹ ویو کا سامنا کر رہے ہیں۔ جانچ پڑتال کے بغیر ترقیات اور شہری سطح پر منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
گرمی کی لہروں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عمودی ترقی، شہری جنگلات، توانائی کے موثر مراکز اور سولر پینلز کی تنصیب کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ درخت، سبز چھتیں سولر پینل کی تنصیب سایہ دے کر سورج سے نکلنے والی تاب کاری سے سے بچاتےہوئے فضا میں نمی چھوڑ کر ہیٹ آئی لینڈ کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
پانی کا ضیاع ایک مسئلہ ہے۔ اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ہاں، یہ شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ شہری علاقوں میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے پانی کی پیمائش ایک صحیح آپشن ہے۔
مزید یہ کہ صنعتی اور تجارتی ٹیرف متعارف کرائے جائیں۔ خشک سالی کے خلاف مزاحمت کار زیادہ پیداوار دینے والی فصل کی اقسام تیار کرنے کے لیے بہتر کاشت کاری کے طریقوں کو اپنانے اور تحقیق پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کلو چاول پیدا کرنے کے لیے ہم 5000 لیٹر پانی استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں یہ صرف 400 سے 500 لیٹر ہے۔ ہمیں کاشت کاری کے طریقوں کو بہتر بنانا چاہیے اور پانی کی بچت کرنے والی اقسام کو تیار کرنا چاہیے۔
ہمارے آبی ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔ آگے کا راستہ کیا ہونا چاہیے؟
(ری چارج اور نکالنے کی سطح کے درمیان ایک بہت بڑا فاصلہ پانی میں بتدریج کمی کا سبب بن رہا ہے۔) سطحی پانی آب پاشی کی 60 فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔ باقی ضرورت زمینی پانی نکال کر پوری کی جاتی ہے۔ دیہی علاقوں میں زرعی مقاصد کے لیے اور شہری علاقوں میں گھریلو اور صنعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ پمپنگ آبی ذخائر کو ختم کر رہی ہے۔
بڑے شہروں میں سڑکوں کے ساتھ ڈونگی گراؤنڈز، پارکس اور گرین بیلٹس جیسے قدرتی زمینی پانی کو ری چارج کرنے والے مقامات کے غائب ہونے سے صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔
زمینی پانی کو پمپ کرنے اور ری چارج کرنے کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے زرعی طریقوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیوب ویلوں کے ذریعے پمپ کیے جانے والے پانی کے استعمال کو کم سے کم کیا جا سکے۔ ہمیں بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ زیر زمین پانی پر ہمارا انحصار کم سے کم ہو۔
پانی کو بہتر بنانے کے لیے کنوؤں کی ری چارجنگ پر آپ کا خیال ہے؟
اعداد و شمار کی تجزیاتی رپورٹس کو پڑھنے تک میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ شہری علاقوں سے حاصل کیا گیا بارش کا پانی آلودگی پھیلاتا ہے اور اس طرح اسے براہ راست پانی میں نہیں پھینکا جانا چاہیے۔
اس طرح کے کنویں بنانے کی بجائے ہمیں ہرے بھرے میدان، پارکس اور گرین بیلٹس کو سڑکوں کی سطح سے نیچے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ زیرِ زمین پانی جمع کیا جا سکے۔ بارش کے پانی کو آبی ذخائر کا حصہ بننے سے پیشتر زمین کی قدرتی تہوں سے گزارنے سے تمام خطرناک آلودگیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔بارش کے پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے زیر زمین ٹینک لاہور میں پانی اور صفائی کے ادارے کی طرف سے اٹھایا گیا ایک اچھا اقدام ہے۔ یہ بارشوں کے دوران شہری سیلاب سے بچنے میں مدد کرے گا اور خشک موسم میں باغبانی کے مقاصد کے لیے پانی کی دستیابی کو یقینی بنائے گا۔
آپ نیشنل واٹر پالیسی کو کیسے دیکھتے ہیں؟ اس کے نفاذ میں رکاوٹیں کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
پانی صوبائی موضوع ہے اور اس میں وفاقی حکومت مداخلت نہیں کر سکتی۔ قومی آبی پالیسی 2013ء کے عام انتخابات سے عین قبل جلد بازی میں نام نہاد اتفاق رائے سے منظور کی گئی۔
اُس کامیاب پالیسی میں بھی بہت سی خامیاں ہیں لیکن پھر بھی قیمتی وسائل کی بچت اور منصفانہ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے اس پر عمل درآمد کافی ہے۔سیاسی عزم کا فقدان، اسٹیک ہولڈرز کے درمیان عدم ہم آہنگی، صوبوں کی صلاحیت اور کم مختص بجٹ اس کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں۔
تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول ادارے، میڈیا اور سول سوسائٹی کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے اور مقررہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کافی مالی وسائل فراہم کرنے کے علاوہ نئے انفراسٹرکچر کا قیام ضروری ہے۔
کیا زراعت تجارتی خسارے کم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتی ہے؟
تجارتی خسارہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، کیوں کہ ہم توانائی اور خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات پر انحصار کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ فصلوں میں تنوع، ٹیکنالوجی کے استعمال اور کاشت کاری کے بہتر طریقوں کے ذریعے پیداوار میں اضافہ، اور زراعت اور ڈیری سیکٹر کو صنعت سے جوڑنا ہے۔ہم کاشت کو فروغ دینے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے تیل کے بیج، دالوں، پھلیاں اور چنے کی درآمدات کی جگہ لے سکتے ہیں۔پاکستان نہ صرف فصلوں میں تنوع اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات میں سرمایہ کاری کے ذریعے درآمدات کو کم کر سکتا ہے بلکہ پھلوں، سبزیوں اور پراسیس شدہ کھانے کی اشیاء کی برآمدات کو بڑھا سکتا ہے۔
آگہی کی کمی اور مطلوبہ انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی کی وجہ سے دودھ کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو جاتا ہے۔ چھوٹے کسانوں کو تکنیکی اور مالی مدد دیہی علاقوں میں ضیاع کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ پراسیس شدہ دودھ اور ویلیو ایڈڈ دودھ کی مصنوعات ملک کے لیے اچھا زرمبادلہ کما سکتی ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News