بجلی کے نرخوں میں آسمان کو چھونے والے اضافے اور گرمیوں کے دوران وقفے وقفے سے بجلی کی بندش برداشت کرنے کے بعد پیٹرولیم ڈویژن نے سردیوں کے موسم میں گیس کی راشن بندی کا اعلان کرکے قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔
مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی بلند بین الاقوامی قیمتیں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہیں، کیونکہ اس کی فلیگ شپ کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کو فراہم کردہ ایل این جی کارگو کی عدم ادائیگی کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے اجلاس میں ایڈیشنل سیکریٹری انچارج کیپٹن محمد محمود (ر) نے واضح کیا کہ گھریلو صارفین کو صبح تین گھنٹے، دو گھنٹے دوپہر اور شام میں تین گھنٹے تک گیس کی فراہمی یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ موسم سرما میں (دسمبر تا جنوری) گھریلو صارفین کو 16 گھنٹے تک گیس کی فراہمی نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں قدرتی گیس کی قلت ہے اور آنے والا موسم سرما اس کی دستیابی کے لحاظ سے کافی مشکل ہے۔چنانچہ، گھریلو صارفین کو دن میں صرف تین بار کھانا پکانے کے لیے فراہم کی جا سکتی ہے۔
اجلاس کے دوران پیٹرولیم ڈویژن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ مقامی گیس کی پیداوار میں ہر سال 10 فیصد کی شرح سے کمی آرہی ہے اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو 10 سال بعد مقامی گیس کی سپلائی نہیں ہوگی۔ صرف پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) کی گیس کی پیداوارسال 2010-11ء میں 3 لاکھ 60ہزار733 ایم ایم ایس سی ایف سے کم ہو کرسال 2020/21ء میں 2لاکھ 83ہزار792 ایم ایم ایس سی ایف رہ گئی۔
پیٹرولیم سیکریٹری نے کہا کہ گھریلو شعبے میں ایل این جی کی فراہمی کے بارے میں جیسا کہ ماضی میں رواج تھا، حکام مہنگی ایل این جی خرید کر اسے سستے نرخوں پر فروخت نہیں کر سکتے اور اس کے باوجود یہ زیادہ نرخوں پر دستیاب نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں ممکنہ گیس کے ذخائر والے علاقے ہیں لیکن سیکورٹی وجوہات کی بنا پر تلاش ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیکورٹی خطرات اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے گیس کے نئے ذخائر دریافت نہیں ہوئے ہیں۔ بڑی بین الاقوامی پٹرولیم کمپنیاں پاکستان آنے کی بجائے تیل اور گیس کی تلاش میں دوسرے کم رسک والے ممالک کا رخ کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے تیل اور گیس کی بین الاقوامی کمپنیاں اپنے غیر یقینی مستقبل کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ایک سال بعد یہ حکومت برقرار نہیں رہےگی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برس میں کوئی بڑی دریافت نہ ہونے اور موجودہ ذخائر میں تیزی سے کمی کے ساتھ گیس کی سپلائی متاثر ہو ئی ہے۔ اندازے بتاتے ہیں کہ گیس کا بہاؤ مزید کم ہو جائے گا اورسال 2029/30ء تک 1659ایم ایم سی ایف ڈی تک گر جائے گا۔
صنعت کے ماہرین کے مطابق ملک 2000ء سے قبل قادر پورفیلڈ میں ایک بڑی دریافت کے بعد گیس کے نئے ذخائر دریافت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ قدرتی گیس کے ذخائر میں تیزی سے کمی کی وجہ سے سستے گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس زیراستعمال ہیں۔
سیکریٹری پیٹرولیم کے مطابق پاکستان کو درآمدی گیس پر انحصار کرنا پڑے گا اور امکان ہے کہ آئندہ 4 سال میں یہ تجارتی جنس بین الاقوامی مارکیٹ میں سستی ہوجائے گی۔
ایران اور روس سے درآمدات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے حکومت ان دونوں ممالک سے ان حالات میں گیس نہیں خرید سکتی۔ تاہم وہ متبادل وسائل سے گیس حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے تھے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے منیجنگ ڈائریکٹر عمران مانیار نے کمیٹی کو بتایا کہ سردیوں کے لیے گیس لوڈ مینجمنٹ پلان پیٹرولیم ڈویژن کو پیش کر دیا گیا ہے۔ گھریلو صارفین کو ترجیح دی جائے گی جبکہ کیپٹیو پاور پلانٹس کو گیس کی سپلائی کم ہو گی۔
انہوں نے کہاکہ کراچی کے کچھ علاقوں جیسے لیاری، کیماڑی اور دیگر دوردراز کے علاقوں کو گیس کی فراہمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ سردیوں کے موسم میں نیٹ ورک پر 200 سے 300ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کراچی کی صنعتوں کو پریشر پمپ کے ذریعے گیس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پیٹرولیم ڈویژن کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق گیس کی قلت کی وجہ سے خاص طور پر پنجاب میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (SNGPL) کے نیٹ ورک کو بنیادی مسئلہ درپیش ہوگا۔ پنجاب کی اپنی گیس کی پیداوار دیگر صوبوں کے مقابلے میں کم ہے۔
آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو پہلا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پیداوار خود استعمال کریں۔ لہٰذا سردیوں کے عروج کے موسم میں دیگر صوبوں میں توانائی کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے لیکن پنجاب میں گھریلو صارفین کو مزید مشکلصورتحال کا سامنا ہو گا کیونکہ انہیں کھانا پکانے کے لیے صبح، دوپہر اور شام کو محدود گھنٹوں کے لیے گیس ملے گی۔
رواں ماہ میں گیس کی فراہمی اب تک بہتر رہی ہے۔ تاہم آئندہ ماہ سخت موسم کے ساتھ اس میں تیزی سے کمی کا خدشہ ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایس این جی پی ایل کا نیٹ ورک، جو پنجاب اور خیبرپختونخوا کا احاطہ کرتا ہے، کو دسمبر 2022ء سے مارچ 2023ء تک 300 سے 400 ایم ایم سی ایف ڈی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس لیے اسے گھریلو صارفین، صنعتوں کے کیپٹیو پاور پلانٹس اور کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) فلنگ اسٹیشنوں کو سپلائی کم کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔
پنجاب میں سی این جی کے شعبے کو پہلے ہی گھریلو گیس کی فراہمی پر پابندیوں کا سامنا ہے اور وہ درآمدی ایل این جی پر انحصار کرتا ہے، لیکن پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) کی جانب سے اسپاٹ کارگوز کی خریداری میں ناکامی کی وجہ سے یہ آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔
دسمبر میں اگر گیس کی بڑھتی ہوئی طلب کے تناظر میں صورتحال خراب ہوتی ہے تو خیبرپختونخوا میں سی این جی اسٹیشنوں کو بھی سپلائی میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔
پروسیسنگ انڈسٹری میں گیس کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ تاہم،موسم سرما کے عروج پر کیپٹیو پاور پلانٹس کو سپلائی کم ہو سکتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں گیس صارفین کی کل تعداد 10اعشاریہ65 ملین ہے۔ ان میں سے پنجاب میں 6اعشاریہ43 ملین اور خیبرپختونخوا میں 9لاکھ 97ہزار904 صارفین ہیں۔ سندھ میں صارفین کی تعداد 2اعشاریہ92 ملین ہے جب کہ بلوچستان میں 3لاکھ4ہزار468 صارفین ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر پیدا ہونے والی گیس کی کمی کو نظر انداز کرتے ہوئے پارلیمنٹیرینز کی گیس اسکیموں نے اپنے حلقوں میں ووٹروں کو جیتنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، جس کے نتیجے میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور بہاؤ میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔
اس قلت کی وجہ سے معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے صنعتی یونٹس بھی بند ہو گئے ہیں۔
پیٹرولیم کے سابق سیکریٹری جی اے صابری نے کہا کہ ناقص منصوبہ بندی اور قلیل المدتی فوائد کی وجہ سے ملک کو گیس کی قلت کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ملکی گیس کو گھریلو صارفین اور سی این جی سیکٹر کی طرف موڑنا معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ گھریلو استعمال اور نقل و حمل کے مقاصد کے لیے مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کو فروغ دینے کے بجائے مقامی طور پر پیدا ہونے والی گیس کو سیکٹرز میں ضائع کیا گیا، جس سے کوئی معاشی سرگرمی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کے دوران پیٹرولیم ڈویژن نے ایل این جی کی خریداری کے لیے سستی ڈیل کو حتمی شکل دی تھی کیونکہ اس وقت خریدار نہیں بیچنے والے تھے لیکن بدقسمتی سے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس ڈیل پر اعتراض اٹھایا، جس کا نتیجہ بالآخر معاہدے کی منسوخی کی صورت میں نکلا.
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ملک میں گیس کی تلاش کو فروغ دینے کے بجائے صرف ایل این جی کی درآمد پر توجہ دے رہی ہے جو کہ نیک شگون نہیں ہے۔
جی اے صابری نے مزید کہا کہ ہمارے پاس بلوچستان اور سندھ میں بھی گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن ہم تلاش شروع کرنے میں حائل رکاوٹوں کو دور نہیں کر رہے۔ اگر مقامی افراد کو یقین ہو کہ یہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہے، تو سیکورٹی کی صورتحال آسانی سے قابل انتظام ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ایل این جی کی درآمد کا 10 سالہ منصوبہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب سیکیورٹی کی صورتحال بہت بہتر اور تلاش کی سرگرمیوں کے لیے سازگار ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاحال کسی بھی حکومت نے گیس کے مؤثر استعمال کے لیے اپنی ترجیحات درست نہیں کیں، جنہیں صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی کے لیے پاور پلانٹس کی جانب موڑا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں بجلی کا وسیع نیٹ ورک ہے اور حکومت کو گیس کی فراہمی میں پاور سیکٹر کو ترجیح دینی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل درآمد شدہ ایل این جی صارفین کو کیپٹیو پاور پلانٹس اور فرٹیلائزر پروڈیوسرز کو رعایتی نرخوں پر فراہم کی جاتی تھی۔ لیکن اب روس یوکرین جنگ کے تناظر میں بین الاقوامی سطح پر اس کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے ملک میں ایل این جی دستیاب نہیں ہے۔
ایک ماہر نے مشورہ دیا ہےکہ حکومت گھریلو صارفین کو پائپ کے ذریعے گیس کی سپلائی فوری طور پر بند کرے، اس کے بجائے انہیں رعایتی نرخوں پر ایل پی جی دیں تاکہ صنعت کاری کی بنیاد کو بڑھانے اور برآمدات کو فروغ دینے کے لیے قیمتی وسائل کو بچایا جا سکے۔
دریں اثنا، پی ایس او کا لیکویڈیٹی بحران اس کی وصولیوں میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ 621اعشاریہ168 ارب روپے اور واجبات 268اعشاریہ5 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
اس سے یوٹیلٹی فرنس آئل اور ایل این جی کی درآمد کے لیے 218اعشاریہ5 ارب روپے کی ایل سیز کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ختم کرنے سے قاصر رہی۔
وزارت توانائی کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق لیکویڈیٹی بحران نے سردیوں کے موسم میں ایل این جی کی سپلائی کو عملی طور پر خطرے میں ڈال دیا ہے، کیونکہ پی ایس او کی وصولیاں اور واجبات 890 ارب روپے تک بڑھ چکے ہیں۔
عہدیدار نے کہا کہ 9 نومبر 2022ء تک وصولیاں اور قابل ادائیگیاں اور ایس این جی پی ایل کی طرف سے ایل این جی کی درآمدات کی مد میں 400اعشاریہ258 ارب روپے کی عدم ادائیگی پی ایس او کے لیے بڑا درد سر بن کر سامنے آئی ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ ایس این جی پی ایل اب تک پی ایس او کو 393 اعشاریہ5 ارب روپے کی نادہندہ ہے۔ ایکسچینج ریٹ میں ہونے والے نقصانات کی وجہ سے اس پر 6اعشاریہ758 ارب روپے بھی واجب الادا ہیں،پی ایس او کی لیکویڈیٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ایس این جی پی ایل کی جانب سے واجبات کی عدم ادائیگی نے ایل این جی کی سپلائی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ایس او نے 11 نومبر 2022 ءکو پیٹرولیم ڈویژن کو پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ اس کے قرض لینے کی حد زیادہ سے زیادہ حد تک پہنچ گئی ہے اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو وہ مستقبل میں ایل این جی کی سپلائی کو برقرار رکھنے کے لیے مزید قرض لینے سے قاصر رہے گا۔
اہلکار نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پی ایس او پیٹرولیم ڈویژن کی مداخلت چاہتا ہے تاکہ ایس این جی پی ایل سے وصول کی جانے والی اشیاء کو کنٹرول میں رکھا جاسکے، اور اس مقصد کے لیےادائیگی کے منصوبے پر عمل درآمد، جیسا کہ پہلے ایس این جی پی ایل کے ساتھ اتفاق کیا گیا تھا، کو مکمل طور پر پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ موسم سرما کے دوران فنڈنگ کے ممکنہ فرق کو پورا کیا جا سکے تاکہ ملک میں ایل این جی اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
پی ایس او نے تجویز پیش کی ہے کہ ایس این جی پی ایل سے موجودہ وصولیوں کے تصفیہ اور مستقبل میں قابل وصولی کو روکنے کے لیے ایک ٹھوس منصوبہ بنایا جائے۔
تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ پاور سیکٹر پی ایس او کے 176 ارب روپے کا مقروض ہے،پاور جنریشن کمپنیوں اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے ذمے 146اعشاریہ877 ارب روپے، حب پاور کمپنی لمیٹڈ (حبکو) کے ذمے 24اعشاریہ737 ارب روپے اور کوٹ ادو پاور کمپنی (کیپکو) کے ذمے 5اعشاریہ932 ارب روپے واجب الادا ہیں۔
قومی پرچم بردار کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) بھی اب تک پی ایس او کو 23اعشاریہ750 ارب روپے ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم، حکومت پاکستان کی جانب سے قیمتوں میں فرق کے دعوؤں کے پیش نظر سرکاری تیل کی کمپنی کو 8اعشاریہ934 ارب روپے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ایف ای 25 لون پر ایکسچینج ریٹ کے فرق کی مد میں بھی 10اعشاریہ680 ارب روپے ادا کرنے ہوں گے۔
ادائیگیوں کی صورت حال کے حوالے سے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پی ایس او کو بھی ریفائنریوں کو 50 ارب روپے ادا کرنے کی ضرورت ہے، جس میں پاک-عرب ریفائنری (پارکو) کو 26اعشاریہ641 ارب روپے، پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) کو 9اعشاریہ783 ارب روپے، نیشنل ریفائنری لمیٹڈ (NRL) کو 4اعشاریہ401 ارب روپے، اٹک ریفائنری لمیٹڈ (ARL) کو 8اعشاریہ309 ارب روپے اور ای این اے آر کو 866 ملین روپے ادا کرنے ہیں۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کویت پیٹرولیم کمپنی (KPC) کو ایل سیز کی ادائیگیوں اور قطر کو ایل این جی کی ادائیگیوں کے حوالے سے پی ایس او کے واجبات 218اعشاریہ5 ارب روپے تک بڑھ گئے ہیں اور اس طرح کل ادائیگیاں 268اعشاریہ5 ارب روپے تک پہنچ گئی ہیں۔
وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ توانائی کے شعبے کی طرح تیل اور گیس پر بھی بہت زیادہ سبسڈی دی جاتی ہے اور اسے اس طرح نہیں چلایا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ غلط منصوبہ بندی اور قلیل المدتی فوائد کی وجہ سے توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2اعشاریہ5 ٹریلین روپے اور گیس سیکٹر کا 1اعشاریہ5 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا دفاعی بجٹ 1اعشاریہ2 ٹریلین روپے ہے اور ان دونوں شعبوں کا گردشی قرضہ دفاعی بجٹ سے تین گنا زیادہ ہ، جس کا مطلب ہے کہ حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گھریلو صارفین ایل این جی کی قیمت کا صرف 10 فیصد ادا کر رہے ہیں۔
انہوں مزید کہا کہ اگر صارفین ایل این جی کے لیے 400 روپے ادا کر رہے ہیں، جس پر حکومت کی 4000 روپے لاگت آتی ہے، تو اسے لاگت کا فرق برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس سے گردشی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے۔
مصدق ملک نے کہا کہ تاہم،سردیوں کے موسم کے لیے تین اضافی ایل این جی کارگو حاصل کیے گئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ گزشتہ موسم سرما کے مقابلے میں صورتحال بہتر ہو جائے گی۔
ان کے مطابق پٹرولیم ڈویژن نے طویل المدتی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے جس میں ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-انڈیا (TAPI) گیس پائپ لائن پر تیزی سے کام کرنا، مقامی لوگوں کو مراعات اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تحفظ دے کر تیل و گیس کی تلاش کی حوصلہ افزائی کرنا شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ناکارہ پاور پلانٹس سے چھٹکارا حاصل کرے گی اور گیس کی چوری کو بھی روکے گی، جو کہ دو تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے فراہم کردہ کل گیس کے 12 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News