
قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک سیاسی اور معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے لیکن حال ہی میں یہ مسائل ملک کے لیے بڑی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب عالمی منڈیاں اور جغرافیائی سیاست، عدم استحکام کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ، پاکستان کو بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بلند شرح سود اور بڑھتے ہوئے خسارے جیسے معاشی بحران کا بھی سامنا ہے۔ان نقصانات میں حالیہ سیلاب سے ہونے والی تاریخی بربادی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔
بین الاقوامی منڈیوں میں مندی اور دنیا بھر میں کساد بازاری کے خطرے کے ساتھ، پاکستان گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتی ہوئی سیاسی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنےکے لیے تیار ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق رواں مالی سال کے دوران ملکی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ فنانسنگ (فنڈ) تو موجود ہے لیکن مارکیٹیں اب بھی اس پر یقین رکھنے کے قابل نہیں ہو سکیں ۔
حالیہ پیش رفت میں موڈیز انویسٹرز سروس نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو کم کر دیا ہے۔ ان کے مطابق اس کی اپنی قرضہ برداشت کرنے کی صلاحیت خود مختار لیکن کمزور ترین ہے جس سے ریٹنگ ایجنسی کا سامنا رہتا ہے ۔رواں سال صرف سود کی ادائیگی میں حکومت کی آمدنی کا نصف حصہ خرچ ہوجائے گا ، جو پچھلے سال کے تقریباً 40 فیصد سے زیادہ ہے۔
بارکلیز بینک نے پاکستان کی قرضہ سروس پر ایک رپورٹ میں غیر ملکی قرض دہندگان کو درپیش متعدد خطرات پر روشنی ڈالی ہے۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو مالی سال 2023 ء میں کم از کم 6 ارب ڈالر کے فنڈنگ گیپ کا سامنا ہے۔جب کہ مالی سال میں واجب الادا ہونے والے 15 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کے قرضوں کی خدمت کی ذمہ داریوں میں سے9 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کو رول اوور کیا جائے گا، کیونکہ یہ سرکاری قرض دہندگان کی طرف سے تھا اور تازہ ترین بجٹ میں ایک اعشاریہ 5 ارب بلین ڈالر کا بانڈ مختص کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بقیہ 4 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کےلیے ری فنانسنگ کے منصوبے دستیاب نہیں ہیں۔
اس تاثر کو زائل کرتے ہوئے، مرکزی بینک نے دعویٰ کیا ہے کہ سیلاب کے بعد دوست ممالک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے محفوظ فنانسنگ اور وعدے کیے گئے، جس نے ملک کا ایک تہائی حصہ تباہ کر دیا، مزید کہا گیا کہ سال کے آخر تک زرمبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن میں بہتری آئے گی ۔
ایشیائی ترقیاتی بینک، ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ نے پاکستان کو 4 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور رواں مالی سال میں 2 ارب ڈالر کے بانڈ فلوٹ(بانڈ جاری کرنے کا برطانوی طریقہ، کارپوریشنز اور حکومتیں رقم ادھار لینے کے لیے بانڈز بناتی ہیں) کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔ان اعداد و شمار سے ایسا محسوس ہوتا ہےکہ ملک کی زیادہ تر مالی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں لیکن یہ سب ان وعدوں کی تکمیل پر منحصر ہے۔ تب تک یہ محض مفروضے ہیں۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ، دنیا بھر میں معاشی حالات خراب ہو رہے ہیں کیونکہ یورپی یونین روس اور یوکرین تنازعہ کی وجہ سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے تناظر میں قیمتوں کو محدود کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
اسی طرح، برطانیہ موسم سرما میں تین گھنٹے طویل بجلی کی بندش کے امکان پر غور کر رہا ہے، جب مائع قدرتی گیس کی قلت عروج پر ہونے کی توقع ہے۔جب کہ جرمنی نے رہائشی علاقوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو موسم سرما کے دوران گیس کے بلوں کی ادائیگی کے لیے 200 ارب یورو کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
روس، یوکرین جنگ جاری رہنے کے ساتھ، آنے والے دنوں میں گیس کی قلت کے امکانات نے بیشتر ممالک کو طویل عرصے سے جاری اپنے عقائد کو ترک کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔پہلے سے خراب صورتحال کو مزید خراب کرنےکےلیے
پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک)نے تیل کی پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ یا عالمی سپلائی کا 2 فیصد کمی کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس کے بعد سے اب تک تیل کی عالمی قیمتوں کی مانگ کی توقع میں اضافہ ہونے لگا، کیونکہ کساد بازاری جیسی صورتحال نے ترقی یافتہ معیشتوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران، تیل اور اس سے منسلک مصنوعات کا ملک کی کل درآمدات کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ تھا۔
یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہےکہ رواں سال اس میں کمی آئے گی جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن میں بہتری آئے گی جو ایک ماہ کے درآمدی احاطہ سے قدرے نیچے آگئی ہے لیکن پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم کا فیصلہ یقیناً اس امیدوں پر پانی پھیر دے گا۔ عالمی وبا کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں لگنے والے لاک ڈاؤن کے بعد
صرف تیل کی قیمتوں نے ہی نہیں ، بلکہ بڑھتی ہوئی شرح سود اور تاریخی مہنگائی نے بھی معیشتو ں کو متاثر کیا ہے۔
خراب معاشی حالات، روپے کی قدر میں کمی کا پاکستان پر بوجھ ہے، جس سے حکومت کے لیے مقامی وسائل اور بیرون ملک سے ریونیو اکٹھا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں وزیر خزانہ کی تبدیلی کے بعد ، حکومت معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی سطح پر پوری کوششیں کر رہی ہے لیکن ابھی تک یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ایسا کر بھی پائیں گے یا نہیں؟ کیونکہ ان کے پاس مستقبل میں پیدا ہونے والی صورتحال کا مقابلہ کرنےکےلیے وسائل موجود نہیں ۔
2022 ء کے آغاز میں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 172 تھی ، لیکن جولائی اور ستمبر میں تاریخی طور پر مہنگائی ہوکر 240 روپے تک پہنچ گیا ۔ 4 نومبر 2022 ء کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 221 روپے 92 پیسےریکارڈ کی گئی ۔
عالمی منڈیوں میں حالیہ اتار چڑھاؤ کے بعد پاکستان کے لیے معاشی بحالی ایک طرح سے چیلنج بنا چکا ہے۔حالیہ سیلاب سے تباہی اور موجودہ سیاسی عد م استحکام کی صورتحال کے باعث معاشی مسائل سے نمٹنا مشکل کام بن گیا ہے،اور سب سے بڑھ کر عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے طے شدہ مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے بعد پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنا ہو گا ، اور صورتحال پر قابو پانے کےلیے جوابی اقدامات کرنا ہوں گے ۔
موجودہ حالات میں اتحادی حکومت کو اگلے عام انتخابات میں نتائج کی پروا نہ کرتے ہوئے معیشت کو بچانے کےلیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔آسان الفاظ میں، حکومت عوام کی حمایت سے محروم ہو جائے گی کیونکہ ان کے اقدامات ممکنہ طور پرلاکھوں افراد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیں گے، لیکن ایک طرح سے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ جائےگا۔
اس کے برعکس ، حکومت شرح مبادلہ کم کرکے، بجلی کی قیمتوں کو محدود کرکے اور مختلف شعبوں کو سبسڈی فراہم کرکے مقبولیت حاصل کرسکتی ہے۔اب یہ حکام پر منحصر ہے کہ وہ ملک کو بچاتے ہیں یا پھر اپنی سیاسی جماعت کے امیج کی فکر کرتے ہیں ؟ کیونکہ پارٹی صرف پاکستان کے وجود کے ساتھ ہی قائم رہ سکتی ہے۔
اسحاق ڈار کو بطور وزیر خزانہ ، عوام پر حالیہ بوجھ کو کم کرنے اور آئی ایم ایف پروگرام پر عمل کر کے ملک کو سری لنکا جیسی صورتحال سے بچانےکےلیے کے ساتھ مسلم لیگ( ن) کی اگلے عام انتخابات میں بقا کےلیے لایا گیا ہے،لیکن کیا اسحاق ڈار کیا ان تمام توقعات کو پوار کرسکیں گے ؟ یہ یقینی طور پر ایک بہت اہم سوال ہے۔ اس ملین ڈالر سوال کے ساتھ مزید سوال بھی اٹھ رہے ہیں ۔ کیا وزیر خزانہ مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں ؟ کیا وہ واقعی مطلوبہ چھوٹ حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے ؟ تاحال اس حوالے سے وہ خود بھی کچھ نہیں جانتے۔
یہ واضح ہے کہ وہ اس مفروضے پر آگے بڑھنے کی تیاری کر رہے ہیں کہ وہ شرح مبادلہ کو مستحکم رکھیں گے، جیسا کہ انہوں نے اپنے پچھلے ادوار میں کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہےکہ اسحاق ڈار معیشت کو کس طرح ڈوبنے سے بچاتے ہیں ؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News