
جب ایک ایگزیکٹو کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس کی کوئی حد نہیں ہوتی کہ وہ کیا حاصل کر سکتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے ’’ترقی کی سوچ ‘‘ کہا جاتا ہے جو ایک ’’مقررہ نقطہ ء نظر‘‘ کے برخلاف ہے، ذہنی اور جسمانی طور پر دونوں اگرچہ زیادہ ذہنی، جو ایک حد مقرر کرتی ہے، جو آپ کے خیال میں آپ کبھی حاصل نہیں کر سکتے، جیسا کہ سابق امریکی صنعت کار ہنری فورڈ نے تقریباً ایک صدی پہلے کہا تھا: ’’اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کر سکتے ہیں یا اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے تو آپ درست ہیں۔‘‘ اس کے ذریعہ انہوں ترقی کے نقطہ ء نظر اور مقررہ نقطہ ء نظر کے درمیان فرق کو واضح طور پر بیان کیا۔
اگرچہ میں نے ہمیشہ اس پر یقین کیا ہے اور یہ فرد پر منحصر ہے لیکن کسی کو وراثت میں ملتا ہے یا کسی ملازمت پیشہ شخص کے ذہن میں بسا دیا جاتا ہے، اس کے باوجود، میں نے لوگوں کو حدود میں رہنے کی روایات سے الگ ہوتے ہوئے دیکھا ہے تاکہ وہ ایسے سنگ میل عبور کر سکیں جس کی انہیں اجازت نہیں ہوتی۔ درحقیقت، شاید وہ کچھ حاصل نہ کر پاتے اگر وہ وہیں رہتے جہاں وہ تھے۔
بطور کنسلٹنٹ میں نے ترقی کے نقطہء نظر کو صرف زبانی طور پر بھی ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے، جیسے کسی حکمت عملی میں بیانات کا ذکر کرنا مگر حقیقت میں ان روایات کے اردگرد بھی اس کی پیروی نہ کرنا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ترقی کی ذہنیت تعداد میں اضافے کے بارے میں نہیں ہے حالانکہ یہ یقیناً اس کا نتیجہ ہے۔ترقی کی سوچ وہ ہوتی ہے جو آپ اُس وقت حاصل کرتے ہیں جب آپ اپنی مقررہ حدود سے باہر جا کر نئی مہارتیں سیکھتے یا کوئی ایسی چیز حاصل کرتے ہیں جو آپ کی موجودہ صلاحیتوں سے بالاتر نظر آتی ہے۔
میں نے بہت پہلے پڑھا تھا کہ کامیاب ہونے والا وہ شخص ہے جو یقین رکھتا ہے کہ وہ کرسکتا ہے، یہ معیار میرے لیے ترقی کی ذہنیت ہے۔ یہ یقین کرنا کہ آپ راستے میں سیکھنے اور اپنانے کی اندرونی صلاحیت رکھتے ہیں، لہٰذا آگے بڑھیں، کیوں کہ کچھ کیے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی۔
کرکٹ کے دو عظیم آل راؤنڈرز ، بعد میں کپتان بننے والے عمران خان اور کپل دیو دونو نے ایک خاص معیار قائم کیا، میں اُن کی مثال اس لئے دیتا ہوں کیونکہ کارپوریٹ دنیا کے کچھ لوگ اپنی ترقی کی ذہنیت کو عملی جامہ پہنانے میں روز روز نظر نہیں آتے۔ البتہ ، اسٹیو جابز اور ان سے پہلے ہنری فورڈ ہیں جو اس طرز عمل کے آئیکن ہیں لیکن پھر بھی ان کی زندگی اور فیصلے عالمی سطح پر ان مشکل لمحات میں نظر نہیں آتے جہاں سے انہوں نے ترقی کی ذہنیت کا آغاز کیا۔
آئیے پہلے کپل دیو سے شروع کرتے ہیں، 1980 ء کی دہائی کے اوائل میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم محدود اوورز کی کرکٹ میں فتح حاصل نہیں کرپاتی تھی اور خود ہندوستانی کھلاڑی بھی کارکردگی نہیں دکھاپاتے تھے تاہم ٹیم انڈیا 1983ء کے ورلڈ کپ میں پہنچی جب کہ وہ پچھلے دو ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام ثابت ہوئی تھی بعد ازاں انہوں نے ناقابل تسخیر ویسٹ انڈیز کو شکست دیتے ہوئے فتح حاصل کی اور کچھ دوسری فتوحات کی بات کی جائے تو ٹیم انڈیا جب زمبابوے کے خلاف میچ میں 17/5 پر تھی تو کپل دیو نے کریز پر آنے کے بعد 175 رنز بناکر فتح سمیٹی اوربعدازاں سیمی فائنل میں میزبان انگلینڈ کو بھی شکست دی۔
یقینا! وطن واپسی تک تمام کھلاڑی اپنی معمول کی صلاحیتوں کے مطابق کھیلتے، لیکن اس کے باوجود کپل دیو انہیں مسلسل بتاتے رہے کہ وہ حقیقت میں ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں۔
یہاں تک کہ جب وہ فائنل میں پہنچے تو انہوں نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا کہ وہ دوبارہ ویسٹ انڈیز کو ہرا سکتے ہیں، جیسا کہ گروپ گیم میں واپسی کے لیے بھارت نے اپنی فتح کو مزید شاندار بنایا تھا، شاید ان کے واحد جارحانہ اوپنر کرس سری کانتھ واپس آئے اور دیگر کھلاڑیوں کو یاد کراتے ہوئے بتایا کہ انہیں غیررسمی کھیل پیش کرنا ہوگا کیونکہ کپل دیو نے فائنل میچ کی صبح اپنے کھلاڑیوں سے پرجوش انداز میں اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ ویسٹ انڈیز کو ہرا کر ٹرافی جیت سکتے ہیں۔
ویسٹ انڈین فاسٹ بالر کے ہاتھوں سری کانت کے آؤٹ ہونے کے باوجود شام گئے تک کپل دیو ورلڈ کپ کی فتح کی توقع کیے رہے۔ دو سال بعد ہندوستان نے میلبورن میں منی ورلڈ کپ کا ایونٹ جیتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے 1983ء سے پہلے اچانک انڈین کرکٹ ٹیم کو ایسا بنالیا تھا کہ وہ ایک ایسی ٹیم بن گئی تھی جو کسی کو بھی کہیں بھی چیلنج کر سکتی تھی۔اور 1987ء کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے بعد ٹرافی اپنے نام کی۔
عمران خان بھی اسی طرح تھے، جنہوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بتایا کہ وہ انگلینڈ میں جیت سکتے ہیں، ایک ایسی جگہ جہاں پاکستانی کرکٹرز ہمیشہ یہ محسوس کرتے تھے کہ وہ انگلش وکٹ کا شکار ہو جائیں گے حالانکہ 1970ء کی دہائی میں تقریباً پوری پاکستانی ٹیم موسم گرما میں انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلتی رہی ہے اور وہ اکثر پچھلے دوروں میں جیتنے کے قریب آتے تھے اور 1954ء میں اپنے پہلے ہی دورے پر انہوں نے انگلش ٹیم کو ایک ٹیسٹ میں شکست دی تھی۔ آخر ہمیشہ ایسا ہی رہا۔ جیسا کہ ہم نے سوچا تھا۔
اس دورے کے بعد اور 1970 ءکی دہائی تک انگلینڈ میں کھیلنے والے کھلاڑیوں نے بشمول کپتان سمیت مجھے ذاتی طور پر بتایا کہ ہر بار خود شک میں پڑجاتے تھے کہ کیا وہ واقعی انگلش ٹیم کو ان کی ہوم وکٹ پر شکست دے سکتے ہیں۔
1982ء میں جب عمران خان انگلینڈ کے دورے پر کپتان بنے تو انہوں نے کھلاڑیوں سے کہا کہ وہ بہترین ٹیم کے خلاف کھیلنے کے لیے کافی ہیں اور وہ انگلینڈ کو انگلینڈ میں ہرا سکتے ہیں۔ لارڈز میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کو ہرادیا اور پھر اس کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم نے ہر دورے میں اکثر سیریز جیتی۔ عمران نے پاکستانی ٹیم کی ذہنیت کو بدل کر رکھ دیا اور پاکستانی کرکٹ ٹیم ایک عالمی بیٹر بن گئی اور بالآخر آسٹریلیا میں ورلڈ کپ بھی جیت لیا۔ 1992ء کے ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم میں کھیلنے والے ہر کھلاڑی نے مجھے بتایا کہ انہیں کبھی یقین نہیں تھا کہ وہ سیمی فائنل تک بھی پہنچ پائیں گے، سوائے عمران خان کے جو کہتے رہے کہ وہ ورلڈ کپ جیتیں گے۔
کپل دیو اور عمران خان دونوں نے اپنے ماتحت کھیلنے والے ہر کھلاڑی میں آگے بڑھنے کی سوچ پیدا کی۔ انہوں نے انہیں اپنی حدود سے باہر نکلنے اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے پر مجبور کیا۔ خود کھلاڑیوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنے اندر ایسی مہارتیں پائی ہیں جس کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
تو کپل دیو اور عمران خان نے ایساکیا کیا جو پچھلے کپتان نہیں کر سکے؟ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو دکھایا کہ وہ بیرون ملک اور نامانوس حالات میں کیسے جیت سکتے ہیں؟ ان کو سیکھنے اور حالات کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب دی جس کہ وہ عادی نہیں تھے اور انہیں لگتا تھا کہ وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ان دونوں نے ان سے کہا کہ وہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلیں اور ناکامی سے خوفزدہ نہ ہوں۔
یہ ایک فکسڈ مائنڈ سیٹ اور گروتھ مائنڈ سیٹ کے درمیان فرق کو ظاہر کرتا ہے جو کہ جمود اور بڑھنے والی کمپنیوں کے درمیان فرق ہے اور جب آپ قیادت کا جائزہ لیں گے تو آپ کو یہ فرق ہمیشہ نظر آئے گا۔ چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے پاس خود اعتمادی اور ترقی کی ذہنیت ہونی چاہیے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین میں اس کو شامل کرے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ جب کوئی کمپنی ترقی کی سوچ اپناتی ہے چاہے بورڈ کے ذریعے ہو اور تقریباً ہمیشہ سی ای او کے ذریعے ہی ہوتی ہے یہ سرایت کن ہے، وہاں ایسے ملازمین ہوں گے جو خود کو آگے نہیں بڑھاتے لیکن مجموعی طور پر یہ حوصلہ افزائی کرتا ہے اور بعض اوقات ملازمین کو اپنی طے شدہ ذہنیت کے طوق کو توڑنے کے لیے مجبور کرتا ہے، جو درحقیقت کمپنی کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
میں نے یونیورسٹی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں ایک ایسے ماحول میں کام کیا ہے جس نے مجھے بتایا کہ میں ایسا کچھ نہیں کر سکتا جو کمپنی کی قسمت بدل دے یا میرے اندر ترقی کی سوچ پیدا ہوں۔ جب میں اور میرے ساتھی ملازمتوں کی تلاش میں تھے تو محکمہ کے اوپری حصے میں تبدیلی آئی اور ہمیں اچانک محسوس ہوا کہ ہم بھی کچھ کرسکتے ہیں، یہاں تک کہ تجربہ بھی کر سکتے ہیں اور ان کو سراہا گیا۔
جیسا کہ ہم نے کمپنی میں زیادہ وقت گزارا، ہمیں خود چیئرمین تک رسائی حاصل ہوئی اور ہم نے دیکھا کہ یہ بالکل مختلف دنیا تھی جہاں ہمارے خیالات کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس نے مجھے انتظام اور کاروبار کے ایسے عناصر کو جاننے میں مدد فراہم کی جن سے میں ناواقف تھا لیکن انہیں مکمل طور پر قابل عمل پایا۔
کسی بھی چیز سے بڑھ کر ہم سے پوچھا جائے گا کہ ہم نے کیا سیکھا، یہاں تک کہ جب پراجیکٹس کام نہیں کرتے اور یہ سیکھنے سے مستقبل کے پروجیکٹس میں کس طرح مدد ملے گی، اصل میں سب سے اوپر خوشی ہوگی کہ ہم نے بڑھنا سیکھا تھا۔ ظاہر ہے، ہم نے زیادہ سیکھا، اور وہ بھی سیکھنے کا نتیجہ تھا، جو اوپر سے نیچے کی ترقی کی ذہنیت کا براہ راست نتیجہ تھا۔
جب میں کسی دوسری کمپنی میں سی ای او بنا تو مجھے ایک ایسا نظام اور ثقافت وراثت میں ملی جس کا سامنا مجھے اس وقت ہوا تھا ۔جب میں نے پہلی بار اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور بالکل جانتا تھااس سے کیسے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، جیساکہ میں نے یہاں تک کہ جونیئر اور کم تعلیم یافتہ عملے کے ساتھ بھی کامیابی حاصل کی جنہوں نے وہ کام انجام دیے جن کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ بہت سے کارپوریٹ ماحول چیلنجنگ ہیں، سبھی ترقی کی سوچ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے میرا اصرار ہے کہ یہ بنیادی طور پر فرد پر منحصر ہے کہ مختلف ہونے کی ہمت کرتے ہوئے اپنی حدود سے باہر نکلے۔
یقینی طور پر، زہریلے ماحول ہیں اور ایسے ماحول بھی ہیں جہاں تعمیری تنقید رائج ہے۔ دونوں صورتوں میں، میں ان تمام لوگوں سے کہتا ہوں جن کے ساتھ میں کام کرتا ہوں کہ اگر آپ باس کو غلط سمجھ کر تنقید کا جواب دیتے ہیں تو آپ کبھی نہیں سیکھ پائیں گے۔ اپنے اندر جھانکنے کے لیے تنقید کا سامنا کریں اور دیکھیں کہ آپ میں کہاں کمی ہے اور اسے بہتر بنائیں۔ ایک بری عادت کو تبدیل کرنے کی طرف بڑھیں، یہاں تک کہ ایک منفی رویہ کی اصلاح کریں، یہ ترقی کی سوچ ہے، اسے اپنائیں اور بڑھیں۔
(لکھاری ایک کارپوریٹ کنسلٹنٹ، کوچ اور سابق سی ای او ہیں جن کے پاس قیادت، برانڈز بنانے اور تنظیمی حکمت عملی میں 35 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔ اب وہ کاروباری حکمت عملی، مارکیٹنگ، ہیومن ریسورس اور میڈیا مینجمنٹ پر مشورہ دیتے ہیں)
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News