Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

عمران خان نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا ایجنڈا مرتب کرلیا

Now Reading:

عمران خان نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا ایجنڈا مرتب کرلیا

اگر اعتماد اور دوبارہ ابھرنے کا کوئی مسلمہ معیار ہے تو سابق وزیراعظم عمران خان کو یقین ہے کہ وہ دوبارہ ملک کی قیادت کریں گے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مختارکل کی مقبولیت آئندہ انتخابات میں ان کا بڑا حصہ لینے کے لیے تیار ہے اور وہ ملک کو جمود سے نکالنے کے لیے سیاسی اور معاشی میدانوں میں ایک ایجنڈے کے ساتھ تیار نظر آتے ہیں۔

عمران خان نے اپنی مالیاتی ٹیم کو معاشی بدحالی کو دور کرنے کے لیے ہنگامی منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیم سے کہا ہے کہ اگر ملک میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا جاتا ہے تو وہ نگران سیٹ اپ کی مدد کے لیے بھی تیار رہیں۔

پی ٹی آئی ٹیم نے برآمدات کو فروغ دینے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مقامی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنے میں سہولت فراہم کرنے اور ان کی مدد کرنے کے منصوبے بنائے ہیں۔

عمران خان وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے غیرمجاز وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی معاشی بدانتظامی اور اس کے مہلک اثرات کو اجاگر کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب انہوں نے پاکستان کو ترقی کی پٹڑی پر واپس لانے کا منصوبہ بنا کر اپنی مہم کو ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔

22 نومبر کو کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے معاشی بحران پیدا کیا ہو۔ جب انہوں نے 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو ان کی حکومت کو زبردست معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، جس میں مسلم لیگ (ن) کی شکستہ حکمرانی کی میراث کے طور پر 18 ارب ڈالر سے زیادہ کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی شامل ہے۔

Advertisement

پی ٹی آئی نے اقتصادی کارکردگی اور مستقبل کے چیلنجز کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیاتھا، جس میں سابق وزیر خزانہ شوکت ترین، آپٹیمس کیپٹل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر آصف قریشی، مارکیٹنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایم اے پی) کے صدر اظفر احسن نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

عمران خان نے خطاب میں کہا کہ جب ان کی حکومت نے اپنے مالی معاملات کو درست کیا تو کووڈ 19 وبا دنیا بھر کی معیشتوں کے لیے سب سے بڑا دھچکا بن کر ابھری۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھ پر مقامی محاذ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا دباؤ تھا۔ تاہم، ہم نے جرأت مندانہ اور اختراعی فیصلے کیے اور منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا۔ میں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے حکام کو بھی پروگرام میں کچھ ریلیف فراہم کرنے پر راضی کیا۔

عمران خان کے دعوے مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں ہیں، جیسا کہ ان کی زیرقیادت گزشتہ سال کے دوران پاکستان کی معیشت نے 6 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا تھا۔ برآمدات، بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ، زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبے تیز رفتاری سے ترقی کر رہے تھے۔

عمران خان کے مطابق حکومت کی تبدیلی کے آپریشن کے بارے میں جاننے کے بعد انہوں نے شوکت ترین کو ’غیر جانب دار‘ کو اس طرح کے آپریشن کے نتائج کے بارے میں بتانے کے لیے بھیجا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ موجودہ حکومت کو پٹڑی سے اتارنے کے بعد کوئی بھی معیشت کو کنٹرول نہیں کر سکے گا۔ سیاسی عدم استحکام معیشت پر براہ راست اثر ڈالے گا کیونکہ بین الاقوامی کموڈیٹی سپر سائیکل کی وجہ سے [معاشی] توازن کی صورتحال پہلے ہی نازک تھی۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معاشی اشاریے 1990ء کی دہائی سے قبل برصغیر میں بہت اچھے تھے۔ جب یہ دونوں (بھٹو اور شریف) خاندان اقتدار میں آئے تو ہم نے پیچھے جانا شروع کردیا۔

عمران خان نے اپنے مؤقف کا اعادہ کیا کہ ملک معاشی بدانتظامی، نااہلی، بدعنوانی اور غیر یقینی سیاسی ماحول کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے مالیاتی مسائل پر قابو پانے کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ معیشت سیاسی یقین کا تقاضا کرتی ہے۔ سرمایہ کار صرف اس وقت مالی امداد کریں گے جب وہ ملک میں مستقبل کی صورتحال کا اندازہ لگا سکیں۔ مستقبل میں پاکستان میں کیا ہونے والا ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔

عمران خان نے ملک کی اقتصادی بحالی کے لیے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ نئے انتخابات کے بعد جو بھی حکومت اقتدار میں آئے گی، اسے بے مثال فیصلے کرنے ہوں گے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مقامی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے سہولت فراہم کرنے کے علاوہ ایک لچکدار معیشت کی تعمیر کے لیے برآمدات کو بڑھانے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم 90 ملین میں سے صرف 20 لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مقامی معیشت میں سرمایہ کاری کرنے پر راضی کرلیں تو ملک کے پاس اپنی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی زرمبادلہ کے ذخائر ہوں گے۔

Advertisement

عمران خان نے عہد کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ کاروبار کے تحفظ، برآمدی صنعت میں سرمایہ کاری کو آسان اور حوصلہ افزائی کے لیے قانون کی حکمرانی کا نفاذ کریں گے۔

عمران خان کے مطابق مستقبل میں کسی بھی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان صرف برآمدی صنعت کے لیے کیا جائے گا، جس سے دولت کی پیداوار اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے میں مدد ملے گی۔

ایندھن سے چلنے والی مہنگائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت روس سے تیل درآمد کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ کو روسی تیل کے بارے میں قائل کر لیتے، کیونکہ ہمیں توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔

ملک کی بدحالی کی اصل وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ یہاں مافیا اور کارٹیلز آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ وہ گندم اور چینی جیسی ضروری اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ یہ مافیاز بلیک میل کر رہے ہیں اور اپنی شرائط حکومتوں کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ رئیل اسٹیٹ پاکستان کے سب سے بڑے مافیاز میں سے ایک ہے، کیونکہ یہ سرکاری زمینوں پر قبضہ کرتا ہے، اسے عوام کو فروخت کرتا ہے اور پھر اس سے حاصل ہونے والی رقم کو بیرون ملک منتقل کرتا ہے۔

Advertisement

انہوں نے بتایا کہ نقشے میں زمین کے ریکارڈ کو حدود کے ساتھ ڈیجیٹل شکل میں دکھایا گیا،جس سے معلوم ہوا کہ صرف اسلام آباد میں لینڈ مافیا نے 1اعشاریہ2 ٹریلین روپے کی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے، عمران خان نے مزید کہا کہ ملک بھر میں یکساں صورتحال ہے۔

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تاریخی 20 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر ہے، جب کہ 2018ء میں جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 7 فیصد تھا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دورحکومت میں پاکستان خوراک کی کمی کا شکار ملک بن گیا۔ اس نے ہمیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے رجوع پر مجبور کیا، کیونکہ ہمیں کرنٹ اکاؤنٹ میں موجود خلا کو پر کرنے کے لیے رقوم کی ضرورت تھی۔

شوکت ترین نے ریمارکس دیے کہ آئی ایم ایف کے مطالبے کی تعمیل کرتے ہوئے حکومت کو شرح سود میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی پر مجبور کیا گیا، جس کے نتیجے میں مہنگائی اور قرضوں میں اضافہ ہوا، جب کہ اس سے نمو بھی متاثر ہوئی۔

انہوں نے حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران 6 فیصد کے مقابلے ترقی کی شرح 2 فیصد کے قریب رہنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔

شوکت ترین نے مزید کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ممکن ہے۔ شرح نمو اگر منفی نہ ہوئی تو صفر ہی رہے گی ۔ موجودہ حکومت کے دور میں بجلی کی قیمتیں تقریباً دوگنا مہنگی ہو گئی ہیں، جب کہ روپے کی قدر میں بھی بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے، جس سے عام گھرانوں کی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔

Advertisement

Advertisement

ترسیل اور تقسیم کے نقصانات 10 فیصد سے زائد

آپٹیمس کیپٹل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر آصف علی قریشی نے اپنی پریزنٹیشن کے دوران تخمینہ لگایا کہ  10 فیصد سے زائد ترسیل اور تقسیم کے نقصانات کی مالیت مالی سال 2022ء میں تقریباً 170 ارب روپے تھی، جب کہ گزشتہ مالی سال میں بلوں کی کم وصولی کی مالیت تقریباً 230 ارب روپے تھی۔انہوں نے کہا کہ توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ زیادہ تر آئل ریفائنریز فرنس آئل کی اعلی پیداوار کے ساتھ ہائیڈرو اسکمنگ کی پرانی ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں۔

آصف علی قریشی نے مزید کہا کہ تقریباً 70 فیصد تیل کی نقل و حمل سڑک کے ذریعے کی جاتی ہے، جس سے حفاظتی خطرہ ہوتا ہے اور ایندھن کی زیادہ کھپت ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ تیل کی درآمد کے لیے بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کو بھی اپ گریڈ کیا جانا چاہیے، انہوں نے زمین پر مائع قدرتی گیس (LNG) ٹرمینلز کے ساتھ ساتھ اسٹریٹجک پیٹرولیم ذخائر کی تعمیر کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے توانائی کے نرخوں میں تمام کراس سبسڈیز، انرجی ٹیرف میں ایک کاروبار کے منافع سے دوسرے کاروبار میں رقم کی منتقلی کو ختم کرنے پر زور دیا اور براہ راست یا ٹارگٹڈ سبسڈیز کو نافذ کرنے پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت پاور پلانٹس کے پروجیکٹ قرضوں کی مدت میں توسیع کرے تاکہ اتار چڑھاؤ کو ہموار کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حکومت کی پہنچ کے اندر ہے، کیونکہ 45 فیصد صلاحیت کی ادائیگی کا تعلق عوامی شعبے کے پاور پلانٹس سے ہے۔

Advertisement

پالیسیوں کا تسلسل کامیابی کی کلید ہے

مارکیٹنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر اظفر احسن نے کہا کہ حکومتوں اور پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اور مقامی سرمایہ کاروں کو سیاسی استحکام اور سہارا دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں وزارتوں، ریگولیٹرز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مدد اور سہولت درکار ہے۔

اظفراحسن نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بین الاقوامی اور مقامی سرمایہ کاروں نے ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے، کیونکہ شرح مبادلہ میں اتار چڑھاؤ اور غیر یقینی پالیسیوں کی وجہ سے مجموعی جذبات منفی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم آئندہ سال اگست یا ستمبر کا انتظار نہیں کر سکتے، اگلے چار مہینوں میں الیکشن کروانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معیشت اور مجموعی سرمایہ کاری کے ماحول کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی بھی فوری ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سرمایہ کار اور تاجر برادری خوف میں مبتلا ہے اور غیریقینی کا شکار ہے، جو پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم نے تمام شعبوں میں بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو ہم پیچھے رہ جائیں گے۔

اظفراحسن نے تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک اور اس کے عوام کو مشکلات سے نکالنے کی حکمت عملی پر کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ گیلپ پاکستان کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 65 فیصد مالکان کا خیال ہے کہ ان کے کاروبار شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ سیاسی غیر یقینی صورتحال تاجروں کے لیے بنیادی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ پرامن ماحول کا کاروبار کرنے میں آسانی میں بڑا حصہ ہے۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ سروے میں پاکستان بھر میں نمونے کے طور پر 700 سے زائد کاروباری مالکان اور مینیجرز سے پوچھا گیا کہ ان کے کاروبار کی صورتحال کتنی اچھی ہے۔انہوں نے کہا کہ سروے کے مطابق یہ اچانک تبدیلی اور موجودہ کاروباری صورت حال کے اسکور میں 63 فیصد کمی برسوں سے مسلسل سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔

بلند افراط زر برقرار

Advertisement

پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جمشید اقبال چیمہ نے کہا کہ آئندہ سال پاکستان میں اشیائے خوردونوش کی مہنگائی 25 فیصد کے قریب رہے گی جب کہ باقی دنیا میں یہ 3 فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ رواں برس اکتوبر کے دوران ملک میں خوراک کی افراط زر 36اعشاریہ2 فیصد رہی جب کہ دنیا کے دیگر ممالک میں یہ 10اعشاریہ2 فیصد تھی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے غیر معاون اور معاندانہ رویے کی وجہ سے کاشتکار ان کی اشیاء نہیں خرید سکے، کیونکہ ڈائی امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) کی فروخت میں 41 فیصد، پوٹاش 65 فیصد اور یوریا کی فروخت میں 9 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ڈیزل، جس کی فروخت میں 20 فیصد کمی آئی ۔

انہوں نے وفاقی کمیٹی برائے زراعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کپاس اور چاول کی پیداوار میں 35 فیصد، مونگ کی دال کی 10 فیصد، مکئی کی 3 فیصد اور گنے کی پیداوار میں 9 فیصد کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ زراعت اور ٹرانسپورٹ کے شعبے دونوں ڈیزل کے اعلی ٹیرف سے متاثر ہوئے، جس کا استعمال کسانوں نے 20 فیصد کم کیا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
محسن نقوی قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی کےلئے پریکٹس سیشن میں پہنچ گئے
ایشیاکپ سپر فور مرحلہ: بنگلہ دیش نے سری لنکا کو 4 وکٹوں سے شکست دیدی
میچ سے قبل بھارتی کپتان کا پاکستانی ٹیم سے متعلق ایک اور بیان سامنے آگیا
3 لاکھ 50 ہزار حج درخواست گزاروں کا ڈیٹا ڈارک ویب پر لیک
پاکستان میں کالے جادو پر قید اور بھاری جرمانے کی تجویز، نیا بل سینیٹ میں پیش
آئی اے ای اے نے پاکستان کے سول نیوکلیئر پروگرام کو تسلی بخش قرار دیدیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر