
مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب کے باوجود پاکستان کو پانی کی بدترین قلت کا سامنا ہے۔ پاکستانی دریاؤں کے ہندوستان کے مقابلے میں نشیب میں ہونے کی وجہ سے اس صورتحال کی ایک جیوپولیٹیکل اہمیت ہے۔ پاکستان کے دریاؤں میں 78 فیصد سے زیادہ پانی ہندوستان سے آتا ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق 80 فیصد سے زائد پاکستانیوں کو ہر سال کم از کم ایک ماہ تک پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب کہ یہ ملک اُن 17 ممالک میں 14 ویں نمبر پر ہے جن کا شمار پانی کی انتہائی کمی کے خطرات سے دوچار اقوام میں ہوتا ہے۔
زیر زمین پانی کی خطرناک حد تک گرتی ہوئی سطح نے ملک کے بیش تر حصوں کو خشک کر دیا ہے اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو 2025ء تک پورے ملک کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اس وقت پانی کی طلب 191 ملین ایکڑ فٹ کے مقابلے میں 274 ملین ایکڑ فٹ تک پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔پالیسی ساز، میڈیا اور متعلقہ حکام کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیے گئے اس مسئلے کی کوئی خاص فکر نہیں ہے۔
اس وقت حکومت اور میڈیا کی تمام تر توجہ مالیاتی بحران اور سیاسی عدم استحکام پر ہے۔ جب کہ پانی کے بحران کو، جو سب سے زیادہ دباؤ کا شکار ہے، مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے تسلسل کے باعث ملک میں پانی کے بحران میں اضافہ ہونے کا امکان ہے، کیونکہ گلیشیئر تیزی سے پگھل کر ختم ہو رہے ہیں۔
حکام پاکستان کی مسلسل بڑھتی ہوئی پانی کی طلب پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ زراعت کا شعبہ پہلے ہی پانی کی شدید قلت کا شکار ہے اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت اس قلت میں اضافے کا باعث بنے گا، کیونکہ اس کی وجہ سے نہ صرف بخارات کی شرح میں اضافہ ہوگا بلکہ مٹی کی نمی کی سطح میں بھی کمی واقع ہوگی۔بڑھا ہوا درجہ حرارت تھرمل پاور پروڈکشن کے شعبے کی ترقی کو بھی متاثر کرے گا، جو ملک کی تقریباً 65 فیصد توانائی کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔
تھرمل سیکٹر کا بہت زیادہ انحصار بھاپ کی پیداوار اور اس کے بعد بھاپ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پانی پر ہے۔ اس شعبے کو پیداوار کی سطح برقرار رکھنے کے لیے پانی کی زیادہ مقدار کی ضرورت ہوگی کیوں کہ ہوا کا بڑھا ہوا درجہ حرارت تھرمل تبدیلی کے عمل کی کارکردگی میں نمایاں کمی لائے گا۔
اسی طرح بڑھا ہوا درجہ حرارت بھی پانی کی طلب میں نمایاں اضافے کا باعث بنے گا۔ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والا فوری خطرہ توجہ کا طلب گار ہے اور پاکستان کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ پانی کے ہر قطرے کا استعمال یقینی بنائے۔ آب پاشی والے زرعی شعبے پر خصوصی توجہ کے ساتھ ملک کو پانی کے استعمال کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس کوششیں کرنا ہوں گی۔
کسی بھی قسم کے ضابطہ کار کی عدم موجودگی پاکستان کے پانی کے کمزور انتظام کا باعث ہے اور کسان پانی کے قدرتی بہاؤ کی مدد سے کی جانے والی آب پاشی کے روایتی طریقوں پر عمل پیرا ہیں، جب کہ موجودہ قیمتوں اور وصولی کی شرح کے ساتھ کسانوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی محنت اور دیکھ بھال کے اخراجات کو پورا کرسکیں۔
صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اعلیٰ کارکردگی والے آب پاشی کے نظام اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری مثلاً نہروں کی اپ گریڈیشن اور زمین کی درستگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
پچھلی چند دہائیوں کے دوران، پاکستان پانی کی کثرت سے مالامال ملک سے بہت تیزی سے تبدیل ہو کر پانی کی قلت کا شکار ملک بن چکا ہے۔ عالمی آبادی کے 2 اعشاریہ 8 فیصد کے ساتھ، پاکستان پوری دنیا کے قابل تجدید آبی وسائل کے آدھے فیصد کا حامل ہے۔
ملک کے بڑے شہروں کو پہلے ہی پائپ لائنوں کے ذریعے پانی کی بے ترتیب فراہمی اور زیر زمین پانی کی غیر محفوظ اور گرتی ہوئی سطح کا سامنا تھا۔ صرف 36 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ مزید برآں، عالمی سطح پر 63 فیصد گندا پانی جمع کرلیا جاتا ہے مگرصرف 52 فیصد (مختلف ٹریٹمنٹ پلانٹ سے گزر کر) دوبارہ استعمال کے قابل ہوپاتا ہے جب کہ جمع کیے ہوئے پانی کی بقیہ مقدار اسی طرح سمندر یا دریا میں چھوڑ دی جاتی ہے۔ اور کُل جمع شدہ گندے پانی کا صرف 11 فیصد ہی استعمال ہوپاتا ہے (کیونکہ اسے واپس شہروں میں استعمال کے لیے فراہم کرنے کا نظام ہی نہیں ہے)۔ غیر موثر استعمال اور نہ ہونے کے برابر ری سائیکلنگ پاکستان کے آبی وسائل کے ضیاع کا سبب ہے۔اسی طرح آبادی میں اضافہ اور بڑے پیمانے پر شہرکاری آبی وسائل کی کمی اور فی کس پانی کی دستیابی میں کمی کے سب سے بڑے چیلنج بن چکے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق، 1970ء کی دہائی سے پاکستان کی آبادی میں 2 اعشاریہ 6 گنا اضافہ ہوا ہے، جب کہ بنگلہ دیش کی آبادی میں 1 اعشاریہ 5 گنا اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں آبی وسائل پر دباؤ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اندازوں کے مطابق 2050ء تک پاکستان کی آبادی 53 فیصد بڑھ کر 338 ملین تک پہنچ جائے گی۔ شہروں میں رہنے والی آبادی کا تناسب بھی 2021ء میں 37 اعشاریہ 44 فیصد سے بڑھ کر 2050ء میں 52 اعشاریہ 2 فیصد ہو جائے گا۔ اگر پانی کی انتظام کاری میں بہتری نہ آئی تو آنے والی دہائیوں میں آبی وسائل سے محرومی کا تناسب 100 فیصد سے زیادہ ہو سکتا ہے۔
کراچی میں پانی کی قلت سے سب ہی آگاہ ہیں، چاہے اورنگی ٹاؤن کے نشیبی علاقے ہوں یا ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کا پوش علاقہ۔ ڈی ایچ اے کے بیشتر علاقوں میں پانی نہیں ہے۔
دیگر یوٹیلیٹیز کے علاوہ شہر میں بالخصوص ڈیفنس اور کلفٹن میں پانی بھی مہنگے داموں دستیاب ہے۔ واٹر ٹینکر مافیا نے قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے اور اس مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔
موسمیاتی تبدیلیوں نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کا گلیشیئرز پر بہت زیادہ انحصار پاکستان کو پانی کے سنگین بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت اور افغانستان مزید ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس سے صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔
بین الاقوامی ایڈووکیسی گروپ ’کلائمیٹ ڈپلومیسی‘(جو کہ ایک آزاد تھنک ٹینک اور آب و ہوا کے مسائل پر عوامی پالیسی کا صلاح کار ہے) کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، دریائے سندھ کا نظام گلیشیئرز اور دریاؤں سے پرورش پاتا ہے جو تبت، ہمالیہ، افغانستان کا ہندوکش اور قراقرم کے مغربی صوبے نگاری کے اونچے پہاڑوں سے نکلتا ہیں۔
ماحولیاتی این جی او جرمن واچ کی طرف سے مرتب کردہ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس نے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسم سے متاثرہ آٹھواں سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ملک قرار دیا ہے۔
حالیہ برسوں میں آنے والے سیلاب، خشک سالی اور طوفان، (جن میں ہزاروں افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے اور ذریعہ معاش اور انفراسٹرکچر کے نقصان اور تباہی کا باعث بنے) پاکستان کی کمزوری کی کچھ مثالیں ہیں۔
بلاشبہ، موسمیاتی تبدیلی کے نتائج کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم، منصوبہ بندی اور محتاط انتظام کے ذریعے مروجہ مسائل کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اس کا حل دوسروں پر الزام لگانا نہیں بلکہ بحرانوں سے نمٹنا اور مزید ڈیم بنانا ہے۔
پاکستان کے پاس پانی کے انتظام سے متعلق کئی پالیسی دستاویزات موجود ہیں لیکن وقت کی ضرورت ہے کہ پالیسیوں اور عمل درآمد کے طریقہ کار کے درمیان خلا کو پر کیا جائے۔
حکومت کو فوری طور پر زرعی شعبے میں گندے پانی کا انتظام، اسے قابل استعمال بنانے، برادریوں میں بیداری پیدا کرنے، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر جیسے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔
’’کرہ ارض، ہوا، زمین اور پانی ہمارے آباؤ اجداد کی وراثت نہیں بلکہ ہماری اولاد کا قرض ہیں۔ اس لیے ہمیں انہیں کم از کم اسی حال میں اُن کے حوالے کرنا ہوگا جس حال میں یہ ہمارے حوالے کیے گیے تھے۔‘‘ مہاتما گاندھی
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News