
سونے کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری ہے، ڈالرز کے مارکیٹ سے غائب ہونے اور مہنگائی میں اضافے کے بعد تیزی سے اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ سرمایہ کاروں نے محفوظ پناہ گاہ سمجھے جانے والے اثاثوں کی جانب رخ کرلیا ہے۔
الفا بیٹا کور کے سی ای او خرم شہزاد کا اس بابت کہنا ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر کی عدم دستیابی لوگوں کو اپنے فنڈز کو دوسرے محفوظ اثاثوں جیسے سونے کی شکل میں منتقل کرنے پر مجبور کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ روپے میں گرے یا کالا دھن ڈالر، سونا، رئیل اسٹیٹ اور کاروں کی صورت میں رکھا جاتا ہے۔ ڈالر کی کمی کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ اور کاروں کی مارکیٹ میں معمولی ہلچل ہے اور لوگ اپنے پیسے سونے میں پارک کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بڑی مقدارمیں رقم سمو لینے کے لیے سونے کی کافی مقدار موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت کم لوگ سونے کے بسکٹ خریدتے ہیں، زیادہ تر وہ زیورات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سونا مارکیٹ میں زیرگردش رہتا ہے اس لیے انوینٹری موجود ہے۔
تاہم، سونے کی درآمد معطل ہے اوراگراس اثاثہ کلاس میں پیسہ منتقل ہوتا رہا، تومارکیٹ سے اربوں روپے غائب ہو جائیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں پاکستان میں ڈالر کی بلیک مارکیٹ اس وقت وسیع ہوگئی،جب مرکزی بینک نے غیرملکی زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کو محفوظ رکھنے کے لیے غیر ملکی کرنسی تک رسائی کو محدود کردیا۔ اب بلیک مارکیٹ بھی ڈالر ختم ہو چکے ہیں اور پیسہ اب سونے کی طرف جا رہا ہے جو کہ سب سے زیادہ غیردستاویزی اثاثہ ہے۔
خرم شہزاد نے کہا کہ سرکاری ذرائع کی تصدیق کے ساتھ صرف ماہ دسمبرمیں پاکستان میں سونے کی قیمتیں ریکارڈ بلندیوں کو چھو گئیں،جو صرف تین ہفتوں میں تقریباً 20 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔جب کہ اس دورانیے میں سونے کی بین الاقوامی قیمتوں میں ایک فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سونے کے نرخ 7 دسمبر کو 1لاکھ65 ہزار روپے فی تولہ سے بڑھ کر 21 دسمبرکو 1لاکھ83ہزارروپے فی تولہ ہو گئے، جو کہ صرف پندرہ روز میں 11 فیصد اضافہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ لاٹ بھی بھرا ہوا ہے اور یہاں فنڈز زیادہ دیرتک نہیں رکھے جا سکتے۔ ڈالر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سونا بھی مارکیٹ سے غائب ہوگیا ہے۔
کراچی صرافہ ایسوسی ایشن کے چیئرمین حاجی ہارون چاند کا کہنا ہے کہ سونا نہ ہونے کی وجہ سے اربوں روپے کی مارکیٹ بند ہو رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سونے کی درآمد پرمکمل پابندی ہے۔ ہماری دکانیں اب خالی ہیں۔
سونے کے زیورات کے حقیقی خریداروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے حاجی ہارون چاند نے کہا کہ لوگوں کے پاس سونا خریدنے کی اتنی استطاعت نہیں رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو سونے کے زیورات خرید رہے ہیں لیکن اکثریت اب نقلی زیورات کی خریداری کررہی ہے۔ ان دنوں صرف سرمایہ کارہی سونا خرید رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بین الاقوامی بلین مارکیٹ میں زیادہ اتارچڑھاؤ نہیں آیا ہے۔ تاہم، اس وقت بین الاقوامی منڈی غیرمتعلقہ ہوچکی ہے۔
خرم شہزاد کے مطابق طلائی دھات صرف مہنگائی اور کرنسی کی گرتی ہوئی قدر کے خلاف رکاوٹ نہیں ہے بلکہ پاکستانی روپے میں پیسے کی محفوظ پناہ گاہ بھی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مقامی سطح پرسونے کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا، جونہ صرف مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر بلکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں میں اضافے کے رجحان کی وجہ سے بھی ہوگا۔
برطانوی ملٹی نیشنل اثاثہ جات کی انتظامی کمپنی شروڈرز نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اصل کہانی روس اوریوکرین جنگ سے قبل خاص طور پر شمالی امریکہ اور یورپ سے سونے کی نجی سرمایہ کاری کی مانگ میں نمایاں تبدیلی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ اضافہ جاری رہے گا۔ اس لیے اب ہمارے پاس ایسے منظرنامے کا بہت زیادہ امکان ہے، جس میں آپ کے پاس سونے کی پرائیویٹ اور پبلک (مرکزی بینک) دونوں کی مضبوط مانگ ہو۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ نجی شعبے کی جانب سے گولڈ مارکیٹ میں سب سے زیادہ بڑی تبدیلیاں امریکی فیڈرل ریزرو کے ہائیکنگ سائیکل کے حوالے سے بڑی غیر یقینی صورتحال سے متعلق ہوں گی، کیونکہ معاشی ترقی یا مالیاتی منڈیوں میں غیرارادی نتائج کے خطرات ہیں۔
زیب النساء اسٹریٹ کے ایک سنار محمد عابد نے بتایا کہ زیورات اور سلاخوں کی خرید و فروخت کم سے کم ہوتی جارہی ہےاور تاجروں نے کاروبار کی لائن تبدیل کرنا شروع کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں سونا زیورات کے ساتھ ساتھ تجارت کے لیے بھی درآمد کیا جاتا ہے۔ وہ درآمد مکمل طور پر بند ہو گئی ہے، جب کہ تاجروں اور جیولرز نے پہلے ہی دستیاب انوینٹری کو نمٹا دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی خریدارمہینوں پہلے غائب ہو چکے ہیں اور صرف سرمایہ کار سونا خرید رہے ہیں اورذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں۔ اب، ہم صرف اپنے کاروبار کو ختم کررہے ہیں. دکانوں کے شیلف اور والٹ دوبارہ نہیں بھر رہے ہیں۔
محمد عابد کے مطابق یہ سب ڈالر کی کمی کی وجہ سے ہوا،جس کی وجہ سے حکومت نے زیادہ تردرآمدات پر پابندی عائد کردی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی سطح پرسونے کی قیمت میں اضافے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن پاکستان میں اجناس کی قیمت زیادہ ہو رہی ہے، کیونکہ سرمایہ کار ایسے اثاثے کی جانب رخ کررہے ہیں، جو کہ ابھی تک غیردستاویزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بڑھتی ہوئی مانگ کے ساتھ تاجر اجناس کو ذخیرہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، ایسا ہی اس معاملے میں بھی ہوا ہے۔
آل سندھ صراف اینڈ جیولرزایسوسی ایشن (اے ایس ایس جے اے) کے رکن عبداللہ عبدالرزاق نے کہا کہ اتنی مانگ نہیں تھی، جتنی کہ دکھائی گئی ہے اور تاجر اور جیولرز سونے کی ذخیرہ اندوزی کررہے ہیں۔ انہوں نے سونے کے زیورات اور بلین مارکیٹ کے تاجروں کو بھی خبردار کیا کہ وہ اپنی سمت درست کریں۔
انہوں نے کہا کہ قیمتوں میں اضافہ مارکیٹ میں خالص سونے کی کمی کی وجہ سے ہے۔ بڑے گروپ اچھے منافع کے لیے کالے دھن کو سونے میں لگا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قیاس آرائیوں کی وجہ سے آج سونے کی قیمتیں اس مقام تک پہنچی ہیں۔ مثالی طور پر ڈالر کی شرح کے مطابق پاکستان میں سونے کی قیمت 1لاکھ52ہزارروپے فی تولہ ہونی چاہیے۔ عبداللہ عبدالرزاق نے نرخوں کو کنٹرول کرنے والے ‘گروپوں’ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
خیال رہے کہ مالی سال 2023ء کے لیے آئی ایم ایف کے عملے کی آخری شائع شدہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فنڈنگ کا فرق(بیرونی قرضوں کی ادائیگی پلس کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ) اب 31 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ مالی سال 2019ء میں یہ فرق 25 ارب ڈالر تھا اورمالی سال 2008ء کے مالیاتی بحران کے دوران 10 سے 17 ارب ڈالر کی حد میں تھا۔
آئی ایم ایف (سالانہ رول اوورسمیت) کے مطابق پاکستان کی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داریاں تین برسوں (مالیاتی سال 2023ء سے 2025ء) میں 73 ارب ڈالرز ہیں۔ یہ بڑے بیرونی قرضوں (بیرونی قرضوں اور واجبات) کی وجہ سے ہے جو مالی سال 2015ء میں 65 ارب ڈالر(جی ڈی پی کا 24 فیصد) سے مالی سال 2022ء میں 130 ارب ڈالر (جی ڈی پی کا 40 فیصد) ہوگیا یعنی سات سال میں دوگنا ہو گئے۔
اس سے ان خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ اگر پاکستان کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بھی اس کی ادائیگی کی ذمہ داریاں اتنی زیادہ ہیں کہ قرضوں کی تنظیم نو ناگزیر ہے۔ فنڈنگ گیپ کے خلاف دستیاب فنانسنگ مشکل ہو سکتی ہے، خاص طور پر مروجہ عالمی اقتصادی ماحول میں، جہاں نئے تجارتی قرضوں اور یورو بانڈ کو بڑھانا مشکل ہے۔
پاکستان کو اپنے دوطرفہ قرض دہندگان کے ساتھ قرضوں کی تنظیم نو کرنی ہوگی، خاص طور پر چین کے ساتھ جو اس کے بیرونی قرضوں کا 30 فیصد سے زیادہ بنتا ہے۔
یہاں تک کہ اگرقرضوں کی تنظیم نوکا عمل سیاسی وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہو جائے تو بھی آئی ایم ایف کے بہت بڑے پروگرام (10 سے 20 ارب ڈالر) کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، کیونکہ جاری تین سالہ توسیعی فنڈ سہولت (EFF) پروگرام مئی 2023ء تک مکمل ہونا ہے۔ پاکستان کی معیشت پر اس کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے پاکستانی روپیہ شدید دباؤ کا شکار ہے، کیونکہ یہ 2022ء میں اب تک ڈالر کے مقابلے میں 22 فیصد کمزور ہوکر 225 روپے پر آگیا ہے۔
مزید برآں، حال ہی میں انٹربینک اوربلیک مارکیٹ کے درمیان پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہوا ہے، کیونکہ بلیک مارکیٹ میں روپیہ 240 سے 250 روپے کے قریب ٹریڈ کررہا ہے جبکہ انٹربینک مارکیٹ میں 225 روپے ہے۔
افراط زر کی شرح بھی بلند رہنے کا امکان ہے، کیونکہ تجزیہ کاروں کو مالی سال 2023ء میں اوسطاً 26 فیصد اور مالی سال 2024ء میں 14 فیصد کی اوسط مہنگائی کی توقع ہے۔ مہنگائی کے بلند تخمینے کی وجہ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی، پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی اور سیلز ٹیکس کے ذریعے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں متوقع ایڈجسٹمنٹ اورمالی سال 2023ءمیں گیس کی قیمتوں میں متوقع اضافہ ہے۔
اس کے نتیجے میں شرح سود بھی بلند رہنے کی توقع ہے۔ اجناس کی عالمی قیمتوں کا جائزہ پاکستان کی مجموعی افراط زر اور بیرونی کھاتوں کی صورت حال کے لیے کلیدی رہے گا، کیونکہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کسی بھی تیزی سے کمی ان محاذوں پر دباؤ کو کم کرسکتی ہے۔
خرم شہزاد کے مطابق تیل کی قیمتیں نیچے آ رہی ہیں اوراس سے مہنگائی کی شرح پربھی اثرپڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ مالی سال 2023ء کی آخری سہ ماہی تک عالمی افراط زرمیں بھی کمی آنے کا امکان ہے اور یہی صورتحال پاکستان میں بھی ہوگی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News