
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے سپریم کورٹ اور پاکستان کی ہائی کورٹس میں قانونی چارہ جوئی میں پھنسے ہوئے پاکستان کسٹمز کے 897 ارب روپے کی واپسی کے لیے ایک کوشش کا آغاز کردیا ہے۔ایف بی آر کی ممبر لیگل زیبا حئی نے تمام چیف کلکٹرز آف کسٹمز کو لکھے گئے خط میں مختلف عدالتوں اور قانونی فورمز پر کیسز کی عمر بڑھنے سے متعلق معلومات طلب کی ہیں ۔مرتب کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہےکہ 897 ارب روپے کے 20 ہزار 142 مقدمات صرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں التوا کا شکار ہیں۔ یہ مقدمات 10 سے 12 سال سے زیر التوا ہیں۔
اگر یہ رقم برآمد ہو جائے تو ملک کا مالیاتی نظام کافی حد تک ہموار ہو سکتا ہے۔ایف بی آر کے رکن نے اس معلومات کی تالیف میں تاخیر پر برہمی کا اظہار بھی کیا ہے ۔ایک اہلکار نے بتایا کہ حئی نے سیکرٹری لیگل عرفان جاوید اور ایڈیشنل سیکرٹری ڈاکٹر نعمان کی نگرانی میں دو کمیٹیاں تشکیل دی ہیں تاکہ بازیابی کے لیے مقدمات کا تجزیہ اور ترجیح دی جا سکے۔
اہل کار نے مزید کہا کہ سستی معاشی سرگرمی اور دبی ہوئی درآمدات کی وجہ سے ایف بی آر کے اپنے اہداف کو پورا کرنے کا امکان نہیں تھا۔لہذا، اب توجہ مرکوز آمدنی پر ہے۔ ذرائع نے ریونیو سے متعلق معاملات کے جام ہونے کی بنیادی وجہ معیاری وسائل کی کمی کو قرار دیا ہے ۔ذرائع سے مزید پتہ چلا ہےکہ قانونی چارہ جوئی کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھانے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ایف بی آر وکلاء کی خدمات حاصل کرتا ہے، جن کی تنخواہیں کم ہیں جبکہ مدعا علیہان، خاص طور پر عادی مجرم، سب سے مہنگی قانونی فرموں کے حامل ہیں۔پراسیکیوٹرز کی جانب سے جان بوجھ کر استغاثہ کو کمزور کرنے کی مثالیں ہو سکتی ہیں۔
ایف بی آر کی نئی ٹیم ملک کی اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑھتے ہوئی قانونی چارہ جوئی کو ختم کرنے اور ٹیکس ریونیو میں اضافے کے لیے تنازعات کے حل کا طریقہ کار وضع کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔عہدیدار نے بتایا کہ ایف بی آر کے قانونی چارہ جوئی کے آڈٹ کی ضرورت تھی تاکہ کیسز کی بہتات کو مدنظر رکھا جائے۔ایک ٹیکس ماہر نے تجویز پیش کی ہے کہ ایف بی آر کو مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے ایک موثر حکمت عملی تیار کرنی چاہیے، جہاں عدالتوں نے6ماہ سے زائد عرصے کا اسٹے دیا ہو۔اس کے ساتھ ہی آئین کے آرٹیکل 186 کا استعمال کرتے ہوئے ، اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات کے جلد از جلد نمٹانے کے لیے درخواست دی جائے ۔
آئین کے آرٹیکل 186 (مشاورتی دائرہ اختیار) کے تحت، اگر، کسی بھی وقت، صدر یہ سمجھتا ہے کہ قانون کے کسی بھی سوال پر سپریم کورٹ کی رائے حاصل کرنا ضروری ہے،جسے وہ عوامی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں، وہ اس سوال پرغور وفکر کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔سپریم کورٹ اس سوال پر غور کرے گی اور اپنی رائے سے صدر کو آگاہ کرے گی ۔ایک سرکاری دستاویز کے مطابق سپریم کورٹ میں کل 4 ہزار 341 مقدمات زیر التوا ہیں، جس میں 82 اعشاریہ 52 ارب روپے ٹیکس ریونیو شامل ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کسٹمز کے ایک ہزار 420 کیسز زیر التوا ہیں، جن میں 234 ارب روپے کے ریونیو کلیمز بھی شامل ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں7 ہزار 658کیسز زیر التوا ہیں، جن میں320 اعشاریہ 8 ارب روپے کے دعوے شامل ہیں۔ اسی طرح 243 ارب روپے کا ممکنہ ریونیو بھی لاہور ہائی کورٹ میں 5 ہزار 679کیسز کے زیر التوا ہونے کی وجہ سے رکا ہوا ہے ۔ جب کہ پشاور ہائی کورٹ میں 901 مقدمات میں 8 اعشاریہ 9 ارب روپے کے ریونیو کلیمز زیر التواء ہیں،اور بلوچستان ہائی کورٹ میں زیر التوا 79 مقدمات میں 772 ملین روپے پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ ملک 75 سالہ تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ایک رپورٹ میں ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے مشورہ دیا ہے کہ بیرونی فنانسنگ کا بڑا فرق، بگڑتی ہوئی عالمی مالیاتی منڈیوں کی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام سے بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگی کے خدشات میں اضافہ ہورہا ہے۔مزید کہا گیا کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور بیرونی فنڈنگ کا بڑھتا ہوا فرق تشویشناک ہے ،جس کی وجہ سے مارکیٹ کے شرکاء ( وہ خریدار اور فروخت کرنے والے جو کسی اثاثہ یا ذمہ داری کے لیے مارکیٹ میں کاروبار کرتے ہیں)میں تشویش پائی جاتی ہے۔پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو حال ہی میں موڈیزاور فچ نے بالترتیب سی اے اے 1 اور سی سی سی پلس کردیا تھا۔ اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا ہےکہ قرضوں کی تنظیم نو کی صورت میں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مزید کم ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان کی بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی صلاحیت کا خطرہ بھی مزید بڑھ جائے گا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News