Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ابھی خریدیں، ادائیگی بعد میں کریں

Now Reading:

ابھی خریدیں، ادائیگی بعد میں کریں

کال پے سروس کے شریک بانی اور چیف آپریٹنگ آفس ولید امجد اسلام کا کہنا ہےکہ ’دی بائے ناؤ، پے لیٹر‘ طرز کی شاپنگ کا ماڈیول تاجروں اور برانڈز کے آرڈرز میں اضافہ کرنے میں طویل وقت لگے گا ،جب کہ ابتدائی مرحلے میں پیشہ ور افراد اور طلباء کو خریداری کی ادائیگیوں کو تقسیم کرنے میں سہولت فراہم کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے برانڈ کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان کی زیادہ تر بینکوں سے محروم اور ایسی آبادی کو سہولت فراہم کرنا ہے جن کے اکاؤنٹس بینکوں میں نہیں ، کیونکہ انہیں کریڈٹ اور قرضوں کی فراہمی کےلیے بینکوں سے کریڈٹ کارڈ حاصل کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

’ دی بائے ناؤ، پے لیٹر‘ صارفین کے درمیان ایک ناقابل یقین حد تک مقبول آپشن بن چکا ہے، جس کے ذریعے وہ ایک محفوظ اور بغیر کسی رکاوٹ کے ادائیگی کے تجربے سے گذرتے ہیں اور لچکدار اور بلاسود ادائیگیوں کے ذریعے اس تاجر سے سامان حاصل کرتے ہیں جو ’دی بائے ناؤ، پے لیٹر‘ کا طریقہ استعمال کرتے ہیں ۔کال پے سروس کے شریک بانی اور چیف آپریٹنگ آفس ولید امجد اسلام کے ساھ کی جانے والی گفتگو قارئین کےلیے پیش کی جارہی ہے ۔

سوال: ہمیں اپنے پیشہ ورانہ پس منظر، کامیابیوں اور تحریک کے بارے میں کچھ بتائیں؟

جواب: میں نے اکاؤنٹنگ اور فنانس میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے گریجویشن کیا۔اپنی گریجویشن مکمل کرنے کے بعد، میں نے کچھ مہینوں کے لیے ایک بزنس انٹیلی جنس تجزیہ کار کے طور پر زمین ڈاٹ کام میں شمولیت اختیار کی ۔اسی دوران میں اپنے شریک بانی کے ساتھ کال پے سروس اور بوٹسٹریپنگ کے آئیڈیا پر کام شروع کردیا تھا۔اس کا خیال اُس پروجیکٹ سے ملا جس پر میرے شریک بانی شیرشاہ حسن لمس میں اپنے آخری سال کے دوران کام کر رہے تھے۔میں نے ان کے ساتھ مل کر ’دی بائے ناؤ، پے لیٹر‘ کے آئیڈیئے پر کام شروع کیا۔ اس وقت وہ فِن ٹیک کورس میں تھے۔

Advertisement

اس سے پہلے میں پہلے سعودی عرب میں مقیم تھا اور میں نے وہاں یہاں کے مقابلے میں ہموار بینکنگ آپریشنز دیکھ رکھے تھے۔ہم نے ایسے بہت سے لوگوں کا مشاہدہ کیا جو کریڈٹ کارڈ حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن پیچیدہ بینکنگ آپریشنز کی وجہ سے حاصل نہیں کر سکے۔

کال پے سروس کی ٹارگٹ آڈینس ابتدائی کیریئر کے افراد اور طلباء ہیں جو کریڈٹ اور قرضوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن انہیں حاصل کرنے کا طریقہ نہیں جانتے ۔

سوال: یہ بتائیے کہ کال پے کے پیچھے وژن کیا تھا؟

جواب:کال پے کا وژن بینکوں سے محروم اورایسے لوگوں کےلیے قرض کی رسائی کو آسان بنانا تھا جن کی بینکوں تک پہنچ نہیں ، ہم اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہر کسی کو ہمارے پلیٹ فارم کے ذریعے سہولت تک آسان رسائی حاصل ہو۔ہم دونوں حال ہی میں فارغ التحصیل تھے اور اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کے ابتدائی دنوں کے دوران، ہم نے خود کریڈٹ کارڈ حاصل کرنے میں بہت زیادہ چیلنجز کا سامنا کیا۔

کال پے کی بنیاد ، ملک میں کریڈٹ کارڈز تک رسائی کی کمی کی وجہ سے ڈالی گئی ۔ملک کی تقریباً 22 کروڑ آبادی میں سے صرف ایک اعشاریہ ملین لوگوں کو کریڈٹ کارڈ تک رسائی حاصل ہے، جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

بینکوں سے کریڈٹ کارڈز اور قرضوں کا حصول ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل ہے، جس میں لوگوں سے مختلف دستاویزات جمع کرانے کو کہا جاتا ہے، جو ان میں سے اکثر کے پاس نہیں ہوتے، کیونکہ پاکستان بنیادی طور پر نقدی پر مبنی معیشت ہے۔

Advertisement

سوال: یہ بتائیے کہ کال پے کیسے کام کرتا ہے؟

جواب: ہم نے کال پے کو ان کے آن لائن ای کامرس اسٹورز سے مربوط کرکے برانڈز اور تاجروں کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔ کال پے کو استعمال کرنے والے ، صارفین کے چیک آؤٹ پیج پر ادائیگی کے آپشن کو دیکھ سکتے ہیں ۔جب کوئی صارف آن لائن ا سٹور سے کچھ بھی خریدتا ہے اور کال پےکو ادائیگی کے آپشن کے طور پر منتخب کرتا ہے، تو یہ اسے سائن اپ کے عمل کے ذریعے لے جاتا ہے اور 5 ہزار روپے بطور ڈاؤن پیمنٹ ادا کر کے آرڈر دے دیتا ہے۔ ابتدائی طور پر پہلی قسط ادا کرنے کے بعد، صارف کو بقیہ رقم کو مزید دو قسطوں میں تقسیم کرنے کی سہولت حاصل ہوگی، کیونکہ اسے پہلی قسط ایک ماہ کے بعد ادا کرنے کے لیے کہا جائے گا اور آخری قسط پچھلی قسط ادا کرنے کے ایک ماہ بعد ادا کی جائے گی۔ اس پلیٹ فارم کی خوبصورتی یہ ہے کہ کال پے کے ذریعے لین دین پر صارفین سے کوئی اضافی، پوشیدہ چارجز یا سود وصول نہیں کیا جائے گا۔

سوال : یہ بتائیے کہ اپنا برانڈ قائم کرنے میں آپ کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟

جواب: سب سے اہم مسئلہ تعلیم میں کمی اور مارکیٹ سے آگہی کا نظر آتا ہے۔ ہم نے اس محاذ پر بہت محنت کی اور مسلسل اس پر کام کر رہے ہیں۔ہمیں لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم بینکوں اور کریڈٹ کارڈز سے کس طرح مختلف ہیں؟ اور ہم اپنی سروس کے ذریعے ان کے لیے کس طرح فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں ؟ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم محض اپنی خدمات میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔عوام کو اس بارے میں بھی آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ صارفین کے لیے کال پے کی خدمات مفت ہیں، اس لیے انہیں اس کے ذریعے زیادہ رقم خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کال پے کے ذریعے ضرورت سے زیادہ کریڈٹ لینے کی صورت میں وہ اپنے اوپر مالی بوجھ ڈالیں گے اور انہیں اپنی واجب الادا رقم کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا پڑے گا۔

سوال: تاخیر سےادائیگی کے معاملے میں کال پے اور بینکوں کے کریڈٹ کارڈز میں کیا فرق ہے؟

جواب: ہم مجموعی طور پر شریعت کے مطابق ایسی کمپنی ہیں جو شرح سود پر ادائیگیوں کا حساب نہیں لگاتی۔تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں، ہم ایک مقررہ رقم لیٹ فیس کے طور پر وصول کرتے ہیں، جو تمام ادائیگیوں کے لیے یکساں ہے۔ کال پے کراچی انٹر بینک آفر ریٹس سے منسلک نہیں ہے۔یہ ایک سود سے پاک سروس ہے، جو اسے بینکوں کے کریڈٹ کارڈز سے بالکل مختلف بناتی ہے۔ کال پے کے ساتھ خریداری بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی دوسرے کریڈٹ کارڈ سے خریداری کریں اور یہ خریداری نہایت آسان اور شریعت کے عین مطابق ہے۔

Advertisement

سوال: کیا آپ نے وہ سب کچھ حاصل کیا جو آپ چاہتے ہیں؟ یہ بھی بتائیے کہ آپ کے مستقبل کے منصوبے کیا ہیں؟

جواب: ہم تیزی سے کام کر رہے ہیں، ہر روز اپنے اہداف کی طرف کام کر رہے ہیں، جب کہ اتنی بڑی مارکیٹ میں بہت سے مواقع موجود ہیں۔مستقبل کے لیے، ہم نے متعدد پائلٹ پروجیکٹس کی جانچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ہم اس کام کو کس طرح چلا سکتے ہیں ؟ہم مالیاتی صارفین کے قرضے کے دائرے میں متعدد مرحلوں میں توسیع کرنا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں ہم جو کام کر رہے ہیں ان میں سے ایک کال پے موبائل کے نام سے موبائل فون فنانسنگ بھی ہے۔اس میں ہم کریڈٹ کی طویل مدت دیتے ہیں اور صارفین سے اپنی خدمات کے لیے فیس بھی وصول کریں گے ۔ہم نے کال پے میں اس بات کو ایک مثال بنایا ہےکہ ہم جلد بازی میں ترقی کی طرف نہیں جائیں گے بلکہ بتدریج ایک پائیدار طریقے سے ترقی کی جانب سفر کریں گے ۔ ہم اپنی حدود اور مستقبل کے منصوبوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں اور اسی کے مطابق ترقی کی حکمت عملیوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔

سوال:کال پےاپنی شریعت کے مطابق خدمات میں آمدنی کیسے پیدا کرتی ہے؟

جواب: شریعت کے مطابق’دی بائے ناؤ، پے لیٹر‘ سروس فراہم کرنے کے ناطے کال پے کے ذریعے ہونے والے ہر لین دین میں ایک خاص فیصد چارج کرکے تاجروں سے اپنی آمدنی حاصل کرتا ہے۔لیکن تاخیر سے ادائیگی کی فیس کال پے چارجز ریونیو میں شامل نہیں ، کیونکہ جمع کی گئی تمام فیس کسی خیراتی ادارے کو عطیہ کی جاتی ہے یا کسی سماجی کام کےلیے استعمال ہوتی ہے۔

سوال: پاکستان میں فن ٹیکس کی ناکامی کی بلند شرح کی وجوہات اور چیلنجز کیا ہیں؟

Advertisement

جواب: ہمیں تعلیم اور شعور کی کمی جیسے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے فِن ٹیک کی ناکامی میں بھی یہی دو عوامل کارفرما رہے۔دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل کی رسائی بھی بہت کم ہے، جہاں کے عوام موجودہ ڈیجیٹل معیشت کے حوالے سے بہت کم معلومات رکھتے ہیں ۔

فن ٹیک سیکٹر سے وابستہ سروسز بڑے میٹروپولیٹن شہروں میں کافی ترقی کر رہی ہیں کیونکہ زیادہ تر لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ یہ چیزیں کیسے کام کرتی ہیں؟ تاہم، کم رسائی اور دیگر علاقوں اور خطوں میں شعور کا فقدان پاکستان میں فنٹیکس کے لیے بڑی تشویش کا باعث ہے۔

ماحولیاتی نظام میں آنے والے فن ٹیکس کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ کسی خاص مسئلے کو حل کرتے ہیں۔اگرچہ مختلف اسٹارٹ اپس ہیں، جو ادائیگی کے حل فراہم کررہے ہیں، ایسے اسٹارٹ اپس کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے، جو دیگر مالیاتی حل فراہم کرتے ہیں۔اس لیے ہمیں ماحولیاتی نظام کی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔

اس شعبے کے شرکاء کو کامیابی کی بلندی تک پہنچنے میں ایک دوسرے کی مدد کے لیے شانہ بشانہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔معیشت کا سائز جتنا بڑا ہوگا تو ہر ایک کو منصفانہ حصہ ملنے کا امکان ہوتا ہے۔

سوال: یہ بتائیے کہ اسٹارٹ اپس کی کامیابی میں انکیوبیٹرز اور ایکسلریٹر کتنے اہم ہیں؟

جواب: مقامی انکیوبیٹرز اسٹارٹ اپس کے بانی کو اپنے برانڈز اور اسٹارٹ اپس کو ترتیب دینے کا طریقہ سکھانے میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔یہ ادارے آپ کو سرپرستوں کے ساتھ جوڑتے ہیں، آپ کی پچز تیار کرنے، مارکیٹ کی حکمت عملیوں اور مصنوعات کی مارکیٹنگ میں آپ کی مدد کرتے ہیں۔

Advertisement

اگرچہ یونیورسٹی کے طلباء یا گریجویٹ جو پہلے ہی تربیت سے گزر چکے ہیں یا انٹرپرینیورشپ کے بارے میں پڑھ چکے ہیں ان کو لازمی طور پر انکیوبیشن سینٹرز کی ضرورت نہیں ہے، لیکن وہ لوگ جن کے پاس اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کا بنیادی علم نہیں ہے وہ ان اداروں سے کافی تجربہ اور مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔

مجموعی طور پر، یہ کمیونٹی سینٹرز نئے بانیوں اور کاروباری افراد کو اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کے ابتدائی مراحل میں درپیش چیلنجوں پر قابو پانے میں مدد کرتے ہیں۔ہمیں ایک ایسا ماحول بنانے کے لیے ان اداروں کو فروغ دینے اور ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے، جو سٹارٹ اپ ایکو سسٹم کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرے گا۔

سوال: آپ پاکستان کے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: چند بڑی اسٹارٹ اپ ناکامیوں کے باوجود، ماحولیاتی نظام بڑھ رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس رفتار کو برقرار رکھے گا۔مختلف اسٹارٹ اپس کی ناکامی ایکو سسٹم کے عمل کا حصہ ہے، کیونکہ کچھ اسٹارٹ اپس کی ناکامی ان کے وقت سے پہلے ہونے کا نتیجہ تھی۔ماحولیاتی نظام میں ترقی سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ ماحولیاتی نظام میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے خیالات کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ واضح ہے کہ ماحولیاتی نظام بڑے بہتر انداز میں اپنی راہ پر گامزن ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کرے گا۔پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں سے ایک ہے اور اتنی بڑی تعداد کے مطابق عوام کو مختلف مسائل کا سامنا ہے اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سٹارٹ اپس آئیں گے جس کے نتیجے میں ماحولیاتی نظام کی بتدریج ترقی ہوگی۔5 سال پہلے ملک میں چند اسٹارٹ اپس تھے لیکن پچھلے چند سالوں کے دوران اس رجحان میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، جہاں ہم مختلف شعبوں میں مختلف اسٹارٹ اپس کو دیکھتے ہیں جو بڑھ رہے ہیں اور فنڈز اکٹھا کررہے ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
مسئلہ کشمیر کے بغیر بھارت سے کوئی بات نہیں ہوسکتی، وزیراعظم
بابا گرونانک کی 486 ویں برسی، پہلے روز دنیا بھر سے 2 ہزار یاتری کرتارپور پہنچے
ایشیا کپ 2025 : فائنل سے قبل بڑا فائنل ، اینڈی پائی کرافٹ میچ ریفری ، پاک بھارت ٹاکرا آج
تنازعات عالمی امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں،شہبازشریف، عالمی یوم امن پر پیغام
محسن نقوی قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی کےلئے پریکٹس سیشن میں پہنچ گئے
ایشیاکپ سپر فور مرحلہ: بنگلہ دیش نے سری لنکا کو 4 وکٹوں سے شکست دیدی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر