Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

چھوٹے کاروباروں میں مشکلات پرقابو پانے کے لیے تیاری اورطریقہ کار کا فقدان

Now Reading:

چھوٹے کاروباروں میں مشکلات پرقابو پانے کے لیے تیاری اورطریقہ کار کا فقدان

Advertisement

اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (ایس ایم ایز) ملک کی ابتر سیاسی اور اقتصادی صورتحال کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ متعدد چھوٹے کاروباری اداروں کو ایک خاص حد تک نقصانات کے ساتھ مختلف مسائل کا سامنا ہے، جس میں طلب میں کمی، سپلائی چین میں خلل، برآمدی آرڈرز کی منسوخی اور نقل و حمل کی زیادہ لاگت شامل ہے۔

سیلاب نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کو بری طرح متاثر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل، چمڑے، خوراک اور زراعت میں اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز مینوفیکچرنگ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔سیلاب نے ان کے فزیکل انفراسٹرکچر اور مصنوعات کے ذخیرے کو نقصان پہنچایا ہے اور بجلی اور گیس کی فراہمی تک ان کی رسائی میں خلل ڈالا ہے، جس سے کارکنوں کی دستیابی بھی متاثر ہوئی ہے۔

بدقسمتی سے ان میں سے بہت سے کاروبار ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے نہ تو تیار ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی طریقہ کار ہے۔ لہذا،وہ اس مشکل دور میں زندہ رہنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے متعدد پالیسی سفارشات کے باوجود مجموعی منظرنامہ ابھی بھی تاریک ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کی پالیسی سفارشات چھوٹے کاروباروں کو بحرانوں سے نمٹنے میں مدد دینے کے لیے ناکافی ہیں لیکن یہ اقدامات انہیں کسی حد تک طوفان سے نمٹنے میں مدد فراہم کریں گے۔

آمدنی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے والی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہونے کے ناطے چھوٹے کاروباروں کو بھی وسائل کا موثر استعمال کرنا چاہیے اور ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، جیسا کہ بڑے ادارے کرتے ہیں۔

اندازوں کے مطابق یہ کاروبار تخمینہ شدہ 3اعشاریہ2 ملین کاروباری اداروں کے 90 فیصد سے زائد ہیں اور جی ڈی پی میں 40 فیصد کے قریب حصہ ڈالتے ہیں اوران کی 40 فیصد سے زیادہ برآمدی آمدنی ہے۔

Advertisement

یہ کاروبار پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور زراعت، مینوفیکچرنگ، ریٹیل، ہول سیل، تجارت اور خدمات کے شعبوں کے ایک اہم حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ نتیجتاً، یہ جی ڈی پی اور برآمدی آمدنی دونوں لاتے ہیں اور ملک کے ٹیکس پول میں حصہ ڈالتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین نے کہا کہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کا حصہ کم ہو رہا ہے، جس کی وجہ ان کا غیر رسمی شعبے کو ترجیح دینا ہے، جو ٹیکس کی ادائیگی سے گریز کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کو قرض دینے کے روایتی طریقے وقت طلب اور مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹرعنات حسین کے مطابق رواں برس اگست کے آخر میں نجی شعبے کے کاروباروں کے واجب الادا قرضے 7اعشاریہ1 ٹریلین روپے تھے، جو کل رقم کا صرف 7اعشاریہ96 فیصد ہیں۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ ہم صرف ٹیکنالوجی کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

Advertisement

یونیسیم کے صدر ذوالفقار تھاور نے کہا کہ ایس ایم ایز غربت کے خاتمے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے تبصرہ کیا کہ ایس ایم ایز کاشتکاروں کی مساوی تعداد کے باوجود اکثریتی شعبہ ہے، جو ترقی اور معیشت کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے،لیکن پھر بھی اس پر حکومت کی توجہ کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایس ایم ایز برآمدات میں 30 فیصد حصہ ڈالتے ہیں اور ان میں سے بہت سے ویلیو ایڈیشن میں شامل ہیں۔ وہ جی ڈی پی میں 35 فیصد حصہ ڈالتے ہیں اور تقریباً 40 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔

ذوالفقار تھاور نے نوٹ کیا کہ ایس ایم ایز کی ترقی میں رکاوٹیں بیداری، فنانسنگ، مناسب ماحول، انفراسٹرکچر، لاجسٹکس اور توانائی کا بحران ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو طویل المدتی اقدامات کرنے چاہئیں، جیسے کہ پیداوار، انتظام، مارکیٹنگ، اکاؤنٹنگ اور انوینٹری کنٹرول میں نئی ٹیکنالوجیز کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا، ایس ایم ایز کو جدید بنانے اور ان کے یونٹس کو متوازن کرنے اور تبدیل کرنے کے منصوبے بنانے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کا بندوبست کرنے کی ترغیب دینا۔ انہیں بینکنگ، لیزنگ اور انشورنس کے ذریعے سہولت فراہم کریں، کیونکہ یہ ترقی کے ستون ہیں۔

ذوالفقار تھاور کے مطابق ایس ایم ایز کی ترقی کے لیے حکومت کو چھوٹے کاروباروں کی خوشحالی میں مدد کے لیے سیاسی اور معاشی استحکام برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ اسی طرح انفراسٹرکچر کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایم ای سیکٹر کا انحصار لاجسٹکس پر ہے، جس میں ٹرانسپورٹیشن، گودام اور کولیٹرل مینجمنٹ شامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا مسئلہ بجلی اور گیس کے بحران کا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے متبادل توانائی کے وسائل کا انتخاب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ذوالفقار تھاور نے تمام صوبوں میں انڈسٹریل اسٹیٹس کی تجویز بھی دی۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے کو خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) کی ضرورت ہے اور حکومت کو جدید صنعتوں اور نئے یونٹس کو ٹیکس مراعات فراہم کرنی چاہئیں۔ ایس ایم ایز پالیسی 2021ء کو مکمل طور پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق حالیہ سیاسی دور کی وجہ سے پاکستانی فرموں کو اپنے کاروبار پر غیر معمولی منفی اثرات کا سامنا ہے۔ پالیسی سازوں کو جاری بحران کے اثرات سے نمٹنے کے لیے درکار حکمت عملیوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔

دریں اثنا، چین کی وزارت صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے حال ہی میں ایس ایم ایز کی ڈیجیٹل تبدیلی کو آسان بنانے کے لیے ایک گائیڈ لائن جاری کی ہے۔

گائیڈ لائن میں تبدیلی کے دوران ایسی کمپنیوں کی ضروریات کو بہتر طریقے سے پورا کرنے کے لیے فوری مواصلات، طویل فاصلے کے تعاون اور پروجیکٹ مینجمنٹ کے لیے ڈیجیٹل ایپلی کیشنز کی تخلیق پر زور دیا گیا ہے۔

Advertisement

ڈیجیٹل سروس فراہم کرنے والوں اور انٹرنیٹ پلیٹ فارمز سے کہا گیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل تبدیلی میں پیشرفت کے لیے ایس ایم ایز کو درپیش مسائل کے لیے مزید آسان حل تیار کریں۔

چینی وزارت نے ایس ایم ایز کی ڈیجیٹل صلاحیت کا جائزہ لینے کے لیے معیارات کی 2022ء کی فہرست بھی شائع کی ہے۔

معاشی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر موجودہ صورتحال طویل عرصے تک برقرار رہی تو بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ دیگرکے علاوہ مائیکرو انٹرپرائزز کا ایک طبقہ ہے، جسے سیلف ایمپلائیڈ پرسنز بھی کہا جاتا ہے، جیسے کہ چھوٹے دکانوں کے مالکان، گھریلو کاروبار اور گلیوں میں دکاندار، جو اپنے چھوٹی سطح کے کاروبار پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

یہ کاروبار عام طور پر خاندان کے افراد مختلف صنعتوں میں چلاتے ہیں، جن میں زراعت سے لے کر ملبوسات، کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ شامل ہیں۔ ان مائیکرو انٹرپرائزز کو غیر رسمی معیشت کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور ان کی زیادہ تر سرگرمیاں غیر دستاویزی ہوتی ہیں۔ لہٰذا، ان کاروباروں کی صحیح تعداد ابھی تک معلوم نہیں ہے۔

اس کے علاوہ چھوٹے کاروباروں کو کرنسی کے اتار چڑھاؤ، بلند افراط زر اور پیداوار اور نقل و حمل کی لاگت میں اضافہ  جیسےکئی دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے۔

روپے کی قدر میں مسلسل کمی سے کاروباروں کو شدید خطرات لاحق ہیں، جب کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کے اعداد و شمار بھی اوپر کی جانب جا رہے ہیں اور ان کے خطرناک حد تک پہنچنے کی توقع ہے۔

Advertisement

حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے متعدد چھوٹے کاروبار مالی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے پاس بحالی کی صلاحیت اور وسائل محدود ہیں۔

اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) کے مطابق ایس ایم ایز مختلف ممالک کو سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان، پنکھے کی مصنوعات اور دیگر سامان برآمد کرتے ہیں۔

ایس ایم ایز کو برابری کا میدان اور ایک منصفانہ مسابقتی ماحول فراہم کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ مائیکرو بزنسز کی حوصلہ افزائی کرے،لہٰذا انٹرپرینیورشپ اور جدت طرازی کو فروغ دیے۔ کاروباری صلاحیتوں کی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ایس ایم ای سیکٹر توقعات سے بڑھ کر ترقی کر سکتا ہے اور ملک کے لیے حیرت انگیز کام کر سکتا ہے لیکن حکومت کو مطلوبہ ترقی کے حصول کے لیے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری اصلاحاتی اقدامات کا عالمی اعتراف ہے، وزیرِ خزانہ
چمن بارڈر پر بابِ دوستی مکمل طور پر سلامت، افغان طالبان کا جھوٹا دعویٰ بے نقاب
مکہ مکرمہ، جدید ترین شاہ سلمان گیٹ منصوبے کا اعلان کر دیا گیا
29 سالہ اطالوی ماڈل پامیلا جینینی کو بوائے فرینڈ نے بے دردی سے قتل کردیا
بھارت روس سے تیل نہیں خریدے گا،ٹرمپ کا دعویٰ ،مودی سرکار یقین دہانی سے مکرگئی
وزیراعظم شہبازشریف سے بلاول کی قیادت میں پی پی کے وفد کی اہم ملاقات
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر