’’ایف این ایف‘‘ پاکستان کے دفتر کی سربراہ بریجٹ لیم نے کہا کہ پاکستان صلاحیتوں سے مالا مال ہے لیکن یہاں اس وقت جو کام ہورہا ہے ،اس میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اقتصادی ترقی اور انٹرپرینیورشپ پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں کی بڑی آبادی کا تعلق ایسے نوجوانوں سے ہے جن کی اوسط عمر 22 سال ہے ، جو پرُامید ہیں اور ایک بہتر مستقبل کے خواہشمند ہیں۔ بریجٹ لیم کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں یہ تمام ممالک ، وہاں کے سیاست دانوں، انتظامیہ اور معاشرے کے رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو اپنے خاندانوں کی بہتری کے لیے خوشحال ہونے کے مواقع فراہم کریں۔اس حوالے سے تعلیم کے شعبے میں بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ تعلیم غربت پر قابو پانے کےلیے سب سے پہلا قدم ہے،جس کی جانب قدم بڑھانا انتہائی ضروری ہے۔
بریجٹ لیم نے مزید کہا کہ ہم ایک تنظیم کے طور پر لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بہت کام کرتے ہیں ،جو یہ سوچتے ہیں کہ ان کے لیے انٹرپرینیورشپ (کاروبارکا فروغ)ایک اچھا موقع ثابت ہو سکتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل افراد جیسے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی رسمی ملازمت حاصل کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر کسی کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے تو وہ اپنا کاروبار شروع کر سکتا ہے اور اس طرح وہ دوسروں کے لیے بھی نوکریاں پیدا کر سکتا ہے۔اس ملک میں تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور افراد کی کمی نہیں ، بہت سے لوگوں کو اپنے خیالات کو بہتر کرنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے لیکن انہیں کاروبار کے لیے سازگار ماحول درکار ہے۔ اس حوالے سے ہمیں انتظامیہ اور سیاست دانوں سے بات کرنا ہوگی تاکہ ایک فریم ورک تیار کیا جاسکے، جس کے تحت لوگ اپنا کاروبار شروع کر سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر انداز میں گذار سکیں ۔
پاکستان آفس کے ایف این ایف کی سربراہ کے ساتھ بول نیوز کی خصوصی بات چیت کو یہاں قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے ،جنہوں نے پاکستان کی معیشت کے امکانات اور چیلنجز پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
سوال: یہ بتائیے کہ آپ کی تنظیم کا مینڈیٹ کیا ہے اور یہ کن شعبوں میں کام کرتی ہے؟
جواب: فریڈرچ نائومن ایک جرمن سیاسی تنظیم ہے، جس کی بنیاد 1958ء میں جرمنی میں رکھی گئی تھی اور ہم 1986ء سے پاکستان میں فعال طور پر کام کر رہے ہیں۔ جرمنی اور 60 دیگر ممالک کی طرح ہم ایک ہی مشن پر گامزن ہیں ۔ہم ایک ایسے معاشرے کے لیے کام کر رہے ہیں، جہاں لوگ اپنی زندگی کے منصوبے کو سمجھیں اور ذمہ داریاں قبول کریں ۔ ہم سیاست سیاست دانوں، سول انتظامیہ اور شہریوں کے ساتھ کام کرتے ہیں تاکہ انہیں بااختیار بنایا جا سکے اور ان کے فیصلوں کی ذمہ داری لیں۔
تنظیم کا یہ نظام جرمنی میں دوسری جنگ عظیم کے خوفناک تجربے کے بعد متعارف کرایا گیا، نازی جرمنی نے یورپ اور جرمنی میں بھی ہولناک نسل کشی کی۔وفاقی جمہوریہ جرمنی کے صدر اور بانی تھیوڈور ہیوس، ہماری تنظیم کے پہلے صدر بھی ہیں، وہ خاصے جمہوریت پسند انسان تھے اور نازیوں کے دور میں رہتے تھے ۔ اسی لیے وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ایسی خوفناک آمریت دوبارہ کبھی نہیں آنی چاہیے۔
لہذا پہلے خیال یہ تھا کہ جرمن شہریوں کے لیے ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو انہیں اس بارے میں آگاہی فراہم کرے کہ جمہوری اقدار کیا ہیں ؟اور وہ ان اقدار کو روز مرہ کی زندگی میں کس طرح شامل کرسکتے ہیں؟اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کو موجودہ سیاسی معاملات میں مدد کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا کیونکہ جمہوریت اور آزادی کا مطلب ہر حال میں ہوتا ہے۔ہم اس وقت یہی کام کر رہے ہیں۔ ہمارا بنیادی کاروبار تو جرمنی میں ہے لیکن ہم پاکستان سمیت 60 دیگر ممالک میں بھی مختلف سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔
سوال: آپ پاکستان میں کتنے عرصے سے کام کر ر ہی ہیں اور پاکستانی معاشرے میں کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
جواب: میں کورونا وبا پھیلنے سے بالکل پہلے یعنی جولائی 2019ء سے پاکستان میں ہوں۔ اس سے پہلے 2008ء اور 2010ء میں یہاں کاروباری دوروں کے سلسلے میں یہاں آنا ہوا تھا۔ 2019ء میں جب میں پاکستان آئی تو آتے ہی نیو اسلام آباد ایئرپورٹ پر میں نے تبدیلی کو محسوس کیا ۔ شہر میں آنے والی جدت مجھے نمایاں طور پر نظر آئی ۔میرا یہاں ہمیشہ ہی خیر مقدم کیا گیا ، یہی وجہ ہے کہ میں یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوں۔ پاکستان ایک بڑ ا ملک ہے ، جہاں حیرت انگیز اور مختلف کاروباری لوگ موجود ہیں جو اپنے خاندانوں کے ساتھ باعزت زندگی گزارنے اوراس پر یقین کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔
سوال: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ حکومت کو اسٹیک ہولڈر کے بجائے سہولت کار کے طور پر کام کرنا چاہیے؟
جواب: حکومت نے ہمیشہ اسٹیک ہولڈر کا کردار ادا کیا ہے لیکن اس کی فطرت میں خیر خواہی ہونی چاہیے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی حکومت اپنی مرضی سے پیسہ نہیں بناتی اور ہمیشہ اسی پیسے کو استعمال کرتی ہے جو وہ اپنے شہریوں سے ٹیکس کی شکل میں وصول کرتی ہے۔یہ ہر حکومت کے مفاد میں ہونا چاہیے کہ اس کے شہری زیادہ سے زیادہ پیداواری عمل میں حصہ لیں تاکہ وہ معاشرے کی بہتری کے لیے بہت زیادہ آمدنی اور دولت پیدا کریں ، اس طرح حکومت اور انتظامیہ بھی خوشحال ہو سکتی ہے۔موجودہ حالات میں حکومت پاکستان بھی ملک میں معاشی مسائل پر قابو پانے کے لیے مزید ٹیکس ریونیو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔
سوال:آپ کے خیال میں پاکستان موجودہ معاشی مسائل پر کیسے قابو پا سکتا ہے؟
جواب:میرے خیال میں پاکستان کو اپنی مصنوعات کے نئے خریدار تلاش کرنے کے لیے بین الاقوامی منڈی تک پہنچنے میں زیادہ ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔یوں لگتا ہےکہ پاکستان دو بڑے ممالک چین اور امریکہ کے درمیان انتہائی معمولی سا ہے، لیکن ایسا بہت کچھ ہے جسے دیکھنے کی ضرورت ہے۔یورپی یونین اور پاکستان، مارکیٹ تک رسائی کے لیے جی ایس پی پلس پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں لیکن ایشیائی ریاستوں، خاص طور پر وسطی ایشیا میں، علاقائی تجارتی صلاحیت موجود ہے، جس سے فائدہ اٹھانا ابھی باقی ہے۔یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں پالیسی سازوں کو زیادہ حوصلہ مند ہونا چاہیے اور درحقیقت کھل کر ان مواقع کا استعمال کرنا چاہیے۔
میرا مطلب ہے کہ ایسے ماحول کو تیار کرنے کے کافی مواقع موجود ہیں جہاں ہم جانتے ہیں کہ درآمدی متبادل نے کام نہیں کیا ہے۔اس نے 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں امریکہ اور لاطینی امریکی ریاستوں کے ساتھ ایشیائی ممالک میں کام نہیں کیا۔
بنگلہ دیش میں حالیہ معاشی کامیابی صرف اس وقت ہوئی جب اس نے اپنی برآمدات اور درآمدی نظاموں کو لچک فراہم کرکے اپنی معیشت کاراستہ ہموار کیا۔اس پالیسی کی تبدیلی نے انہیں مزید مسابقتی بنا دیا اور اپنی معیشت کا آغاز کیا،لیکن اگر ہم دیکھیں کہ پاکستان گزشتہ 20 سالوں سے تجارتی اسٹرکچر سمیت جس قسم کی مصنوعات تیار کر رہا ہے، اس میں شاید ہی کوئی تبدیلی آئی ہو۔
پاکستان کی جانب سے برآمد کی جانے والی مصنوعات میں شاید ہی کوئی جدت اور تخلیقی صلاحیت موجود ہو کیونکہ جدت کو کبھی بھی فروغ نہیں دیا جاتا ۔بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلے کی فضاء قائم کرنے کے لیے ملک کو جدت کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔ پاکستان 22 کروڑ سے زائد عوام کی ایک بڑی منڈی ہے اور یہ اپنی مارکیٹ سے معاشی ترقی کر سکتا ہے۔ اگر ماحول اور پالیسیاں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ہوں تو اتنی بڑی مارکیٹ میں تمام بڑے صنعت کار وں اور فروخت کنندگان کو دلچسپی ہوگی۔
سوال: یہ بتائیے کہ آپ کی تنظیم کن شعبوں میں کام کر رہی ہے اور کیا کوئی ایسا خاص شعبہ ہے جہاں آپ کی توجہ مرکوز ہے؟
جواب:ہم انٹرپرینیورشپ ٹریننگ پر کام کرتے ہیں، خاص طور پر معاشرے کے کمزور گروہوں کے لیے، جو کہ پسماندہ خواتین، معذور افراد، اقلیتیں اور معاشی طور پر پسماندہ لوگ ہیں۔ہم انہیں اس خیال کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے لیے باعزت زندگی گزارنے کا ایک آپشن ہو سکتا ہے اور ہمارے شراکت دار ان کی رہنمائی کر رہے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ تربیت اور اپنے کاروباری آئیڈیا کو کس طرح بہتر بنایا جائے بلکہ انہیں دوسرے اسٹیک ہولڈرز سے بھی متعارف کروایا جائے کیونکہ احساس اور اب بے نظیر انکم سپورٹ جیسےپروگرام اچھے حکومتی پروگرام ہیں ۔اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈیولپمنٹ اتھارٹی جیسی اچھی حکومتی ایجنسیاں بھی ہیں، جن کے پاس پسماندہ اور دیہی علاقوں تک رسائی پیدا کرنے کے لیے قابل اہلکار اور اسٹرکچر موجود ہے۔یہ اسٹرکچر تو موجود ہیں لیکن بدقسمتی سےلوگ ان کے بارے میں نہیں جانتے اور ان تک رسائی کیسے حاصل کرنی ہے؟ اس نوعیت کے رسمی کاموں میں شمولیت انہیں مشکل لگتی ہے۔نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد بے نظیر انکم سپورٹ یا دیگر سرکاری اسکیموں سے مستفید ہونے کے مستحق ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ فارم کیسے بھرنا ہے؟ یا ان کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ موجود ہونا لازمی ہے ، انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتاکہ ان پروگراموں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان کے پاس ڈیجیٹل والیٹ اکاؤنٹ کی سہولت ہونا بھی ضروری ہے۔یہ دراصل انتظامیہ اور ان لوگوں کے درمیان ایک نظر نہ آنے والا وہ تعلق ہے جسے حکومت کو زمینی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے بحال کرنا چاہیے۔
اپنے چھوٹے پروگراموں کے ذریعے،ہم کمزور خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک کاروباری آئیڈیا تیار کرنے کے بارے میں سوچیں اور انہیں منتظمین اور سیاست دانوں کے ساتھ مل کر ایک پلیٹ فارم کے ساتھ ان کی خدمت بھی کریں۔لہذا وہ جانتے ہیں کہ ان کی ضروریات کیا ہیں؟ اور اپنے کاروبار کو شروع کرنے یا مزید ترقی دینے کے لیے ان کی بنیادی ضروریات جیسے قومی شناختی کارڈ اسمارٹ فون اور ڈیجیٹل والیٹ اکاؤنٹ کو پورا کرنے کے لیے ان کے ساتھ مل کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ہم منتظم کے ساتھ بات چیت میں ان کمزور خواتین میں تشویش یا خوف کے عنصر کو کم کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ہم ان پروگراموں میں منتظمین کو بھی مدعو کرتے ہیں تاکہ وہ ان خواتین کو تعلیم دے سکیں کہ کاروبار شروع کرنے کے لیے ابتدائی سرمایہ حاصل کرنے کے لیے رسمی کارروائیوں کو کیسے پورا کیا جائے؟
پوچھیں تو، وسیع پیمانے پر، ایسا نہیں ہو رہا ہے۔حکومت اور معاشرے کو لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دینے اور خود انحصاری کی طرف بڑھنے میں ان کی مدد کرنے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
سوال:آپ کی تنظیم نے پاکستان کے لیے کتنی رقم مختص کی ہے،یہ بھی بتائیں کہ اصل اسپانسرز کون ہیں؟
جواب: رقم تھوڑی بہت مختلف ہوسکتی ہے لیکن ہم بہت کم رقم سے کام کا آغاز کرتے ہیں کیونکہ تنظیم کے اندر پاکستان میں ہمارا دفتر اتنا بڑا نہیں ہے۔ یہ مکمل طور پر جرمن حکومت کے زیر اہتمام پروگرام ہے، اور اس کے لیے رقم جرمنی کی اقتصادی ترقی اور تعاون کی وزارت فراہم کرتی ہے۔تاہم پچھلے سال، ہم نے یورپی یونین کےفنڈز سے چلنے والے ایک پروگرام کا اختتام کیا، جس میں ضلعی بجٹ میں شفافیت پر خصوصی زور دینے کے ساتھ مقامی سطح پر احتساب اور شفافیت پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔
ہم تنظیموں کی رسائی کو مضبوط بناتے ہیں اور اکثر تربیت کے ذریعے ان کی مہارتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ہم کاروباری خواتین کے لیے تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پراجیکٹ مینیجرز یا ان تنظیموں کے دیگر متعلقہ عملے کے اراکین کے لیے بھی بین الاقوامی تنظیموں کی موجودگی میں ٹریننگ سیشن کا انعقاد کرتے ہیں ۔
ہم اقوام متحدہ جیسی بڑی کثیر الجہتی تنظیم نہیں ہیں، اس لیے ہم مقامی انتظامیہ اور تنظیموں کو موثر اور موثر بنانے کے لیے مخصوص اور ہدفی مداخلت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ہم مہارتوں پر انحصار کرتے ہیں اور اپنی مقامی شراکت دار تنظیموں کے ساتھ نیٹ ورک بناتے ہیں۔
سوال: آپ کا خواتین انٹرپرینیورشپ پروگرام دیہی علاقوں میں کام کر رہا ہے یا یہ صرف شہری علاقوں کےلیے ہے؟
جواب: ہم نے اس ؎ پروگرام کو شہری علاقوں میں شروع کیا ہے لیکن ہم دوسرے درجے کے شہروں میں بھی کام کر رہے ہیں جہاں اس قسم کی تربیت اور نمائش کی سہولت موجود نہیں ہے۔ہم ان لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے کام کرتے ہیں تاکہ وہ کامیاب کاروباری خواتین بن سکیں اور باعزت طریقے سے روزی کما سکیں۔ ہماری بنیادی توجہ تربیت اور صلاحیت سازی پر ہے۔ ہم انہیں کسی پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے کوئی مخصوص رقم فراہم نہیں کرتے ہیں ، ہم ان کے رابطے فنڈنگ کے مختلف ذرائع سے ہموار کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔ہم انہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، آغا خان فاؤنڈیشن یا مالیاتی اداروں یا بینکوں سے متعارف کراتے ہیں، جو نئے کاروبار شروع کرنے کے لیے قرض فراہم کرتے ہیں۔ایسا کرکے ہم انہیں ایک پلیٹ فارم فراہم کرنےکی کوشش کرتے ہیں۔
سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی تنظیم کے جاری یا پچھلے پروگراموں نے معاشرے پر کوئی مثبت اثر ڈالا ہے ؟ یہ بھی بتائیں کہ کیا آپ ہمیں اپنی کامیابی کی مزید کوئی مثال دے سکتی ہیں ؟
جواب: جی ہاں، ہمارے ذریعہ تربیت یافتہ کاروباری افراد کی کامیابی کی بہت سی کہانیاں ہیں۔مثال کے طور پر ہمارا ایک انٹرپرینیورشپ پروگرام ’ اسٹیمولس‘ کافی کامیاب ثابت ہوا ہے، جو ہم نے اپنی شراکت دارتنظیموں کے تعاون سے شرو ع کیا۔ہم آئی ٹی یا پائیداری پر مبنی حل کو فروغ اور حوصلہ دیتے ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی کاروباری خیالات سرمایہ کاری پر زیادہ منافع پیدا کرتے ہیں اور چونکہ موسمیاتی تبدیلی 21ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہے، اس لیے ہمیں اس کے پائیدار حل کی ضرورت ہے، اور ہماری توجہ اب اسی پر مرکوز ہے۔’ویمن ان سسٹین ایبل انٹرپرینیورشپ‘ نامی ایک پروگرام میں ناسا ایوارڈ جیتنے والی دو شخصیات موجود تھیں جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔یہاں تک کہ ٹیکسٹائل کے روایتی کاروبار میں بھی، ہماری مدد سے تربیت یافتہ کاروباری افراد نے شہری علاقوں میں اپنی آرگینک ٹیکسٹائل مصنوعات فروخت کرنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ایک مارکیٹ تیار کی اور اب وہ اپنی مصنوعات کی بہت اچھی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News