Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

خسارہ:  نومبر میں پاکستان کا تجارتی خسارہ تیزی سے 42 فیصد تک کم ہوا

Now Reading:

خسارہ:  نومبر میں پاکستان کا تجارتی خسارہ تیزی سے 42 فیصد تک کم ہوا

پاکستان کا تجارتی خسارہ رواں برس نومبر میں صرف درآمدات میں 34 فیصد کی نمایاں کمی کی وجہ سے تیزی سے 42 فیصد سے زائد کم ہو گیا۔ تاہم، اس کی قیمت نے برآمدی آمدنی نے ادا کی، جو زیرِ جائزہ ماہ کے دوران سالانہ کی بنیاد پر 18 فیصد گر گئی۔

Advertisement

برآمدات ایک ایسے وقت میں گر رہی ہیں، جب ملک کو زرمبادلہ کے ذخائر کو اثرات سے بچانے اور بروقت بیرونی ادائیگیوں کو یقینی بنانے کے لیے ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان ادارہ برائے شماریات (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں برآمدات کم ہو کر 2اعشاریہ37 ارب ڈالر رہ گئیں، جو گزشتہ سال اسی ماہ میں 2اعشاریہ9 ارب ڈالر تھیں۔

اسی طرح ماہانہ درآمدی بل 5اعشاریہ24 ارب ڈالر تک گر گیا، جو کہ گزشتہ سال کے اسی ماہ میں 7اعشاریہ9 ارب ڈالر تھا۔ نومبر میں تجارتی خسارہ کم ہو کر 2اعشاریہ87 ارب ڈالر ہو گیا،  جب کہ گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 5 ارب ڈالر کا خسارہ تھا۔

پاکستان کی برآمدات کا بہت زیادہ انحصار درآمدات پر ہوتا ہے کیونکہ مجموعی غیر ملکی خریداری میں سے تقریباً 40 فیصد خام مال پر مشتمل ہوتا ہے، جو برآمدی مقاصد کے لیے مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن ڈالر کے اخراج کو روکنے کے لیے حکومت نے درآمدات پر کچھ پابندیاں عائد کر دیں۔

اس وقت تجارتی بینک درآمدی ادائیگیوں کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (LCs) کھولنے سے انکار کر رہے ہیں، جس سے صنعتی پیداوار کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے سینئر نائب صدر سلیمان چاؤلہ نے درآمدی ادائیگیوں کی منظوری میں تاخیر پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) پر تنقید کی۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے درآمدی ادائیگیوں کو تیزی سے کلیئر نہیں کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں صنعتی پیداوار میں خلل،ناقابل برداشت نقصات اور کنٹینر چارجز،برآمدی آرڈرز کی تکمیل میں ہونے والی تاخیر، ملکی منڈیوں میں افراط زر کا دباؤ اور سرمایہ کاروں کے جذبات کی حوصلہ شکنی میں اضافہ ہورہا ہے۔

سلیمان چاؤلہ نے وضاحت کی کہ زرمبادلہ کی عدم دستیابی، روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ، قیاس آرائی پر مبنی تجارت اور مرکزی بینک کی جانب سے تاخیر کی وجہ سے صنعت کار اور تجارتی درآمد کنندگان خطرے میں ہیں اور برآمدات میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کم ہوتی ہوئی برآمدات، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے ملک کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے سرپرست اعلیٰ گوہر اعجاز نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھیجے گئے ایک حالیہ پیغام میں کہا کہ درآمدی مسئلہ نہ صرف پاکستان کسٹمز ٹیرف (پی سی ٹی) کے باب 84 اور 85 سے متعلق ہے، بلکہ دستاویزات کے خلاف نقد رقم کے ذریعے خام مال کی درآمد کے حوالے سے بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خام مال کی کلیئرنس دستاویزات کے خلاف نقد رقم سے مشروط غیر ملکی کرنسی کی عدم دستیابی کی وجہ سے حل طلب ہے اور بندرگاہوں سے خام مال کی رہائی کے لیے کوئی اور طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے ملز فی الحال دستاویزات کے خلاف نقد رقم حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور خام مال کی کمی کی وجہ سے بند ہو رہی ہیں۔

Advertisement

انہوں نے مطالبہ کیا کہ بینکوں کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ پہلی ترجیح کے طور پر کپاس اور دیگر خام مال کے لیے غیرملکی کرنسی کی دستیابی ممکن بنائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکسٹائل کا شعبہ ملک کی برآمدات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ،لیکن رواں برس اکتوبر  میں اس شعبے میں 15 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ زیر جائزہ مہینے میں ٹیکسٹائل کی برآمدات کم ہو کر 1اعشاریہ36 ارب ڈالر رہ گئیں، جو گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 1اعشاریہ6 ارب ڈالر تھیں۔ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں زبردست کمی کے باوجود حکومت نے حال ہی میں یارن کی درآمد پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی ہے۔

کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر فراز الرحمان نے کہا کہ ٹیکسٹائل کا شعبہ ملکی برآمدات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور برآمدات کی زیادہ تر آمدنی اسی شعبے سے ہوتی ہے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ڈیوٹی کے نفاذ سے یہ شعبہ شدید مالی بحران کا شکار ہو جائے گا،جس کا براہ راست معیشت کو نقصان پہنچے گا۔

فراز الرحمان کے مطابق ملک میں جاری اقتصادی بحران، گیس کی قلت اور مہنگی بجلی کی وجہ سے پیداواری لاگت پہلے ہی بلند ترین سطح پر ہے اور مالیاتی بحران کے باعث بیشتر ٹیکسٹائل ملیں بند ہو چکی ہیں یا بند ہونے والی ہیں۔

Advertisement

فرازالرحمان کے لیے حکومت کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ، بصورت دیگر ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔

یاد رہے کہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے 30 نومبر کو اپنے اجلاس میں پالیسٹر فلیمنٹ یارن کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنےکی منظوری دی۔

پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن (PYMA) کے سینئر وائس چیئرمین سہیل نثار نے ریگولیٹری ڈیوٹی کو مسترد کرتے ہوئے اس اقدام کو8 لاکھ پاور لومز کی تباہی کا سبب قرار دیا، جو ٹیکسٹائل انڈسٹری کی لائف لائن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ مقامی پروڈیوسرز پالیسٹر فلیمینٹ یارن کی مجموعی مانگ کا صرف 25 فیصد بناتے ہیں، لیکن ٹیکسٹائل کی صنعت کو 75 فیصد درآمدی سوت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے مزیدکہا کہ جاری مہنگائی، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے، مزدوروں کے مسائل کی موجودگی میں اگر صنعتوں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا تو بے روزگاری بڑھے گی اور حکومت کو 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کے لیے کئی گنا زیادہ ادا کرنا پڑے گا۔

علاوہ ازیں صنعتکاروں نے برآمدات میں نمایاں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ کمی ملک سے ٹیکسٹائل کی ترسیل کی ڈالر کی قیمت سے اور بھی تیز ہوئی ہے۔

Advertisement

دیگر وجوہات میں تاریخی بلند افراط زر، بلند شرح سود، توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور صنعتی علاقوں میں بجلی اور گیس کی بندش شامل ہیں۔

مزید برآں، یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں ٹیکسٹائل اور کپڑوں کی طلب میں عالمی سست روی، قیمتوں میں اضافے، توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، قرضوں کی بڑھتی ہوئی لاگت اور اسی طرح مغرب میں جہاں خریدار عالمی مندی اور فروخت میں کمی کی وجہ سے ادائیگیوں میں تاخیر کر رہے ہیں جس کی وجہ سے برآمد کنندگان لیکویڈیٹی بحران میں پھنس گئے ہیں۔ آنے والے مہینوں میں بھی یہی صورتحال برقرار رہنے کی توقع ہے۔

یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) کے سینئر لیڈر زبیر طفیل نے کہا کہ سرکاری اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات میں منفی اضافہ ہوا ہے۔ ویلیو ایڈڈ آئٹمز بیڈ وئیر، نٹ ویئر اور کاٹن یارن میں بالترتیب 19 فیصد، 10 فیصد اور 35 فیصد کی سب سے بڑی کمی دیکھی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں سست روی کی بڑی وجہ توانائی کی زیادہ قیمت ہے، اس کے علاوہ ریفنڈ رقم کی عدم ادائیگی ہے۔ ستمبر اور اکتوبر کے لیے ریفنڈ کی ادائیگیاں ابھی تک نہیں کی گئیں اور اگر یہ صورتحال جاری رہی تو ٹیکسٹائل کی برآمدات مزید کم ہو سکتی ہیں۔

وزارت خزانہ نے نومبر کی اپنی ماہانہ رپورٹ میں برآمدات میں مزید کمی کا اشارہ دیا ہے اگر برآمدی منڈیوں کے معاشی حالات غیر یقینی رہے۔

اس نے کہا کہ سست غیر ملکی طلب اور ملکی رسد کے مسائل، سیلاب کی وجہ سے برآمدی فصلوں کی تباہی برآمدات کی کمزور کارکردگی کی ذمہ دار ہیں۔

Advertisement

تاہم، آنے والے مہینوں میں توقع ہے کہ برآمدات کو فروغ دینے کے لیے حکومت کی جانب سے حال ہی میں اعلان کردہ ٹارگٹڈ پالیسیوں کی وجہ سے برآمدات میں بہتری آئے گی۔ لیکن ان حرکیات میں رکاوٹ ہو سکتی ہے اگر اہم برآمدی منڈیوں میں معاشی حالات غیر مستحکم اور غیر یقینی رہیں۔”

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری اصلاحاتی اقدامات کا عالمی اعتراف ہے، وزیرِ خزانہ
چمن بارڈر پر بابِ دوستی مکمل طور پر سلامت، افغان طالبان کا جھوٹا دعویٰ بے نقاب
مکہ مکرمہ، جدید ترین شاہ سلمان گیٹ منصوبے کا اعلان کر دیا گیا
29 سالہ اطالوی ماڈل پامیلا جینینی کو بوائے فرینڈ نے بے دردی سے قتل کردیا
بھارت روس سے تیل نہیں خریدے گا،ٹرمپ کا دعویٰ ،مودی سرکار یقین دہانی سے مکرگئی
وزیراعظم شہبازشریف سے بلاول کی قیادت میں پی پی کے وفد کی اہم ملاقات
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر