Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

کامیابی کی انتہا پر پاکستانی نوجوانوں میں جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے

Now Reading:

کامیابی کی انتہا پر پاکستانی نوجوانوں میں جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے

Advertisement

ڈیٹا دربار کے شریک بانی مطاہرخان نے کہا کہ ڈیپ ٹیک یا جدید ٹیکنالوجی کے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم اور پاکستان میں اس کی فنڈنگ کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے اسٹارٹ اپس کی ترقی کا امریکہ اور بھارت جیسے ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ڈیپ ٹیک اسٹارٹ اپ زیادہ تریونیورسٹیوں سے شروع ہوتے ہیں۔ اگر ہم امریکہ میں بائیوٹیک مراحل کو دیکھیں، تو ان میں سے زیادہ ترمنصوبے ہاورڈ اورمیساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) جیسی یونیورسٹیوں سے شروع ہوتے ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ان اداروں میں وسیع علمی تحقیق نے اسٹارٹ اپس کو ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے یکجا کیا ہے، جب کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں میں ایسی تحقیق کا فقدان ہے۔

مطاہر خان نے کہا کہ ان امریکی اداروں میں طلباء، چاہے وہ گریجویٹس ہوں یا پی ایچ ڈی، اکیڈمیا کے دائرے میں رہنے کی بجائے اپنے آئیڈیاز کو پیٹنٹ کرتے ہیں اور اپنے اسٹارٹ اپ بناتے ہیں، کیونکہ انہیں مطلوبہ تحقیق، ترقی اور جدید ایجادات فراہم کی جاتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس محاذ پرزبردست ان پٹ کے باوجود امریکہ میں بڑی فنڈنگ روایتی سیکٹراسٹارٹ اپس جیسے فنٹیک، ای کامرس، سافٹ ویئر اورلاجسٹکس کو جاتی ہے۔

مطاہرخان کے مطابق دیگر شعبوں کے مقابلے میں ڈیپ ٹیک عالمی سطح پرکم فنڈنگ حاصل کرتا ہے۔ رقم کی تقسیم کے معاملے میں دوسرے اسٹارٹ اپس کے مقابلے اس شعبے کا بڑا حصہ نہیں ہے۔

Advertisement

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی ملک 300 ارب ڈالر کی مجموعی فنڈنگ حاصل کرتا ہے، جس کا دسواں یا 30 ارب ڈالرڈیپ ٹیک میں جاتا ہے، تو یہ ایک خطیررقم ہے۔

انہوں نے کہا کہ وینچرکیپیٹل فرنٹ پرڈیپ ٹیکنالوجی کے حوالے سے دلچسپی اور معلومات کی کمی بھی جدید ٹیکنالوجی میں نسبتاً کم فنڈنگ میں حصہ ڈالتی ہے، کیونکہ یہ فنڈزاسٹریٹجک سرمایہ کاری کا انتخاب کرتے ہیں۔

مطاہر خان کے مطابق زیادہ تر قابل ذکر وینچر کیپیٹل فنڈزعام طورپر آئیڈیا یا ایجاد کوجنم دیتے ہیں اوروہاں سے یہ اسٹارٹ اپ فنڈز تیار کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت، بلاک چین، مصنوعی حقیقت (AR) اوردیگران جیسی جدید ٹیکنالوجیز کے بارے میں تربیت اور معلومات کی کمی پاکستان میں ایسے اسٹارٹ اپس کی کم تعداد کی بڑی وجہ ہے۔

حیدرآباد کے نیشنل انکیوبیشن سینٹر (NIC) کے پروجیکٹ ڈائریکٹر سید اظفرحسین نے کہا کہ پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کی مصنوعات بنانے کے خواب کی تکمیل ابھی دورہے، کیونکہ ملک میں ڈویلپرزاور ماہرین عام طورپرغیرملکی کمپنیوں کے لیے فری لانس کی بنیاد پرکام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اس طرح کی ٹیکنالوجیزپرکام کرنے والے لوگ زیادہ ترآؤٹ سورسنگ میں ملوث ہیں، جہاں غیر ملکی کمپنیاں مقامی فری لانسرز کو کام کرنے کے لیے آؤٹ سورس کرتی ہیں ۔

Advertisement

سید اظفرحسین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حالات کے پیش نظر جدید ٹیکنالوجی کی مصنوعات بنانا بہت مشکل ہے، کیونکہ مقامی ڈیویلپرزکے پاس ایسی مصنوعات کی بنیاد رکھنے کے لیے قوت ارادی اور وسائل کی کمی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگربانیوں نے کسی نہ کسی طرح سے کوئی پروڈکٹ بنالی تو بھی پاکستان کے مالی بحران کی وجہ سے اپنے کام کو توسیع دینے کے لیے فنڈزاکٹھا کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

سید اظفرحسین کے لیے تعلیمی اداروں کا کردارنوجوانوں میں تربیت اور آگاہی پیدا کرنے کے علاوہ کامیابی کے حصول کے لیے جدید تحقیق کرنے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ ملک کے تعلیمی شعبے، خاص طورپر یونیورسٹیوں کا ہے، جن کے پاس نہ تو ویژن ہے اور نہ ہی خواہشمند ڈیویلپرز کو ترقی دینے یا ان کی تعلیم کے دوران انہیں سہولت فراہم کرنے کی خواہش موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے جدید ٹیکنالوجیزمیں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، کیونکہ پڑوسی ملک میں 450 کے قریب ویب3 اسٹارٹ اپس ہیں، جن میں سے چار یونی کارن کمپنیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں ایک غیرمنافع بخش تنظیم نیشنل ایسوسی ایشن آف سافٹ ویئر اینڈ سروسز کمپنیز(ناس کام) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق جہاں تک ان کے کاموں کا تعلق ہے، تقریباً 60 فیصد بھارتی ویب3 اسٹارٹ اپ عالمی بن چکے ہیں۔

Advertisement

انہوں نے بتایا کہ ہمسایہ ملک کا ویب3 ایکوسسٹم اس سال اپریل تک 1اعشاریہ3 ارب ڈالر کی فنڈنگ کو چھوچکا ہے۔ فی الحال، اس کے پاس دنیا کے ویب3 ٹیلنٹ کا 11 فیصد ہے۔

یہ اعداد وشماربھارت کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی ویب 3 افرادی قوت بناتے ہیں، جو آج تقریباً 75ہزار بلاک چین پیشہ ورافراد کو ملازمت دے رہا ہے۔

مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقہ (MENA) خطہ ابوظہبی کے فری اکنامک زون میں کرپٹو فوکسڈ ایسوسی ایشن کے آغاز کے ساتھ کرپٹو کرنسی کو اپنانے کے لیے سب سے تیزی سے بڑھتے ہوئے مرکزوں میں سے ایک ہے۔

مشرق وسطی، افریقہ اورایشیا کرپٹواینڈ بلاک چین ایسوسی ایشن (MEAACBA) کورواإ برس 8 نومبر کو ابوظہبی گلوبل مارکیٹ (ADGM) میں باضابطہ طورپرشروع کیا گیا، جس کا مقصد پورے MENA ریجن میں بلاک چین اورکرپٹو ایکو سسٹمز کی ترقی میں سہولت فراہم کرنا تھا۔

سعودی مینجمنٹ کنسلٹنسی فرم، اسٹریٹجک گیئرز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسی طرح عالمی سطح پرمصنوعی ٹکنالوجی کی مارکیٹ کے حجم کے تخمینے مختلف ہیں، لیکن زیادہ ترآنے والے سالوں میں دو ہندسوں کی ترقی کی پیشن گوئی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، کچھ تجزیہ کاروں نے فی الوقت 299 ارب ڈالر سے 2026ء تک 309 ارب ڈالر ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔

ورچوئل اسسٹنٹس اورچیٹ بوٹس سمیت مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئرمجموعی مارکیٹ کی ایک بڑی محرک قوت بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جدید ٹیکنالوجی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ (MENA) ریجن میں بھی اپنا اثرحاصل کررہی ہے۔

Advertisement

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ حالیہ تکنیکی ترقیوں نےمصنوعی ذہانت  کو پہلے سے کہیں زیادہ قابل رسائی بنا دیا ہے، علاقائی حکومتیں اور کاروبار اپنے قومی مقاصد اور کاروباری ماڈلز کے لیے مصنوعی ذہانت کے اہم فوائد کو دیکھنا شروع کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خطے کی حکومتیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پرمبنی علمی معیشتوں کوترقی دینے کی اپنی کوششوں کے حصے کے طور پراس تبدیلی کو فروغ دے رہی ہیں۔

نوجوانوں کی بڑی آبادی کے پیش نظرمتعدد MENA قومیں AI تعلیم، تربیت اور تحقیق میں خاصی سرمایہ کاری کررہی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایسی ٹیکنالوجیز مستقبل کی معیشت اور افرادی قوت میں کلیدی کردارادا کریں۔

سعودی ویژن 2030ء کے تقریباً تین چوتھائی اہداف میں ڈیٹا اور AI شامل ہے اور مملکت کا منصوبہ ہے کہ دہائی کے آخر تک 20ہزار ڈیٹا اور AI ماہرین کو تربیت فراہم کی جائے۔

AI کی تعلیم میں متحدہ عرب امارات کی سب سے بڑی سرمایہ کاری میں 2019ء میں مصنوعی ذہانت کی محمد بن زاید یونیورسٹی کا قیام تھا۔ یہ AI، کمپیوٹرویژن، مشین لرننگ اورقدرتی زبان کی پروسیسنگ میں تحقیق کرنے والے اداروں میں عالمی سطح پر 30 ویں نمبرپرہے۔

قطر میں امریکہ کی کارنیگی میلن یونیورسٹی جیسی مشہور یونیورسٹیوں کے کئی برانچ کیمپس بھی ہیں، جہاں طلباء AI سے متعلقہ ڈگریاں اور تحقیق حاصل کر سکتے ہیں۔

Advertisement

ملک میں مصنوعی ذہانت کے لیے قطرسینٹر بھی ہے، جو اپنی AI فیکلٹی میں ٹیلنٹ کو راغب کرنے اور ایک تحقیقی اور پالیسی سینٹر قائم کرنے کے لیے کام کررہا ہے۔

تاہم، پاکستان اپنے پرانے نظام تعلیم کی وجہ سے اس محاذ پرابھی کافی پیچھے ہے، جس میں ایجادات، نئی ٹیکنالوجی کواپنانے اورطلباء کی تربیت کی کمی ہے۔

پاکستانی ماحولیاتی نظام میں جدید ٹیکنالوجی کی ایجاد اورسرمایہ کار بہت کم ہیں، کیونکہ ماحولیاتی نظام میں پختگی اب بھی بعید از قیاس ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
مسئلہ کشمیر کے بغیر بھارت سے کوئی بات نہیں ہوسکتی، وزیراعظم
بابا گرونانک کی 486 ویں برسی، پہلے روز دنیا بھر سے 2 ہزار یاتری کرتارپور پہنچے
ایشیا کپ 2025 : فائنل سے قبل بڑا فائنل ، اینڈی پائی کرافٹ میچ ریفری ، پاک بھارت ٹاکرا آج
تنازعات عالمی امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں،شہبازشریف، عالمی یوم امن پر پیغام
محسن نقوی قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی کےلئے پریکٹس سیشن میں پہنچ گئے
ایشیاکپ سپر فور مرحلہ: بنگلہ دیش نے سری لنکا کو 4 وکٹوں سے شکست دیدی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر