Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

حکومت معاشی بحرانوں پر قابو پانے کے لیے خود انکاری کی حالت میں ہے

Now Reading:

حکومت معاشی بحرانوں پر قابو پانے کے لیے خود انکاری کی حالت میں ہے

ملک میں شدید مالی اور اقتصادی بحرانوں کے ساتھ آئندہ برس کے اوائل تک دیوالیہ ہونے کا احساس بڑھ رہا ہے۔ تاہم، برآمدات اور ترسیلات زر کے جمود کےباوجود وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ بیان کہ ’’سب ٹھیک ہے‘‘ معیشت کو بلیک ہول میں دھکیل سکتا ہے جہاں سے واپسی ایک بہت مشکل کام ہوگا۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں منفی جذبات کا مقابلہ کرنے کے لیےاسحاق ڈار یہ یقین دہانیاں کرا رہے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہو گا، کیونکہ حکومت میچور ہونے والے بانڈز کے لیے 1 ارب ڈالر کی ادائیگی کے لیے پرعزم ہے۔

وزیر خزانہ نے سرکاری پی ٹی وی پر اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ ہم پہلے کبھی دیوالیہ نہیں ہوئے اور اس بار بھی ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تک نہیں ہیں۔

اسحاق ڈار نے زور دیا کہ سکوک، یا اسلامی بانڈز کے لیے 1 ارب ڈالر کی ادائیگی 5 دسمبر کو میچور ہونے والی ہے، جوبغیر کسی تاخیر کے وقت پر کی جائے گی، اور اصرار کیا کہ آئندہ ادائیگیوں کے لیے انتظامات کرلیے گئے ہیں۔

تاہم، پاکستان کی حکومت کی بار بار یقین دہانیاں عالمی بانڈ کے سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہیں، کیونکہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ، جو کہ پانچ سالہ کریڈٹ ڈیفالٹ سویپ (CDS)( ایک مالی ماخوذ جو ایک سرمایہ کار کو اپنے کریڈٹ رسک کو دوسرے سرمایہ کار کے ساتھ تبدیل یا آفسیٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے) کے ذریعے ماپا جاتا ہے، 123 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

Advertisement

کریڈٹ ڈیفالٹ سویپ میں اتنا بڑا اضافہ اس لیے ہوا کیونکہ حکومت قرض کی فراہمی اور کرنٹ اکاؤنٹ اور بجٹ دونوں خساروں کو پورا کرنے کے لیے 22 ارب ڈالر کا بندوبست کرنے سے اب بھی قاصر ہے، جبکہ اس نے اکتوبر کے لیے شیڈول بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ عملے کی سطح کے مذاکرات میں بھی تاخیر کی۔

معروف ریٹنگ ایجنسیوں موڈیز، ایس اینڈ پی اور فچ کے بعد جاپانی بینک نومورا نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ پاکستان ان سات ممالک میں شامل ہے، جو اس وقت کرنسی بحران کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔

جاپانی بینک نے کہا کہ اس کے اندرون ملک ‘Damocles'(خطرے کی لتوار سر پر لٹکنا) وارننگ سسٹم کے تحت 32 میں سے 22 ممالک نے مئی میں اپنی آخری اپ ڈیٹ کے بعد سے خطرے میں اضافہ دیکھا ہے، جس میں جمہوریہ چیک اور برازیل میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

نہ صرف ریٹنگ ایجنسیاں بلکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے بیان میں بھی انہی خدشات کی بازگشت سنائی دی۔

ایک انگریزی روزنامے کے لیے اپنے مضمون میں مفتاح اسماعیل نے لکھا کہ آج ہمارے دیوالیہ ہونے کے خطرہ پھر سے بڑھ کر خطرناک سطح پر پہنچ گیا ہے۔دسمبر کے بانڈز کی ادائیگی کے بعد بھی یہ خطرہ ختم نہیں ہوگا۔خطرے کی گھنٹی بجنے کے خطرے کے پیش نظر مجھے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے پاس غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ فوری ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں خوشی ہوتی اگر ڈالر کی قدر میں باضابطہ طور پرکمی ہوتی، لیکن میں اس کے حق میں نہیں تھا کہ ڈالر کو ایک خاص شرح پر رکھنے کے لیے پیسہ خرچ کیا جائے یا انتظامی حکم جاری کیا جائے۔

Advertisement

انہوں نے مزید کہا کہ میں نہیں جانتا کہ ڈالر کی بہترین شرح کیا ہے،میرے خیال میں صرف مارکیٹ ہی اس کا تعین کر سکتی ہے۔گزشتہ سال ہماری درآمدات 80 ارب ڈالر تھیں اور ہم نے صرف 31 ارب ڈالر کی اشیاء برآمد کیں۔ یقیناً وزیر خزانہ کی اولین ترجیح یہ نہیں ہونی چاہیے کہ درآمدات کو سستا کیا جائے اور برآمدات کو مزید مشکل بنایا جائے، جو کہ روپے کی قدر میں اضافے سے ہوتا ہے۔ ہم اس سے پہلے 2007ء/08ء اور 2017ء/18ء میں اس کا ناکام تجربہ کرچکے ہیں۔

مفتاح اسماعیل نے یہ بھی لکھا کہ آج اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ایکسچینج ریٹ میں بڑا اور مستقل فرق ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسٹیٹ بینک غیر رسمی طور پر بینکوں کو شرح مبادلہ کے حوالے سے رہنمائی کر رہا ہے۔ بڑا فرق ہماری برآمدات اور ترسیلات زر کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور درآمدات کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور نئے ٹیکس عائد کرنے پر تنقید کی گئی تھی۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہماری حکومت کو پیٹرول خسارے میں بیچنا چاہیے؟ مزید برآں، اگر پاکستان میں 2اعشاریہ2 ملین دکانیں ہیں اور صرف 30ہزار دکاندار انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں، تو کیا ان سے صرف 3000 روپے ماہانہ ادا کرنے کا کہنا مناسب نہیں ہے؟

۔ سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ایک وقت آتا ہے جب قومی مفاد کو سیاسی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی وہ وقت ہے، اس حکومت کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یا کسی اور پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں ہوگا اگر اقتدار میں آنے کا جلدبازی میں فیصلہ کرنے کے بعد وہ ملک کی بہتری کے لیے کام کرنے سے قاصر ہے۔

مفتاح اسماعیل کے خدشات کی معیشت کے بڑے اسٹیک ہولڈرز اور ملک کے سرکردہ ماہرین اقتصادیات نے مزید تائید کی ہے۔

سینئر ماہرمعاشیات ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ وزیر خزانہ خود انکاری کی حالت میں ہیں۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار معاشی محاذ پرحالات کی سنگینی کو میڈیا اور عوام سے چھپانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ رہا ہے ،کیونکہ حکومت چینی قرضوں کو ری شیڈول کرنے کے بعد بھی جی7 ممالک سے قرضوں میں ریلیف، بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں کے لیے 20 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اسحاق ڈار ٹاک شوز میں یا میڈیا بریفنگ میں یہ دعویٰ کیسے کرتے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کے باوجود ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر 190 سے 200 کے درمیان ہے۔ میرے نزدیک یہ مجرمانہ غفلت ہے۔ ان کے دعوے مکمل طور پر فرضی اور مفروضوں پر مبنی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر خزانہ کے بڑے چینی اور سعودی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے دعوے اب غلط ثابت ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق ایسے مخالف سیاسی ماحول میں مقامی سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں، سعودی یا چینی سرمایہ کار اتنا بڑا خطرہ کیسے مول لے سکتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین نے پہلے ہی عندیہ دیا تھا کہ درآمدی پابندیوں اور معاشی سرگرمیوں میں سست روی کے باعث 7اعشاریہ47 ٹریلین روپے کا ریونیو ہدف حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ہدف کو پورا کرنے کے لیے مالیاتی سال کی دوسری سہ ماہی میں 61 فیصد مزید ریونیو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ تقریباً ناممکن ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے وابستہ بنیادی سرپلس حاصل نہیں کر سکے گی۔

Advertisement

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق سنگین معاشی صورتحال کے باوجود پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دونوں اپنی سیاسی مہمات پر عوام کا پیسہ بے دریغ خرچ کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان سیاسی جماعتوں کو کوئی فکر نہیں ہے ہیں کہ 20 فیصد سے زیادہ مہنگائی نے عام آدمی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

وزیر مملکت برائے ریونیو ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ حالات مشکل ہیں لیکن ہمیں آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے مزید اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کرنا ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم اورحکومت اچانک سیلاب کے مضمرات کا جائزہ لے رہی تھی، کیونکہ حکام کو فوری طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ریلیف کے ذریعے سیلاب سے نجات کے لیے 120 ارب روپے کے اضافی فنڈز فراہم کرنے تھے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور ایک بار جب اعدادوشمار پر اتفاق ہو جائے گا تو بات چیت نویں جائزے پر آگے بڑھے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب نے میکرو اکنامک فریم ورک کو بری طرح متاثر کیا ہے اور آئی ایم ایف نے حکام سے کہا ہے کہ وہ تمام مخصوص اخراجات کے ساتھ آئیں جو اس سال پورے کیے جائیں گے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان سے ریکوری پلان کو بروقت حتمی شکل دینے کو بھی کہا ہے۔

پاکستان جب رواں سال کے اوائل میں سیلاب کی زد میں آیا تھا تو یہ پہلے ہی کئی دہائیوں کی بلند ترین افراط زر اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ ایک مکمل معاشی بحران سے نبردآزما تھا۔

Advertisement

جس نے 2019ء میں 6 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام میں داخل کیا تھا اور فی الحال نواں جائزہ زیر التوا ہے۔

آئی ایم ایف کے مقامی نمائندے ایستھر پیریز روئز نے میڈیا کو جاری کردہ ایک پیغام میں کہا کہ کثیر جہتی اور دو طرفہ شراکت داروں کی جانب سے جاری مالی امداد کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی حمایت کے لیے بحالی کے منصوبے کو بروقت حتمی شکل دینا ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کا عملہ پاکستانی حکام کے ساتھ معاشی اور مالیاتی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے اصلاحات کی کوششوں کو تیز کرتے ہوئے انسانی ضروریات کے لیے ترجیحی اور بہتر ہدف کی مدد کے لیے پالیسیوں پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔

پی ٹی آئی کے سابق ترجمان برائے خزانہ اور سینئر ماہر اقتصادیات مزمل اسلم نے کہا کہ حکومت کو اپنی قرض کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی فنانسنگ کے لیے 20 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کرنٹ اکائونٹ کو صفر پر لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تب بھی اسے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، جو ایک مشکل کام ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت صرف 2 ارب ڈالر قرض فنانسنگ کا بندوبست کر سکتی ہے اور مجھے جس بات کا خدشہ ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنی تمام ذمہ داریاں انتخابات سے قبل بنائے گئے نگران سیٹ اپ کو منتقل کر دے گی اور اس قسم کی چیلنجنگ پوزیشن کو سنبھالنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹیٹ آئل (PSO) کا لیکویڈیٹی بحران 621اعشاریہ168 ارب روپے اور قابل ادائیگی 268اعشاریہ5 ارب روپے تک غیر معمولی اضافے کے ساتھ اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس نے ریاستی ادارے کو لیٹر آف کریڈٹ (LCs) سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر کر دیا ہے، جس کی رقم فرنس آئل اور مائع قدرتی گیس کی درآمد کے لیے 218اعشاریہ5 ارب روپے ہے۔

ابتدائی پانچ ماہ میں برآمدات تقریباً مستحکم رہیں، جب کہ اکتوبر میں اس میں 4 فیصد کی کمی واقع ہوئی، جب کہ ترسیلات زر میں بھی پانچ ماہ کے دوران تقریباً 16 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
بھارتی بینک کی وائی فائی آئی ڈی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نام سے تبدیل، ہنگامہ برپا ہوگیا
پی آئی اے کی نجکاری ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گئی
امریکی ناظم الامور کی خواجہ آصف سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
سیکیورٹی فورسز کی اہم کامیابی، ٹی ٹی پی کے نائب امیر قاری امجد کا خاتمہ کر دیا گیا
رواں سال ملک بھر میں کتنی سردی پڑے گی، این ڈی ایم اے نے بتا دیا
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، 100 انڈیکس 1,732 پوائنٹس گر گیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر