کسی بھی ملک کے سیاسی استحکام کے لیے سب سے اہم ضرورت سیاست دانوں کا ہونا ہے، جنہیں سب سے پہلے عوامی زندگی کے تمام پہلوؤں میں خود مستحکم ہونا چاہیے۔ شکوک و شبہات یا غیرواضح سوچ کے حامل سیاست دان یا لیڈر قیادت کے اہل نہیں ہیں۔
احمقانہ محاورے کا بڑے پیمانے پرغلط استعمال کہ سیاست ’’ممکن کا فن‘‘ ہے،اسے نہ صرف سیاسی فکر کے دائرے میں بلکہ بڑے پیمانے پرتائید اور مضبوطی سے قائم ہے، یہ قومی فکر کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح اورصاحبزادہ لیاقت علی خان کے دنیا سے جانے کے بعد سے آج تک پاکستان کے سیاسی افق پر کوئی ایسا سیاست دان ابھر کر سامنے نہیں آیا، جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اپنی مکمل اورحقیقی شکل میں ایک ’’سیاسی لیڈر‘‘ کہلانے کی اگر تمام نہیں تو کم از کم ایک بڑی حد تک ضروری خصلتیں اورصلاحیتیں اس میں موجود ہیں۔
حال ہی میں جب میں نے بھارت کے ساتھ 1965ء کی جنگ کے بعد ہونے والے صدارتی انتخابات کے بارے میں ماضی کا ایک تراشہ پڑھا تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ سیاسی میدان میں موجودہ بدحالی کوئی نئی بات نہیں، یہ ہماری آزادی کے بعد سے موجود ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ زیادہ تر سیاست دان اس وقت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف اکٹھے ہو گئے تھے، جوکہ ناقابل فہم ہے۔ ایک عظیم خاتون کے خلاف ناقابل تصورباتیں کی گئیں، جوبابائے قوم کی ہمشیرہ بھی تھیں۔ ان پرغدارکا لیبل لگایا گیا۔
محترمہ فاطمہ جناح کو سادہ لوح کہا جاتا تھا کیونکہ وہ اطالوی فیشن کےفینڈی اسکارف نہیں پہنتی تھیں۔ میرے ہمہ وقت کے ہیرو ذوالفقارعلی بھٹو (زیب) انتہائی نچلی سطح تک جا پہنچے، یہاں تک کہ جوتے چاٹنے والے موجودہ بہترین پریکٹیشنرز کو بھی مات کر دیا- انہوں نے مبینہ طور پر کہا کہ وہ (محترمہ فاطمہ جناح) ایک ’’بوڑھی اور ضدی عورت‘‘ ہے۔ ’’ڈیڈی‘‘ کو خوش کرنے کے لیے اس طرح کا تبصرہ ایک شریف آدمی کی طرف سے آیا ہے، جو اعلیٰ قانونی دماغ کے حامل تھے،انہیں تاریخ اورتقدیر کا علم تھا،اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس کیلیفورنیا کی برکلے یونیورسٹی کی اعلیٰ ڈگری بھی تھی۔
اب تک کے سب سے زیاددہ تعلیم یافتہ اور ذہین سیاستدان محمد علی جناح کے بعد پہلے اور اب تک آخری تعلیم یافتہ اور وسیع المطالعہ سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو پاکستان نے گزشتہ 75 سال میں پیدا کیا ہے۔ انہوں نے بھی نازیبا زبان استعمال کی۔ لیڈروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک کلاس اور کرشمہ کا مظاہرہ کریں گے، ان کی شخصیت میں دونوں ہی بہت زیادہ تھیں، لیکن ان کے اندر کا جاگیردار کبھی کبھار حاوی ہوجاتا تھا، جس نے ان کی خوبیوں اور اُن کے حسن سلوک کوتباہ کر دیا۔
زہرآلود، ذہانت اورمزاح سے مزین ردِ عمل اورتردید برصغیر میں بھی سیاسی لیڈروں کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ مولانا مودودی (ان کی سیاست کا کوئی پرستار نہیں) میں بھی طنز کا احساس تھا- جب محترمہ فاطمہ جناح صدر ایوب خان سے الیکشن ہار گئیں،تو کہا جاتا ہے کہ انھوں نے تبصرہ کیا کہ ایوب خان کے پاس واحد مثبت خوبی یہ ہے کہ وہ مرد ہیں اور محترمہ فاطمہ جناح کے پاس صرف ایک چیز کی کمی ہے کہ وہ مرد نہیں ہیں۔
ایک جامع تبصرہ جس میں شائستگی کا عنصر مکمل طور پر موجود ہے۔ اس کے برعکس غیر رسمی یا رسمی طورپرکسی بھی سیاست دان کی بات سنیں،اور ان مماثلتوں کو نوٹ کریں جن کا وہ اپنے مخالفین کو مخاطب کرنے یا بیان کرنے کے لیے انتخاب کرتے ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح کی شکست کو یقینی بنانے کے لیے ان کے درمیان گہری تقسیم سے قطع نظرعلماء کی جانب سے فتوے جاری کیے گئے، جرأت کے ساتھ یہ کہنا کہ عورت کا سیاست میں آنا ہمارے مذہب میں شرمناک ہے۔
یہ 1966ء کا دورتھا۔ اب وقت کو تیزی سے آگے بڑھاتے ہوئے 1988/89ء کی جانب آتے ہیں، جہاں بے نظیر بھٹو کو صنفی غلبے یا اس سے کچھ بہتر صنفی کمتری کی بنیاد پراسی طرح کے شدید حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ موجودہ اتحادی قیادت کے شراکت دارعوام میں یہ نامناسب تبصرے کرنے والوں میں شامل تھے۔ انہوں نے انتہائی غیر مہذب انداز اور زبان میں ان کی تذلیل کی، حال ہی میں جب انہوں نے اپنے حریف سابق صدرپرویز مشرف کے خلاف ہاتھ ملایا- اس طرح سیاست کے تمام طالب علموں کے سامنے یہ محاورہ درست ثابت ہوا کہ ’’سیاست عجیب و غریب عارضی ساتھی بناتی ہے۔‘‘
نوجوان بلاول زرداری کو ان کی صحبت میں دیکھ کرذوالفقار علی بھٹو کے چاہنے والوں کو حیرت ہوتی ہے کہ کیا انہیں بتایا گیا ہے یا انہوں نے خود ان لوگوں کی والدہ کے بارے میں کیے گئے قابل مذمت تبصروں کو پڑھنے کی زحمت کی ہے۔
بلاشبہ عالمی سطح پرسیاست گندی ہے۔ لیکن اس پاک سرزمین میں یہ بنیادی طور پر سب سے زیادہ گندی ہے۔ سیاست دان بننے کے لیے کسی تعلیمی قابلیت یا کسی بھی معاشی مہارت میں تکنیکی مہارت کے سرٹیفیکیشن کی ضرورت نہیں ہوتی جو قابل عمل اور نتیجہ خیز ہو۔ سیاست عوام کی خدمت سے ہٹ کر پسماندہ افراد کے استحصال کا ایک آلہ زیادہ بن گئی ہے ۔ دوسروں کو بے وقوف بنانے والے اپنے آپ کو بہترین سیاسی دماغ سمجھتے ہیں۔
ابراہم لنکن کا قول اکثریت نے ابھی تک نہیں پڑھا کہ آپ کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں، لیکن تمام لوگوں کو ہر وقت نہیں۔ تقدیر بے گناہوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو بہت لوٹا دیتی ہے۔ شخصیت پر چڑھا ملمع ذرا سی اشتعال انگیزی پر فورا اترجاتا ہے۔ اختلاف کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔
اختلاف رائےکو قبول کرنے کے لیے درکار فراخ دلی یا یہاں تک کہ اپنی رائے پرنظر ثانی کرنے کی ضرورت مفقود ہے۔ اقدار، عقائد اور اصولوں کو برقرار رکھنے پر اٹل رہنا قابل تحسین ہے، لیکن اسے مضبوطی سے اپنانے، عزم کو برقرار رکھنے اوراس پر عمل کرنے کے لیےفولادی اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ ایمانداری کا نواں درجہ ہے، جس کا سیاسی میدان میں معاشرے کے دیگر طبقات سے زیادہ فقدان ہے۔
قائدین کو بہترین استاد ہونا چاہیے۔ ان کے پاس بلاشبہ بہترین ابلاغی مہارتیں ہونی چاہئیں تاکہ وہ ترقی اور آزادی کے لیے اپنا نظریہ اپنی سوچ عام آدمی کو بیچ سکیں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ’’وژن‘‘ ہو! اس کی بجائے سیاست دانوں کی موجودہ نسل کی جانب سے یاسیت ، مایوسی اور افسردگی کو بیچنے کی تھوک مارکیٹ نہیں بلکہ لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔
اول تو وہ شہنشاہوں کی طرح عوام کے ساتھ تکبر کے ساتھ بات کرتے ہیں اورحقارت کے ساتھ پیش آتے ہیں، بے بس اور ملک کے دوسرے درجے سے کم شہری یعنی ان کی رعایا (غلام یعنی ووٹر) جوش و خروش کے ساتھ ووٹ ڈالتے ہیں (منتخب یا چنیدہ) اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی کے لیے جاتے ہیں۔
اورپارلیمنٹیرین بن جانے کے بعد یہ سیاستدان کیا کرتے ہیں؟ اگر قارئین یہ جاننے میں سنجیدگی سے دلچسپی رکھتے ہیں، تو شام 6 بجے سے آدھی رات کے دورانیے میں ٹی وی پر کسی بھی چینل کو آن کریں۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا، وہ آپ یعنی ووٹر کے لیے کیا کرتے ہیں۔
کوئی بھی پارلیمنٹ اجتماع کے لیے ایک اچھی جگہ ہوتی ہے، جب اچھے پارلیمنٹیرین گدّی اوراعلیٰ سطح کی نشستوں پر قابض ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مکروہ، قابل مذمت اور گھناؤنے کلمات سے شیطان کوخوش کرتے ہیں۔ یہ کہانی سنانے والے کہانی کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے یہ حاضر یا غیرحاضر سننے والوں کوخوش کرتی ہے۔ انہیں کوئی افسوس اورکوئی پچھتاوا نہیں ہوتا۔ سیاسی مصلحت ان کی سوچ اورعمل کی بنیاد ہے،ترک کہاوت ہے کہ ریچھ کو اس وقت تک ’انکل‘ کہو جب تک کہ وہ پل کے اس پار محفوظ نہ ہو جائیں یعنی جب تک کسی سے مفاد وابستہ ہے، اس کی عزت کرو۔
میرے والد نے ہم سب بہن بھائیوں کو سر ونسٹن چرچل کا زبردست پرستاربنایا۔ وہ کھانے کی میزپرچرچل کے لطیفے، دارالعوام میں کیے گئے دلچسپ تبصرے، قصے کہانیاں وغیرہ بیان کرتے۔ ان میں میری دلچسپی اب تک برقرار ہے۔
کئی دہائیوں قبل ہمارے والد نے ہمارے سامنے ونسٹن چرچل کی داستان سے ایک اقتباس سنایا کہ 1953ء میں چرچل سے ملنے کے لیے آنے والے ایکسچینج اسٹوڈنٹس بیچ میں سے ایک امریکی طالب علم نے ان سے سوال کیا کہ قیادت کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کیسے تیاری کی جائے۔ انہوں نے پرزورلہجے میں جواب دیا کہ ’’تاریخ کا مطالعہ کریں۔‘‘
ہمارے سیاستدان اتنے تعلیم یافتہ ہیں کہ یہ بھی نہیں جانتے کہ سوچنے کے لیے انسانی اناٹومی کا کون سا عضواستعمال ہوتا ہے!!
وہ عظیم آدمیوں کی سوانح حیات کیوں نہیں پڑھتے (ایسا کرنے کے لیے آگہی کی کمی کی اعتراف کی ضرورت ہے)، تاکہ وہ اپنی زندگی کو شانداراورانتخابی عمل میں گزار سکیں۔ سیاست دان عوامی خدمت گار ہوتے ہیں۔ لہٰذا،انہیں عوام کی خواہشات کے تابع اورتحت رہنا چاہیے۔ اگر وہ نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں تو انتخابات ہونے دیں – بہترین جیتیں گے، تو ڈر کس بات کا؟ چونکہ، وہ لوگوں پررب کی خواہش کو فوقیت دیتے ہیں،تو وہ اس بات کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
موجودہ دور کے معاشی معجزے یعنی سنگاپورکےبانی اور معمار لی کوون یو کا سیاسی منشور صرف عوامی خدمت تھی۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہ سیاست کسی شخص کا اضافی وقت مانگتی ہے، لوگوں اور نظریات سے وابستگی کا تقاضا کرتی ہے۔ آپ صرف ایک کام نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک پیشہ ہے، جو پیشوا سے مختلف نہیں. آپ کو لوگوں کے لیے محسوس کرنا چاہیے، آپ کو معاشرے کو بدلنا چاہیے اور زندگی کو بہتر بنانا چاہیے۔
ہمارے پاس اپنا ایک لی کوون یو کیوں نہیں ہو سکتا؟ کیوں؟ کیا ہم کم عقل ہیں؟ کیا ہم کم محنتی ہیں؟ ہمارے اندر ایسی کون سی خامی ہے!
1970ء کی دہائی سے لے کر آج تک پیدا ہونے والے سیاست دانوں کی نسل میں ان اجزاء کی کافی کمی ہے، جو ایک لیڈر پیدا کرنے کے لیے چاہیے ہوتی ہیں،یعنی وہ بیک وقت سیاست دان اوراسٹیٹس مین ہوں۔
ابھرتے ہوئے سیاست دان، بنیادی طور پر ایسے لوگ ہیں جنہیں ماضی اور حال کے درمیان ایک پل کی طرح کام کرنا چاہیے، اور بعد میں شیپرڈ کا خواب(19ویں صدی کے آخر میں سوئس مصور فرڈینینڈ ہوڈلر کی پینٹنگ) دیکھنا ہوگا اور مستقبل میں ہر پل کوعبورکرنا ہوگا۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے بھرپور تعلیم سے لے کر انتھک کام تک استقلال کے ساتھ محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ماؤزے تنگ کے دفتر میں کوئی گھڑی نہیں تھی۔ کھڑکیوں پر بھاری پردوں کا انتخاب اس نے جان بوجھ کرکیا تھا، یہ خیال کیا جاتا ہے تاکہ اسے معلوم نہ ہو کہ یہ دن ہے یا رات۔
قائدین سیاست اورحکمرانی کی مسلسل بدلتی ہوئی شکلوں اور نظاموں کے اندر کام کرتے ہیں لیکن اس روانی کا مقصد معاشرے کے رسم و رواج، عقائد اور اصولوں کو بھی تبدیل کرنے کا لائسنس دینا نہیں ہے۔ کردار اور شہرت کسی بھی سیاست دان کی مارکیٹنگ کی پہچان ہوتی ہے۔ ان کی پہچان کا نشان اس میں اخلاقی، سماجی، مالی اور فکری، حدود کے سلسلے میں ملکیت شامل ہے، جسے ایک مہذب معاشرے کے معمول کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
سیاست دانوں کواپنے اثرورسوخ کا تعین ان نظریات اوراقدار کے ذریعے کرنا چاہیے جو عوام کی آزمائش کے ظاہری دائرے میں رہیں۔ استحصال کرنے والوں، منی لانڈرنگ کرنے والوں، ٹیکس چوروں، قانون شکنی کرنے والوں، اقرباء پروری کو فروغ دینے والے اور معاشی طفیلیوں کو سیاسی حیثیت کا دعویٰ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے یا نہیں دی جانی چاہیے۔
سیاستدانوں میں وہی خسوصیات ہونی چاہیے، جنہیں تھامس جیفرسن نے بیان کیا تھا اعلیٰ اخلاقیات اورصلاحیتوں کا اشتراک۔ تعلیم کے بغیر کردار یا کردار کے بغیر تعلیم کوئی اچھا سیاست دان نہیں بن سکتا۔جیسا کہ مفتاح اسماعیل نے بیان کیا ہے کہ ایک فیصد اشرافیہ کا تعلق تعلیم یافتہ لیکن کردار اور شہرت میں بونے طبقے سے ہے۔
کیا ہمارے نوجوان اور بزرگ سیاستدانوں سے یہ توقع کرنا بہت بڑا سوال ہے کہ جو ملک کے لیے ایک مضبوط اخلاقی اور تزویراتی بصیرت (اسٹریٹجک وژن) کے ساتھ انسانی تاریخ کے ان سب سے زیادہ متحرک دور کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔اس طبقے میں کوئی ہے جو یہ سوچ رہا ہو کہ 2047ء میں جب ہمارا ملک 100 سال کی آزادی کا جشن منائے گا تو ہماری سیاسی قیادت یا کسی اورشعبےکا معیار کیا ہو گا ؟ کیا اس طرح کی سوچ اور رویے کو اپنانے والا کوئی ہے؟ میرا اندازہ آپ سے مختلف نہیں ہے۔
امید نشہ آورچیزاور ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
(مصنف ایک فری لانس کالم نگار ہیں)
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News