
پاکستان کو اس سال تیل، قدرتی گیس اور کوئلے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد توانائی کی خریداری میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وزیر پیٹرولیم مصدق ملک کا یہ بڑا انکشاف کہ روس نے رعایتی قیمت پر پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کردی ہے ) مشکلات میں ( کمی کا وہ عارضی وقفہ ہے جس کی قوم شدت سے متلاشی ہے۔
وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ پاکستان مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی فراہمی کے لیے روسی فرموں کے ساتھ طویل المدتی سودوں پر بھی بات چیت کر رہا ہے۔یہ معاہدہ حکومت سے حکومت کی بنیاد پر ہوگا، جب کہ مصنوعات کی تفصیلات اور قیمتوں کے تعین سمیت طریقہ کار کو جنوری 2023 ء میں حتمی شکل دی جائے گی۔
مزید برآں، تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کا رجحان، آنے والے مہینوں میں معمول کے مطابق درآمدی بلوں کو پورا کرنے کی توقعات کا ایک اور محرک ہے۔
شرمن سیکیورٹیز میں توانائی کے شعبے کے تجزیہ کار فرحان محمود نے کہا کہ خام تیل اور تیل کی مصنوعات پر رعایت سے نہ صرف پاکستان کے توانائی کے بل میں کمی آئے گی بلکہ مقامی مصنوعات کی قیمتوں پر بھی اثر پڑے گا۔انہوں نے کہا،یورپی یونین کی حمایت سے G7 کی طرف سے روس کے سمندری خام تیل کی قیمت کی حالیہ حد 60 ڈالر فی بیرل مقرر کیے جانے کی بنیاد پر، پاکستان فریٹ آن بورڈ (FOB) قیمت کی حد 55 ڈالر سے 60 ڈالر فی بیرل کے درمیان ہونے کی امید کررہا ہوگا۔ اس طرح یہ سعودی عرب کے ہلکے خام تیل سے جس کے نرخ 86 ڈالر فی بیرل ہیں، سے 35 فیصد سستا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا، تاہم قیمتوں کے بارے میں تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے، کیونکہ اس کا انحصار جغرافیائی سیاست اور مصنوعات کی خصوصیات پر ہوتا ہے۔”
پاکستان میں توانائی کا بحران اس سال مزید گہرا ہوا ہے اور اب گھرانوں کے لیے قدرتی گیس کی فراہمی بہت محدود ہو جائے گی۔ گیس فراہم کرنے والی کمپنیاں پہلے ہی کئی کئی گھنٹوں تک فراہمی معطل کررہی ہیں۔ گزشتہ ماہ، وزارت پیٹرولیم کے ایک اہلکار نے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس اس موسم سرما میں قدرتی گیس کی فراہمی میں کمی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ گیس کی شدید قلت اور غیر ملکی کرنسی کے بحران سے دوچار بلحاظ آبادی دنیا کے پانچویں بڑے ملک میں گھرانوں کو کھانا پکانے کے لیے دن میں تین بار گیس فراہم کی جارہی ہے۔
پاکستان توانائی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے، کیونکہ وہ موجودہ بلند قیمتوں پر توانائی کی بہت سی مصنوعات درآمد کرنے کا متحمل نہیں ہے۔ مضبوط امریکی ڈالر اور ایل این جی کی آسمان کو چھوتی قیمتوں نے ملکی مالیاتی صورتحال کو دگرگوں کر دیا ہے، جب کہ اکتوبر 2022 ء میں زرمبادلہ کے ذخائر تین سال کی کم ترین سطح پر آ گئے۔
اینگرو کارپوریشن کے ایک اہلکار کے مطابق، پورٹ قاسم پر ان کا فلوٹنگ اسٹوریج اینڈ ری گیسیفیکیشن یونٹ (FSRU) دستیاب تھا لیکن رسد تسلسل کے ساتھ نہیں آ رہی تھی۔
اہلکار نے مزید کہا، “قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یورپی خریدار تیل کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقساط ادا کر رہے ہیں، جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اینگرو سمیت فرٹیلائزر پلانٹس کو بھی گیس کی فراہمی کے مسائل کا سامنا تھا، جس سے پیداوار کو نقصان پہنچ رہا تھا۔
ان کا کہنا تھا،”ملک شدت سے اضافی ایل این جی کارگوز کی تلاش میں ہے لیکن سیاسی عدم استحکام اور بین الاقوامی اسپاٹ مارکیٹ میں ایل این جی کی عدم دستیابی کے ساتھ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کے پیش نظر یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔”
ملک میں گیس کی طلب پہلے ہی بڑھنے لگی تھی اور آنے والے مہینوں میں قلت ریکارڈ سطح تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔
سوئی سدرن گیس کمپنی (SSGC) نے حال ہی میں مقامی صنعتوں کو سردیوں میں تین ماہ سے زیادہ کے لیے بندش کے نوٹسز” بھیجے، جنہیں بعد میں کمپنی نے یہ کہتے ہوئے منسوخ کردیا کہ گیس کی بندش سے بڑے پیمانے پر ملازمتیں ختم اور کاروبار بند ہو جائیں گے۔
گیس فراہم کرنے والی کمپنی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ سرکاری کمپنیاں گزشتہ ایک سال سے ایل این جی کارگو خریدنے کی کوشش کر رہی تھیں۔انہوں نے کہا،”لیکن ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی ہے، جو کہ غیر معمولی بات ہے اور اس سے عالمی سطح پر ایندھن کی قلت کی شدت اور اقتصادی بحران میں گھرے ہوئے ملک کو ایندھن فروخت کرنے میں توانائی کے فراہم کنندگان کی ہچکچاہٹ بھی ظاہر ہوتی ہے۔”
اس کے نتیجے میں، پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے اپنی مالی شرائط کو پورا کرنے کے لیے دباؤ کے درمیان توانائی کی شدید قلت، بار بار بلیک آؤٹ، بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں اور 20 فیصد سے زیادہ مہنگائی کا سامنا ہے۔
اے بی کور کے سی ای او خرم شہزاد کہتے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر بیٹھنا چاہیے، اتفاق رائے ہونا چاہیے اور ناقابل انتظام حالات سے بچنے کے لیے توانائی کی منصوبہ بندی، متبادلات، لاگت میں کمی اور کارکردگی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا،”حالات کے پیش نظر، حکام کو بازار کے اوقات کار مختصر کرنے کے احکامات نافذ کردینے چاہیئں۔ گیس اور ایندھن کے طویل مدتی معاہدے کرنے چاہیئں؛ علاوہ ازیں ترسیل اور تقسیم کے نقصانات کو کم اور سبسڈیز اور گردشی قرضوں میں کٹوتی کرنی چاہیے۔”
اب روسی تیل اور گیس کی طرف واپس آتے ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر سعودی عرب سے ہلکا خام تیل )لائٹ کروڈ (درآمد کرتا ہے، جب کہ مالی سال 23ء کے دوران اس کا خام تیل کا درآمدی بل ساڑھے چار ارب ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔
فرحان محمود کے مطابق اگر مقامی ریفائنریز 30 فیصد روسی تیل کو پروسس کریں اور خام تیل موجودہ نرخوں سے 20 فیصد سستا ہو تو پاکستان کا درآمدی بل سالانہ بنیادوں پر 30 سے 40 کروڑ ڈالر تک کم ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ “اگرچہ مقامی ریفائنریز مختلف گریڈ کے خام تیل کو پروسس کر سکتی ہیں، لیکن ہمارا زیادہ سے زیادہ 30 فیصد روسی خام تیل کا اندازہ ریفائنریز کے ساتھ بات چیت اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے ساتھ پہلے سے موجود معاہدے کے انتظامات پر مبنی ہے۔”
اس وقت پیٹرول اور ڈیزل کی درآمدی قیمت تقریباً 98 ڈالر فی بیرل اور 123 ڈالر فی بیرل ہے۔ پاکستان بالترتیب 60 ڈالر اور 85 ڈالر فی بیرل کی قیمت کی حد میں پیٹرول اور ڈیزل حاصل کرنے میں دلچسپی رکھے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو، مصنوعات کی لاگت موجودہ مصفی )ریفائنڈ(مصنوعات کی قیمتوں کے مقابلے میں 15 فیصد سستی ہوگی۔موجودہ قیمتوں پر، پاکستان کا تیل کی مصفی مصنوعات )ریفائنڈ آئل پروڈکٹ (کا درآمدی بل مالی سال 23 ء میں تقریباً 9ارب 50 کروڑ ڈالر ہوگا۔
تیل کی مروجہ قیمتوں پر، پاکستان اگر تیل کی مصفی مصنوعات کا 30 فیصد روسی مصنوعات سے بدلنے میں کامیاب ہوجائے تو سالانہ تقریباً 40 سے 55کروڑ ڈالر کی بچت کر سکتا ہے ۔
اگر روس پاکستان کو رعایتی خام تیل اور تیل کی مصنوعات فراہم کرنے پر راضی ہو جائے تو پاکستان مالی سال 23 ء میں متوقع کل توانائی کے بل کا 1 ارب ڈالر سالانہ، یا 6 فیصد کی بچت کر سکتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News