
ان دنوں طبی پیشے سے وابستہ افراد کوغیرمعمولی رجحان کا سامنا ہے، صحت کے حوالے سے مشورے کے لیے آنے والے مریضوں کی تعداد نصف رہ گئی ہے، کیونکہ آبادی کی اکثریت اتنی پسماندہ ہے کہ ڈاکٹروں کی فیس دینے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ اب وہ سیلزمین کو علامات بتا کرفارمیسی سے دوائیں خرید رہے ہیں۔
دوائیں مہنگی ہو سکتی ہیں اور اکثرکسی بھی خاندان کی صحت کی دیکھ بھال کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ان پر مشتمل ہوتا ہے۔ بالآخر، دواؤں، ڈاکٹرز کی فیس، جم کی رکنیت اور یہاں تک کہ متوازن غذا کے لیے رقم کی ادائیگی کے زیراثرعوام صحت کی ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔
گلشن ٹاؤن میں پریکٹس کرنے والے ایک نجی جنرل فزیشن نے بتایا کہ روزمرہ کی ضروریات جیسے کہ نقل و حمل اور رہائش کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے عوام کی اکثریت کے پاس اپنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے مناسب رقم کی گنجائش نہیں رہتی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے میں ایک روزمیں تقریبا 60 مریض دیکھتا تھا۔ اب ان کی تعداد 30 سے کم رہ گئی ہے۔ جب کہ میں بہت ہی مناسب فیس لیتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس میں زیادہ تعجب کی بات نہیں کہ زیادہ تر افراد پیسے بچانے کے لیے نسخے میں تجویز کی گئی مہنگی ادویات خریدنے سے گریز کرتے ہیں یا ڈاکٹر کی ہدایات انہیں استعمال نہیں کرتے۔
کورنگی میں ایک فارمیسی کے مالک شیخ سہیل نے بتایا کہ ادویات کی فروخت میں کمی ہوئی ہے، کیونکہ زیادہ تردوائیں کافی مہنگی ہو چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سردست ہمارے پاس ڈاکٹر کے نسخے بہت کم آ رہے ہیں۔ مریض براہ راست ہمارے پاس آکر اپنی علامات کے مطابق دوائیں مانگ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں،وہ اینٹی بائیوٹکس کی صورت میں آدھا کورس خریدنے پراصرارکرتے ہیں۔
شیخ سہیل نے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے سیلزنمائندوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مہنگائی اور بے روزگاری لوگوں کی جان لے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام روٹی خریدنے کے قابل نہیں ہیں، دوائیں تو بعد میں آتی ہیں۔
تخمینوں کے مطابق سالانہ بنیاد پرگزشتہ سہ ماہی میں دواؤں کی فروخت میں تقریباً 25 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ادارہ برائے شماریات پاکستان کے مطابق دسمبر 2022ء کے لیے ہیڈ لائن افراط زر 24اعشاریہ5 فیصد تک پہنچ گئی، جو دسمبر 2021ء میں بالترتیب 12اعشاریہ3 فیصد اورنومبر 2022ء میں 23اعشاریہ8 فیصد تھی۔ اس کے ساتھ مالی سال 2023ء کی پہلی ششماہی میں اوسط مہنگائی 25اعشاریہ02 فیصد پر پہنچ گئی، جب کہ مالی سال 2022ءکی پہلی ششماہی میں یہ 9اعشاریہ81 فیصد تھی۔
عارف حبیب لمیٹڈ کی ثنا توفیق نے نئے مالی سال کے آغازکے ساتھ مالی سال 2023ء کی دوسری ششماہی میں ہیڈ لائن افراط زرکے بلند رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ دباؤ بنیادی طور پرتوانائی کے نرخوں میں مزید اضافے، ڈالر کے مقابلے میں کمزورروپے اوراشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے سے پیدا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائرخطرناک حد تک کم ہو گئے ہیں۔اسٹیٹ بینک کے مطابق دسمبر میں پاکستان کے مجموعی لیکویڈٹی زرمبادلہ کے ذخائر 11اعشاریہ7 ارب ڈالر تھے جو کہ گزشتہ سال کے آغاز میں اس کے پاس رکھے گئے زرمبادلہ کے ذخائر کا نصف ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ نظرثانی کے عمل پر اختلافات کی وجہ سے ملک کی مالیات بھی متاثر ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے 1اعشاریہ1 ارب ڈالر کی بیل آؤٹ قسط کے اجراء میں تاخیر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کے تناسب کے علاوہ غربت کی لکیر سے نیچے جانے والے افراد کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اقتصادی بحران نے ملک کی لیبر مارکیٹ سے ملازمتوں کی بڑی تعداد کو ختم کر دیا ہے، جس سے عوام کی اکثریت خط غربت سے نیچے چلی گئی ہے، جیسا کہ ملک آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج سے منسلک شرائط کو نافذ کرنے کے لیے سخت اقدامات کررہا ہے۔
اس کے علاوہ، دوا ساز کمپنیاں ایک مختلف قسم کی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ طلب میں کمی کی وجہ سے فروخت اور آمدنی میں کمی آرہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ خام مال کی پیداوار اور بچی کھچی مانگ کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے عہدیدارڈاکٹرقیصروحید کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ دوا ساز کمپنیوں کی آمدنی میں کمی آرہی ہے جب کہ ادویات کے خام مال کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مارکیٹ میں پرنٹنگ اور پیکیجنگ میٹریل بھی دستیاب نہیں ہے، اس لیے کمپنیاں تیار ادویات کو بھی مارکیٹ میں فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
خیال رہے کہ بے وقت اور بڑے پیمانے پرچھانٹی کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل این) کی حکومت کو روزگارکے مواقعوں میں اچانک کمی کے مسئلے کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب، مرکزی بینک کی جانب سے معاشی سست روی کے 3 سے 4 فیصد تک پہنچنے کی توقع کے ساتھ کمپنیوں نے آسمان چھوتی مہنگائی اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں سے نمٹنے کے لیے لاگت میں کمی اور افرادی قوت کو کم کرنا شروع کر دیا ہے۔
ڈاکٹرقیصروحید نے کہا کہ معاشی حالت سے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں اوردوا سازی کی صنعت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مانگ کم ہو نے کے ساتھ ساتھ بازارمیں ادویات کی بھی کمی ہے۔ کمپنیاں خام مال درآمد کرنے اور پیداوار جاری رکھنے سے قاصر ہیں، جب کہ آسمان کو چھوتی مہنگائی لوگوں کی قوت خرید کو متاثر کررہی ہے۔
صنعت کے ایک اہلکار نے کہا کہ ملک میں دواساز اداروں نے چند کیمیائی مرکبات اورنمکیات کے جلد خراب ہونےکے اندیشے کے تحت یا شاید کچھ معاملات میں ناکارہ منصوبہ بندی کی وجہ سے خام مال کی بڑی انوینٹری نہیں رکھی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کے منفی اقدامات اوردواؤں کی قیمتوں کا تعین کرنے کے مؤثرطریقہ کار کی کمی کے ساتھ مل کرموجودہ معاشی عوامل دواسازی کی صنعت کے لیے اہم چیلنجز ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمپنیوں کو مقامی کرنسی کی قدر میں کمی اور بلند افراط زر کی وجہ سے لاگت میں نمایاں اضافہ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جس کے نتیجے میں منافع میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ایک مقامی دوا ساز کمپنی کے سیلزمینیجر اقبال احمد نے کہا کہ سال 2022ء کی آخری سہ ماہی میں دوا ساز اداروں کی آمدنی میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی نے دواؤں کی فروخت کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ شہری علاقوں میں اس کی وجہ خالصتاً قوت خرید میں کمی ہے۔ جب کہ دیہی علاقوں میں نقل و حمل کے زیادہ اخراجات اورپنجاب میں اسموگ نے دوردراز کےعلاقوں سے شہروں کا سفرمحدود کردیا، جہاں وہ عام طور پر علاج کے لیے آتے ہیں۔
ایک تھوک فروش نے بتایا کہ دوا سازکمپنیوں کی پیداوار پہلے ہی کم ہونا شروع ہو گئی ہے اور جلد ہی دواؤں کی قلت ہو جائے گی۔ چونکہ دوائیں پرائس کنٹرول کے تحت ہیں، لہٰذا، کمپنیاں زیادہ قیمتیں برداشت کرنے پرمجبورہیں، جس سے مستقبل میں ان کی دستیابی پرسوالات اٹھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے بعد بعض دوائیں میڈیکل اسٹورز سے غائب ہو سکتی ہیں، کیونکہ خام مال کی قیمتوں میں اضافے کے دوران کم منافع پرکام کرنے والی کمپنیاں دواؤں کی پیداوارجاری رکھنے کی حیثیت میں نہیں ہوں گی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News