Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سہارے چھیننے کی کوشش

Now Reading:

سہارے چھیننے کی کوشش

Advertisement

ملک کے زیادہ تر عوام نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو قبول کرنا شروع کردیا جس کے بعدقابل تجدید توانائی کے استعمال میں نمایاں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔اس کے ساتھ ہی بجلی کی جبری بندش اور اس کی بڑھتی ہوئی قیمت کے باعث صارفین کی جانب سے شمسی توانائی کے استعمال کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔

 موجودہ دور میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اخراجات کے باوجود دنیا کے بیشتر حصوں میں شمسی توانائی بجلی کے حصول کی سب سے سستی ترین شکل ہے۔ پینل تیار کرنے کی لاگت کے مسلسل کم ہونے کی وجہ سے ،یہ مزید سستی ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود صارفین حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے توانائی کے اس ماحول دوست اور کم لاگت کے ذریعے کی طرف جانے سے قاصر ہیں۔

رینیوایبل اینڈ آلٹرنیٹو انرجی ایسوسی ایشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین سید عثمان علی کا کہنا ہےکہ’ ’ اگست 2022ء سے لے کر اب تک سولر پینلز کی درآمد رکی ہوئی ہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ’ ’ سولر بیسڈ ڈسٹری بیوٹڈ جنریشن کو فروغ دینے کے حکومت کے تمام دعوؤں کے باوجود گزشتہ سال اگست سے ایک بھی منظوری نہیں ملی‘‘۔جولائی 2022ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی مصنوعات کی فہرست کو اپ ڈیٹ کیا جس کے لیے ’پیشگی اجازت‘ درکار ہوگی اور درآمد کے مقصد کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایک بینک کی طرف سے دوسرے بینک کو جاری کردہ خط،خاص طور پر بیرون ملک ، جومخصوص شرائط کے تحت ادائیگیوں کی ضمانت کے طور پر کام کرے)کو کھولا جاسکتا ہے۔ فہرست میں شامل کردہ مصنوعات میں سولر پینلز، انورٹرز اور بیٹریاں شامل ہیں۔

سید عثمان علی نے کہا کہ ’ ’چین میں ہمارے سپلائرز نے موخر ادائیگیوں پر سامان بھیجنے کی پیشکش کی ہے اور پھر بھی مہینوں میں ایک بھی کھیپ کلیئر نہیں ہوئی۔قابل تجدید صنعت میں بجلی کے مختلف ذرائع جیسے پن بجلی، ہوا، شمسی اور دیگر شامل ہیں ۔ بجلی کی مہنگی پیداوار کو کم کرنے اور مقامی وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے لیے شمسی توانائی کے منصوبوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

سولر پینل کے ریٹیلر(خوردہ فروش) اور انسٹالر انور کمال نے بتایا کہ ’ ’حال ہی میں اس کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہوا

 ہے ،عوام تقسیم شدہ جنریشن کی طرف بڑھ رہے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ’ ’ صنعتی یونٹس اور تجارتی مراکز بھی سولر سسٹم لگانا چاہتے ہیں لیکن کوئی انوینٹری(وہ سامان یا مواد جو خریدو و فروخت کےلیے کسی کارخانے میں کاروبار کرتا ہے) نہیں ہے‘‘۔

Advertisement

انور کمال نے مزید بتایا کہ ’ ’پابندیوں کی وجہ سے سولر پینل ایک قیمتی چیز بن چکے ہیں اور اب پریمیم پر فروخت ہو رہے ہیں۔ایک 10 کے وی سیٹ اپ جس کی قیمت 2021ء میں 5 لاکھ روپے تھی اب بڑھ کر ایک15 لاکھ روپے ہوچکی ہے۔ انور کمال کے مطابق سولر پاور کمپنیاں اپنے کاروبار بند کر رہی ہیں اور اس کاروبار سے وابستہ سیکڑوں افراد ملازمتوں سے ہاتھ دھوچکے ہیں‘‘ ۔

کسی بھی ملک کی معیشت میں میں بجلی کا شعبہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ طویل مدتی اور پائیدار ترقی کی جانب بڑھنے کےلیے یہ شعبہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ملک کی مطلوبہ اقتصادی ترقی کو حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کےلیے اس چیلنج سے نمٹنےکےلیے معیشت کے تمام شعبوں کو قابل اعتماد، پائیدار اور سستی بجلی کی خدمات فراہم کر کے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

توانائی کے تحفظ، خود انحصاری، استطاعت، پائیداری اور درآمدی ایندھن پر مبنی جنریشن پر انحصار میں کمی کو یقینی بنانے کے لیے مقامی توانائی کی فراہمی پر مبنی بجلی کے حصے کو بڑھانا بے حد ضروری ہوگیا ہے۔اس کے ساتھ ہی ملک کی پائیدار ترقی کے لیے صاف اور قابل تجدید توانائی کے وسائل کے بڑھتے ہوئے حصے کی بھی ضرورت محسوس کی جارہی ہے تاکہ واضح طور پر خطرات کی حامل موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنےکےلیے ماحولیاتی پائیداری کو یقینی بنایا جا سکے۔

مزید یہ کہ معیشت کے مختلف شعبوں میں تکنیکی انقلاب کے لیے بجلی کی منصوبہ بندی اور جدت کو اپنانے کی بھی ضرورت ہے۔ رینیوایبل اینڈ آلٹرنیٹو انرجی ایسوسی ایشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین سید عثمان علی نے کہا ہے کہ ’ ’ملک میں 2 اعشاریہ 3 گیگا واٹ کےمساوی سولر پینلز کی مانگ میں مسلسل اضافے کے باعث انہیں درآمد کیا گیا ہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ ’رواں سال پابندیوں کی وجہ سے درآمدات میں کمی آئی ہے۔اگر ایسی پابندیاں نہ لگائی گئی ہوتیں تو صرف سولر پینلز کی درآمد میں 6 سے 7 گیگا واٹ تک اضافہ کیا جاسکتا تھا ‘‘۔

سید عثمان علی کے خیال میں حکومت کو قابل تجدید توانائی کو ترجیح دیتے ہوئے سولر پینل کی درآمد میں سہولیات فراہم کرنی چاہیے۔ان کا کہنا ہےکہ عوام اس بنیادی انفراسٹرکچر میں اپنا پیسہ لگا رہے ہیں، جس سے بالآخر فائدہ حکومت کو ہی پہنچے گا اور گرڈ پر دباؤ مزید کم ہو گا، جس سے فوسل فیول کی درآمدات میں کمی آئے گی۔

سولر پینلز ری سائیکل اور پائیدار ہیں کیونکہ ان میں کوئی گرین ہاؤس گیسز شامل نہیں ہیں، جس کا مطلب ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں پر ان کے استعمال کے اثرات نہ ہونے کے برابر اور بعض صورتوں میں فائدہ مند بھی ہیں۔شمسی توانائی بھی بجلی پیدا کرنے کے لیے کسی قدرتی وسائل پر انحصار نہیں کرتی ۔ یہ سورج کی روشنی کی مدد سے کسی بھی وقت لامحدود طاقت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

Advertisement

سولر پاور پلانٹس کو ٹھنڈا رکھنے کےلیے بہت کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اسی وجہ سے خشک اور بنجر علاقوں میں یہ کامیابی سے لگائے جاسکتے ہیں ۔ شمسی توانائی کو طویل فاصلے پر منتقل کرنے کی ضرورت نہیں اور یہ کسی بھی طرح کا خطرناک فضلہ بھی خارج نہیں کرتی۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
بحیرہ عرب کا سمندری طوفان شکتی میں تبدیل، کراچی سمیت کئی اضلاع میں الرٹ جاری
حماس کو آخری وارننگ، اگر معاہدہ نہ ہوا تو قیامت برپا ہو گی، صدر ٹرمپ
جے ڈی سی کے ظفر عباس سے 14 کروڑ کا ماہانہ بھتہ مانگنے والا گروہ پکڑا گیا
بیانات نہیں، عملی اقدامات سے ہی غزہ میں امن آئے گا، اسحاق ڈار
پنجاب کا کونا کونا چمکائیں گے، صرف لاہور نہیں، ہر گاؤں ترقی کرے گا، مریم نواز
لاس اینجلس، ریفائنری میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی، جیٹ فیول کی فراہمی متاثر
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر