
پاکستان اس وقت دیوالیہ ہونے جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔ گزشتہ نو ماہ کے دوران غلط منصوبہ بندی کی گئی پالیسیوں نے ملک کو ایک ایسے موڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ بیرونی محاذ پر قرض ادا کرنے کی صلاحیت تقریباً کھو چکا ہے اور ملکی اقتصادی حالات بدتر ہو چکے ہیں۔ صنعتیں پیداوار بند کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پربے روزگاری پھیل رہی ہے۔ اگرچہ ہم وطن ہونے کے ناطے ہم پالیسی سازوں کے خلوص پر شک نہیں کر سکتے، لیکن ان کی مجموعی نا اہلی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
نو ماہ قبل ملک کی جی ڈی پی 6 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی تھی، کارخانے بھرپور طریقے سے کام کر رہے تھے اور زرمبادلہ کے کافی ذخائر قابل انتظام شرح مبادلہ کے ساتھ دستیاب تھے۔ لیکن اپریل 2022ء کے بعد سے ملک کوتاریک اقتصادی نقطہ نظر کا سامنا ہے، غیر ملکی شراکت داروں کا اعتماد ختم ہو گیا، اور سامان کی کھیپ بندرگاہوں پر رک گئی، کیونکہ بینک درآمدی رقم ادا کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں ترسیلات زر اور برآمدی آمدنی میں کمی آنے لگی، صنعتوں کو خام مال کی قلت کا سامنا ہے، جب کہ شرح سود میں اضافے سے معاشی سرگرمیاں روکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔
مزید برآں مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) ان سب کے باوجود حکام کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے ناخوش ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر کیے گئے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے کئی پالیسیوں اور فیصلوں نے معاشی نقطہ نظر کو بری طرح متاثر کیا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ( پی ڈی ایم) 20ستمبر 2020ء کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ایک تحریک کے طور پر تشکیل دی گئی تھی، جس نے ان کی حکومت پر ناقص طرز حکمرانی، مخالفین کو سیاسی شکار بنانے اور معیشت اور خارجہ پالیسی کو غلط طریقے سے چلانے کا الزام لگایا تھا۔
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے جی ڈی پی کی شرح نمو 3اعشاریہ94 فیصد کی تھی، جو نہ صرف گزشتہ دو سال (بالترتیب مالی سال 2020ء اور مالی سال 2019ء میں منفی0اعشاریہ47 فیصد اور 2اعشاریہ08 فیصد)سے کافی زیادہ ہے بلکہ پاکستان کے اقتصادی سروے کے مطابق شرح نمو (مالی سال 2021ء کیلئے2اعشاریہ1 فیصد) ہدف سے بھی آگے نکل گئی۔
10 اپریل 2022ء کو عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا۔ اس وقت جی ڈی پی 6 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی تھی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 17اعشاریہ028 ارب ڈالر تھے، جن میں سے مرکزی بینک کے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر 10اعشاریہ85 ارب ڈالر اور باقی 6اعشاریہ178 ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے پاس تھے۔
اس وقت مرکزی بینک کے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر 30 دسمبر 2022ء کو 5اعشاریہ576 ارب ڈالر کی سطح سے 6 جنوری 2023 ءکو ختم ہونے والے ہفتے تک گر کر صرف 4اعشاریہ34 ارب ڈالر رہ گئے۔
اس وقت سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر ایک ماہ کے درآمدی کور سے نیچے آگئے ہیں۔ دریں اثنا، پاکستان ادارہ برائے شماریات (PBS) کے مطابق دسمبر 2022ء کے لیے ملک کا درآمدی بل 5اعشاریہ16 ارب ڈالرریکارڈ کیا گیا۔ مرکزی بینک کے بینچ مارک زرمبادلہ کے ذخائر اس سطح پر ہونے چاہئیں جو تین ماہ کا درآمدی احاطہ فراہم کر سکیں۔
27 اگست 2021ء کو ختم ہونے والے ہفتے تک اسٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 20اعشاریہ146 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد سے مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں اب تک 16اعشاریہ803 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔
ملک کے زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر بھی 6 جنوری 2023ء کو ختم ہونے والے ہفتے تک 1اعشاریہ234 ارب ڈالر کم ہو کر 10اعشاریہ188 ارب ڈالر رہ گئے، جو ایک ہفتہ قبل تک 11اعشاریہ422 ارب ڈالر تھے۔
پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 27 اگست 2021ء کو 27اعشاریہ228 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔ تب سے اب تک زرمبادلہ کے ذخائر میں 17اعشاریہ04 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔
اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت بلند ترین سطح پر تھے،جب مخلوط حکومت 2021ء میں پی ٹی آئی کی حکومت کو ہٹانے کی بھرپور کوششیں کر رہی تھی۔
جب اپریل 2022ء میں پی ٹی آئی کی حکومت ہٹائی گئی تو ڈالر کے مقابلے میں زر مبادلہ کی شرح 184روپے 68 پیسے تھی۔ جب سے پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل-این) کی زیرقیادت مخلوط حکومت نے 11 اپریل 2022 ءکو اقتدار سنبھالا ہے، روپے کی قدر 24 فیصد گر کر 19 جنوری 2023ء کو ڈالر کے مقابلے میں 229روپے 15 پیسے تک پہنچ گئی۔ 28 جولائی 2022 ءکو مقامی کرنسی 239روپے 94 پیسے کی اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔
زرمبادلہ کے کافی ذخائر اور قابل انتظام شرح مبادلہ کے باوجود اتحادی حکومت نے 19 مئی 2022ء کو صرف ڈالر کے اخراج کو روکنے کے لیے سامان تعیش اور غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کر دی۔ گو کہ اس فیصلے کا اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا تاہم اس پابندی کے تحت کئی بنیادی صنعتی خام مال کی درآمد سے بھی رک گئی، جس سے صنعتی اور برآمدی شعبوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
پابندی کا مقصد ڈالر کے اخراج کو روکنا اور شرح مبادلہ میں استحکام لانا تھا۔ پابندی کے وقت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 16اعشاریہ149 ارب ڈالر تھے،جن میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 10اعشاریہ088 ارب ڈالر تھے۔ شرح تبادلہ 19 مئی 2022ء کو ڈالر کے مقابلے میں 200 روپے تھی۔
تاہم، اسٹیک ہولڈرز کی شدید تنقید اور آئی ایم ایف کے دباؤ کے بعد حکومت نے 20 اگست 2022ء کو پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا۔جس کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر اور شرح مبادلہ دونوں میں بڑے پیمانے پر کمی ریکارڈ کی گئی۔
ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 13اعشاریہ52 ارب ڈالر رہ گئے، جس میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 7اعشاریہ81 ارب ڈالر کی سطح پر آ گئے۔ 20 اگست 2022ء تک روپے کی قدر گرین بیک کے مقابلے میں 216اعشاریہ66 روپے تک گر گئی۔
علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک نے 25ہزار ڈالر سے زائد کے لیٹر آف کریڈٹ (LCs) کھولنے پر بھی شرائط عائد کیں، جس سے بنیادی خام مال کی درآمد میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور مقامی صنعتی پیداوار کو نقصان پہنچا۔
بعد ازاں اس حد کو بڑھا کر 50ہزار ڈالر اور پھر 1لاکھ ڈالر کر دیا گیا۔ اس کے باوجود بینک کنسائنمنٹس کو جاری کرنے کے لیے غیر ملکی کرنسی فراہم نہیں کر رہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد کے مطابق بندرگاہوں پر تقریباً 11ہزار درآمدی کنسائنمنٹس کی کلیئرنس زیر التواء ہیں۔
اسی طرح، 28 فروری 2022ء کو پی ٹی آئی حکومت نے عوام کو کچھ سہولت فراہم کرنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی خوردہ قیمتوں پر رعایت دی۔
پاکستان ادارہ برائے شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اپریل 2022ء میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح بڑھ کر 13اعشاریہ4 فیصد ہوگئی۔
تاہم بعد ازاں حکومت نے رعایت واپس لے لی جس کے نتیجے میں روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تازہ ترین سی پی آئی ریڈنگ سے پتہ چلتا ہے کہ دسمبر 2022ء میں ہیڈ لائن افراط زر بڑھ کر 24اعشاریہ5 فیصد ہو گیا۔ اسی دوران دسمبر 2022ء میں شہری اور دیہی علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بالترتیب 33 فیصد اور 38 فیصد اضافہ ہوا۔
چونکہ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے،چنانچہ اسٹیٹ بینک نےشرح سود بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
مرکزی بینک نے 8 مارچ 2022ء کو اپنے اعلان میں شرح سود کو 9اعشاریہ75 فیصد پر برقرار رکھا۔ تاہم، اگلے اجلاس میں، جب ملک سیاسی غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا تھا، اس نے شرح سود کو 250 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 12اعشاریہ25 فیصد کر دیا۔ اس کے بعد سے مرکزی بینک نے 25 نومبر 2022ء تک شرح سود کو 16 فیصد تک بڑھا دیا ہے۔ مارکیٹ پول کے مطابق مرکزی بینک اپنی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں 23 جنوری 2023ء کو شرح سود میں مزید 100 سے 200 بیسس پوائنٹس تک اضافہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
اگرچہ شرح سود میں غیر معمولی اضافہ مہنگائی کو روکنے کے لیے تھا،تاہم بادی النظر میں مرکزی بینک قیمتوں میں اضافے کو روکنے میں ناکام رہا۔ اس کے برعکس بلند شرح سود کے نتیجے میں نجی شعبے سے مہنگے قرضے لینے پڑے۔
مالی سال 2022/23ء کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران نجی شعبے کا قرضہ 33 فیصد کم ہو کر 703 ارب روپے رہ گیا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 1اعشاریہ04 ٹریلین روپے تھا۔
برآمدی ری فنانس کی شرح میں اضافے کے اسٹیٹ بینک کے فیصلے سے صنعتی پیداوار کی صلاحیت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ 29 دسمبر 2022ء کو مرکزی بینک نے ایک سرکلر کے ذریعے ایکسپورٹ فنانس اسکیم (EFS) اور طویل المدتی مالیاتی سہولت (LTFF) میں اضافہ کیا۔
اسٹیٹ بینک نے شرح سود، ای ایف ایس اور ایل ٹی ایف ایف کی شرحوں کے درمیان فرق کو موجودہ 5 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’اس کے مطابق ای ایف ایس اور ایل ٹی ایف ایف کے تحت فنانس کے لیے سود کی شرحیں موجودہ 11 فیصدسالانہ سے بڑھ کر 13 فیصدسالانہ ہو گئی ہیں جو 30 دسمبر 2022ء سے لاگو ہیں۔‘‘
ان فیصلوں نے صنعتی پیداوار کو مفلوج کر دیا۔
ایس بی پی کے مطابق بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) نے مالی سال 2021/22ء میں 10اعشاریہ5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا۔ تاہم، اس زمرے کے تحت صنعتی ترقی نومبر 2022ء میں 5اعشاریہ49 فیصد گر گئی۔
ہوسکتا ہے کہ حکومت ادائیگیوں کے توازن کی پوزیشن میں بہتری کو ترجیح دے رہی ہو ، لیکن گرتی ہوئی برآمدات اور تارکین وطن کی ترسیلات زر کی قیمت پر کسی حد تک وہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
مالی سال 2022/23ء کے جولائی تا دسمبر کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو کر 3اعشاریہ67 ارب ڈالر رہ گیا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 9اعشاریہ09 ارب ڈالر تھا۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کی وجہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران درآمدی بل میں 23 فیصد کمی کے ساتھ 31اعشاریہ24 ارب ڈالر تک گرنا ہے، جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی ششماہی میں یہ 40اعشاریہ56 ارب ڈالر تھا۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اور مرکزی بینک نے درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے مشترکہ کوششیں کیں۔ تاہم، درآمدات کو کم کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں برآمدات کی وصولیاں بھی کم ہوئیں۔
جولائی تا دسمبر 2022/23ء میں ملک کی برآمدات 6 فیصد کم ہو کر 14اعشاریہ26 ارب ڈالر رہ گئیں، جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 15اعشاریہ12 ارب ڈالر تھیں۔
عارف حبیب لمیٹڈ کی ایک تجزیہ کار ثناء توفیق نے کہا کہ ترسیلات زر ادائیگی کے توازن کا ایک اہم جزو ہیں، کیونکہ مالی سال 2022/23 ءکی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) میں تارکین وطن کی ترسیلات زر میں 11 فیصد کمی واقع ہوئی۔
اسٹیٹ بینک کو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 15اعشاریہ81 ارب ڈالر کی آمد کے مقابلے میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران 14ا عشاریہ05 ارب ڈالر موصول ہوئے۔
دریں اثنا، دسمبر 2022ء میں تارکین وطن کی ترسیلات زر میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 19 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ دسمبر 2022ء میں ملک کو 2اعشاریہ04 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 2اعشاریہ52 ارب ڈالر تھیں۔
موجودہ حکومت پر عدم اعتماد اور بگڑتے معاشی و سیاسی حالات کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں بھی تیزی سے کمی آئی۔ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری میں 181 فیصد کی زبردست کمی ریکارڈ کی گئی۔
مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحت ملک نے گزشتہ مالی سال کی اسی ششماہی میں 709 ملین ڈالر کی آمد کے مقابلے میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران 571 ملین ڈالر کا اخراج ریکارڈ کیا۔
مالی سال 2022/23ء کے جولائی تا دسمبر کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 59 فیصد کمی کے ساتھ 461 ملین ڈالر تک پہنچ گئی، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 1اعشاریہ11 ارب ڈالر تھی۔
اس وقت جولائی تا ستمبر 2022/23ء کے دوران قرضے اور واجبات 24 فیصد تیزی سے بڑھ کر 62اعشاریہ46 ٹریلین روپے ہو گئے، جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 50اعشاریہ49 ارب روپے تھے۔ تاہم، ادائیگیوں کے ساتھ ملک کا غیر ملکی قرضہ 30 ستمبر 2022ء تک کم ہو کر 97اعشاریہ21 ارب ڈالر ہو گیا، جبکہ 30 ستمبر 2021ء تک یہ 99اعشاریہ72 ارب ڈالر تھا۔
ملک کی مالی صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور محدود وسائل کے ساتھ آنے والی بیرونی ادائیگیوں کی وجہ سے منظرنامہ تاریک ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News