
سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے منیجنگ ڈائریکٹر عمران مانیار نے کہا کہ گیس کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے مشکلات کے باوجود صارفین کی سہولت کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ’’ایس ایس جی سی ایک تقسیم کار کمپنی ہے اور گیس کی پیداوار کے لیے دیگر کمپنیاں بھی ہیں۔ لیکن، ہم سپلائی کو بہتر کر رہے ہیں۔‘‘
ایس ایس جی سی اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) دونوں نے سردیوں کے موسم کے لیے مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) سلنڈر فروخت کرنا شروع کردیے ہیں، سلنڈر کی قیمت 7 ہزار روپے جب کہ اس میں موجود گیس کی قیمت 2 ہزار 350 روپے ہے۔ اکتوبر 2022ء میں سوئی گیس کمپنیوں نے ایندھن کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے ماہانہ 20 ہزار ٹن ایل پی جی درآمد کرنے کا اعلان کیا۔
شمالی ایشیا میں معتدل موسم اور قدرتی گیس کی طلب میں کمی کی وجہ سے ایشیا کی مارکیٹ میں مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی قیمتیں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 10 اعشاریہ 7 فیصد کم ہوئیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اسپاٹ ایل این جی کارگو کی قیمتوں میں حالیہ کمی کے باوجود، طلب اب بھی کم ہے۔
ان حقائق سے قطع نظر، پاکستان کا مسئلہ قیمتوں کا نہیں بلکہ ادائیگیوں کے لیے ڈالر کی عدم دستیابی ہے۔ سخت درآمدی پابندیوں کے باوجود اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 4 اعشاریہ 343 ارب ڈالر تک گر گئے جو کہ درآمدی کور کے ایک ماہ سے بھی کم ہے۔
غیر ملکی کرنسی کے بحران نے ایل این جی کی خریداری سمیت تمام شعبوں پر منفی اثر ڈالا ہے جو پہلے ہی اضافی قیمتوں اور یورپ میں بڑھی ہوئی طلب کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھے۔
پاکستان گیس کی 30 فیصد ضروریات ایل این جی کی درآمد سے پوری کرتا ہے۔ جولائی تا نومبر 2022ء کے دوران ملک نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی گیس درآمد کی تھی۔
جب کہ گھریلو صارفین گیس کی شدید بندش کا سامنا کر رہے ہیں، ایس ایس جی سی نے تمام 780 کیپٹیو پاور پلانٹس کو سپلائی روک دی۔
ایس ایس جی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ امید ہے کہ کیپٹیو پاور پلانٹس کو گیس کی سپلائی اگلے چند ماہ میں بحال کر دی جائے گی۔ موسم سرما 2022ء و 2023ء کے لیے ملک میں گیس کے خسارے کا تخمینہ 1 اعشاریہ 35 ارب کیوبک فٹ فی دن لگایا گیا ہے۔
ایس این جی پی ایل سسٹم میں گیس کی دستیابی 2 ہزار 100 سے 2 ہزار 500 ملین کیوبک فٹ کی طلب کے مقابلے میں 1 ہزار 520 ملین کیوبک فٹ (مقامی گیس کی 770 ملین کیوبک فٹ اور ری گیسیفائیڈ مائع قدرتی گیس کی 750 ملین کیوبک فٹ) کی حد میں ہے۔
اسی طرح، ایس ایس جی سی سسٹم میں ایندھن کی دستیابی 1 ہزار 250 سے 1 ہزار 500 ایم ایم سی ایف ڈی کی طلب کے مقابلے میں 925 سے ایک ہزار ایم ایم سی ایف ڈی کی حد میں ہوگی۔
توانائی کی سپلائی چین کا گردشی قرضہ ایک دائمی مسئلہ ہے جس نے نہ صرف توانائی کے شعبے کی سپلائی چین کو متاثر کیا بلکہ استعداد اور ترقی کو محدود کر دیا ہے۔
وزارت توانائی نے گیس کے گردشی قرضے کی ادائیگی کے لیے منصوبے کا آغاز کر دیا ہے۔ سب سے پہلے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس کی قیمتوں میں 70 فیصد سے زائد اضافے کی تجویز دی اور سمری وفاقی حکومت کو ارسال کردی۔
ایس این جی پی ایل صارفین کے لیے تجویز کردہ اضافہ 406 اعشاریہ 28 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور ایس ایس جی سی صارفین کے لیے 469 اعشاریہ 28 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ گیس کی نئی قیمتوں کا اطلاق وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد ہوگا۔
اطلاعات کے مطابق گیس کے کل 1 اعشاریہ 5 ٹریلین روپے کے گردشی قرضے میں سے 850 ارب روپے مختلف توانائی کمپنیوں کے خلاف وصولیوں اور ادائیگیوں کی کراس ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے بیلنس شیٹ میں طے کیے جائیں گے جب کہ باقی 650 ارب روپے کا تصفیہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے کیا جائے گا۔
آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی (او جی ڈی سی)، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) اور پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) سمیت پاکستان کے سب سے بڑے بنیادی توانائی فراہم کرنے والے ادارے گیس کے کل گردشی قرضے میں 70 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالتے ہیں۔
شرمین سیکیورٹیز کے فرحان محمود نے کہا کہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ 850 ارب روپے کے تصفیے کے لیے کچھ وقت چاہتی ہے کیونکہ متعدد ادارے اس میں شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ’’اس کے علاوہ، 650 ارب روپے کے گیس سرکلر ڈیٹ سیٹلمنٹ کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام شعبوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں 120 فیصد اضافہ کیا جائے۔ اس اقدام کے لیے کافی ہمت درکار ہوگی کیونکہ حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ شاید حکومت گیس کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافہ کرے گی۔‘‘
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر توانائی کے بحران اور گزشتہ چند سالوں میں گیس کی بین الاقوامی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے پیش نظر گھریلو گیس صارفین کے لیے قیمتوں کو معقول بنانے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے بنگلہ دیش ایک مثالی ملک ہے جہاں یہی مسائل سامنے آئے کیونکہ یہ ملک بھی پاکستان کی طرح اپنی گیس کی ضروریات کے 30 فیصد کے لیے ایل این جی پر انحصار کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش گھریلو استعمال کے لیے ایک ہی گیس سلیب استعمال کرتا ہے جو کہ عام پاکستانی صارفین کی مقامی کرنسی میں ادائیگی کے مقابلے 300 فیصد زیادہ مہنگا ہے۔ جب کہ گزشتہ 10 سالوں میں گھریلو گیس کی کم از کم قیمتوں میں پاکستان میں صرف 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ سستی پائپ لائن گیس تک رسائی والے 11 ملین گھرانوں میں سے صرف 30 فیصد (زیادہ تر شہری علاقوں میں) اس پر انحصار کرتے ہیں۔
آبادی کی اکثریت کا انحصار دیگر مہنگے حرارتی ایندھن پر ہے، مثلاً لکڑی، مٹی کا تیل اور ایل پی جی۔
محمود نے کہا کہ گھریلو شعبے کے علاوہ حکومت کو کھاد کی صنعت کے لیے گیس کی قیمتوں میں کم از کم 200 فیصد اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا، ’’اس طرح کھاد اور گھریلو صارفین دونوں ہی کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گیس کے گردشی قرضے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ فیڈ اور فیول گیس دونوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مقامی یوریا کی قیمتیں تقریباً 700 روپے فی بیگ تک بڑھ جائیں گی۔ اس صورت میں بھی یوریا کی مقامی قیمتیں بین الاقوامی قیمتوں کے مقابلے میں کم ہوں گی۔‘‘
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مستقبل میں وصولیوں کو روکنے کے لیے، حکومت کو WACOG بل کی منظوری اور اس پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے جو فروری 2022ء سے معدوم ہے۔
اے کے ڈی سیکیورٹیز کے حسن علی نے کہا کہ واکوگ بل بنیادی طور پر گیس صارفین کے لیے سپلائی کی یکساں شرح لے کر آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ، ’’درآمد شدہ آر ایل این جی اور دیسی گیس کے وزن کی بنیاد پر، یہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے قدرتی گیس کے صارفین پر ایل این جی پر منتقلی کا بوجھ کم کرتا ہے۔‘‘
بجلی کی بچت کے حوالے سے حکومت نے کاروباری مراکز اور بازاروں کو ہر روز جلد بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان اپنی زیادہ تر بجلی درآمد شدہ ایندھن سے پیدا کرتا ہے۔ گزشتہ سال ملک کے پہلے سے کم ہوتے مالیات پر توانائی کی عالمی قیمتوں میں اضافے نے مزید دباؤ ڈالا۔
دریں اثنا، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران تیل کے ایندھن کی فروخت مجموعی طور پر 90 لاکھ ٹن رہی جو کہ 13 فیصد کم ہے۔ یہ کمی بنیادی طور پر معاشی بدحالی، تیل کی بلند قیمتوں، بجلی کی پیداوار کے دیگر ذرائع سے فرنس آئل کی تبدیلی، اور خود مختار بجلی پیدا کرنے والوں میں موسمی طلب میں کمی کی وجہ سے ہوئی۔
آگے بڑھتے ہوئے، عالمی منڈی میں پیٹرولیم کی بڑھی ہوئی قیمتوں، معاشی سرگرمیوں میں سست روی، تنزلی کا شکار زراعت اور بڑے پیمانے کی پیداوار (ایل ایس ایم) کی نمو اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے درمیان آٹو سیلز میں کمی کی وجہ سے فروخت کے حجم میں کوئی بھی اضافہ محدود رہے گا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News