
کاروباری اداروں کی جانب سے حکومت کو منی بجٹ پیش کرنے پرتنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، بالخصوص صنعت کوپیداواری سرگرمیاں بند کرنے پرمجبور کرنے والے یوٹیلیٹی چارجزمیں اضافے کے تناظر میں اس سے تجارت اورصنعت کے لیے مزید مشکلات جنم لیں گی۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدرعرفان اقبال شیخ نے نئے ٹیکسوں، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے، برآمدات پرمبنی صنعتوں کے لیے جائزمراعات کے منصوبوں سے دستبرداری، سکڑاؤ اورکساد بازاری کے اقدامات کے ذریعے معیشت کو مزید سست کرنے کے حوالے سے تاجربرادری کے مجموعی مسائل اورخدشات کا اظہارکیا۔انہوں نے کہا کہ اگربرآمدات مسلسل متاثر ہوتی رہیں توادائیگیاں توازن میں نہیں رہیں گی۔ کرنٹ اکاؤنٹ تیزی سے بگڑے گا۔ ذخائر میں اضافہ پیچیدہ رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریونیو کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا اورروزگار کے مواقع کی پیداوارسب سے کم رہے گی۔
عرفان اقبال شیخ نے نشاندہی کی کہ ’’حکومت کو برآمد کنندگان کو مہنگائی تلے کچلنا نہیں چاہیے، کیونکہ یہی حقیقی ہیروہیں، جو ملک کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کماتے ہیں۔‘‘اعلیٰ تجارتی ادارے نے حکومت کو منی بجٹ میں کاروبار، صنعت اور تجارتی برادری کے ساتھ مشاورت نہ کرنے پرتنقید کا نشانہ بنایا – جو معیشت اور ٹیکس نظام کے حقیقی اسٹیک ہولڈرز، اقتصادی ترقی، روزگارکے مواقع پیدا کرنے والے اورآمدنی پیدا کرنے کے حقیقی انجن ہیں۔
ایف پی سی سی آئی کے سربراہ نے مزید کہا کہ ’’اگر ہم سے مشورہ کیا جاتا تو ہم آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے زیادہ عملی یا غیرجارحانہ اندازمیں حکومت سے تعاون کرسکتے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کاروباری برادری کو 1اعشاریہ2 ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کے لیے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت قرض پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل درآمد کے لیے منی بجٹ میں اعلان کردہ 170 ارب روپے سے زیادہ ٹیکس کے اقدامات پر تشویش ہے۔ ادائیگیوں کے توازن کا بحران، ایک ایسا قدم ہو سکتا ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد طارق یوسف نے کہا کہ منی بجٹ کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی اور معیشت کی صورتحال مزید بگڑجائے گی، اس کے ساتھ ساتھ اس پر ناقابل برداشت دباؤ پڑے گا۔ عام آدمی اور کاروبار جو حکومت کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کو ایک فیصد بڑھا کر 18 فیصد کرنے کے بعد شدید بحران کا شکار ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’’جی ایس ٹی میں اضافے کے فیصلے سے غریب عوام کے لیے تمام اشیا مہنگی ہوجائیں گی جو پہلے ہی روزانہ پیٹ بھرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، جب کہ صنعتیں اورکاروبار، جو پہلے ہی مختلف مسائل کی وجہ سے مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے، اس کے اثرات کو برداشت نہیں کرپائیں گے۔ منی بجٹ میں کاروبار مخالف اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔
محمد طارق یوسف نے خدشہ ظاہر کیا کہ پیٹرولیم اوربجلی کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کی وجہ سے معاشی سست روی مزید شدید ہو جائے گی، خاص طور پربرآمدی شعبے کی سبسڈی واپس لینے سے بجلی کے نرخوں میں تقریباً 80 سے 85 فیصد تک اضافہ ہو جائے گا، جو کہ نقصان دہ ہو گا۔
انہوں نے تبصرہ کیا کہ’’یقینی طورپراس پرنظرثانی کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس سے برآمدی شعبے کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگایا جاسکے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے پہلے ہی گیس کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر 124 فیصد تک اضافے کا نوٹیفکیشن کیا ہے اورحتیٰ کہ عام صنعت کے لیے گیس کی قیمت میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جس سے پیداواری شعبے میں کاروبار کرنے کی لاگت بڑھ جائے گی۔
محمد طارق یوسف نے کہا کہ بڑے پیمانے پرمینوفیکچرنگ (LSM) پہلے ہی دسمبر 2022ء میں گھٹ کر 3اعشاریہ5 فیصد تک پہنچ گئی تھی، جو رواں مالی سال میں چھٹے ماہانہ زوال کی نشاندہی کرتی ہے۔
کے سی سی آئی کے صدر نے مزید کہا کہ ’’نتیجتاً، بھارت اوربنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کی علاقائی مسابقت متاثرہورہی ہے، جس سے پاکستان کی اقتصادی ترقی منفی طورپرمتاثرہو رہی ہے، جس کی بین الاقوامی ایجنسیوں نے رواں مالی سال میں 2 فیصد کے نشان سے نیچے جانے کی پیش گوئی کی ہے، جوکہ پہلے 5اعشاریہ97 فیصد تھی۔
ان کے مطابق، یہ صورت حال مہنگائی کے دباؤ میں بڑے پیمانے پر اضافے کا باعث بنے گی، جس کا مقابلہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں 19 سے 20 فیصد تک اضافے کے ذریعے کیا جائے گا۔ نتیجے کے طور پر ملک جمود کے بدترین مرحلے کا تجربہ کررہا ہے، جس کی وجہ سے میکرو اکنامک اور ریونیو نمو پر منفی اثر پڑتا ہے اور موجودہ مالی سال میں کمزوریوں کو ظاہر کرتاہے ۔
انہوں نے کہا کہ’’اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اس طرح کے اقدامات خالص ٹیکس وصولی کے فرق کو کم کر سکیں کیونکہ روپے کے لحاظ سے ٹیکس کی وصولی درآمدی مرحلے پر 20 فیصد کم ہو گئی ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) 20 فیصد زیادہ جمع کر سکے گا۔ لہذا، اگر ریونیو بورڈ ہدف کو عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو اصل ٹیکس وصولی کم ہوجائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ آمدنی بجٹ کی آمدنی نہیں ہے،بلکہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے جمع ہوئی ہے، ہم درخواست کرنا چاہیں گے کہ اس آمدنی کو ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو کے طورپرنہ سمجھا جائے اورحکومت ڈیوٹیز کا تخمینہ لگانے کے لیے درآمدی مرحلے پر، مثال کے طور پرچلو ہم کہتے ہیں کہ 230 روپے فی ڈالرکی قیمت طے کرے، جو یقینی طور پر مہنگائی کے رجحانات پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو گا۔‘‘
نیشنل بزنس گروپ (این بی جی) کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ’’اگرچہ حکومت کی جانب سے لیے گئے اقدامات کے نتیجے میں افراط زر، پیداواری لاگت اورتوانائی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت نے بجا طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کیا ہے ورنہ ملک دیوالیہ ہوجاتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرحکومت نے ملک کو دیوالیہ کرنے کا انتخاب کیا تو ایسے حالات میں ملک مزید منفی صورتحال کا سامنا کرے گا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ سخت فیصلے لینے کے بعد حکومت آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام کو حتمی شکل دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’’آئی ایم ایف کی جانب سے 1اعشاریہ2 ارب ڈالر کی قسط کے اجراء سے ملک کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائراور بین الاقوامی درجہ بندی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔‘‘
کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر فراز الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر زور دیا کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں کیونکہ اس کے نتیجے میں صنعت مکمل طورپربند ہوجائے گی۔بڑے اخراجات پرحکومت پرتنقید کرتے ہوئے انہوں نے مشورہ دیا کہ کفایت شعاری کے اقدامات سےعوام پربوجھ کم ہوگا۔
جنوری 2023ء میں مہنگائی پہلے ہی آسمان کو چھو تے ہوئے 27اعشاریہ6 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو گزشتہ سال 13 فیصد تھی اور اب جی ایس ٹی، پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو اشیائے خوردونوش کی قیمتیں ناقابل برداشت سطح تک پہنچ جائیں گی۔
کاٹی کے سربراہ نے حکومت کوچارٹر آف اکانومی کی تجویز بھی دی کیونکہ اتفاق رائے پیدا کیے بغیر معاشی بحران کا کوئی حل نہیں ملے گا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News