
اگرچہ گزشتہ ایک سال میں جائیداد (خالی پلاٹوں) کی قیمتوں میں 20 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے،تاہم تعمیراتی لاگت میں کئی گنا اضافے کے باعث اب بھی زیادہ تر لوگوں کے لیے ذاتی رہائش کا ایک ناقابل تعبیر خواب بنا ہوا ہے۔
سولجر بازار کے علاقے میں رہنے والے ایک کرایہ دار عامر قریشی نے بتایا کہ میں نے چھ سال قبل ایک اپارٹمنٹ بک کیا تھا، اس کا قبضہ تقریباً ایک سال قبل حوالے کیا جانا تھا، لیکن میں ابھی تک کرائے کے گھر میں مقیم ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’منصوبے پر کام روک دیا گیا ہے اور بلڈر نرخوں پر نظر ثانی کرنے پر اصرار کر رہا ہے، جبکہ اپارٹمنٹ مالکان اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ بلڈر کی تعمیراتی لاگت بڑھ گئی ہے لیکن میرے جیسے الاٹی اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ میں پہلے ہی ایک سال سے ہر ماہ کرایہ ادا کر رہا ہوں، جس سے بچا جا سکتا تھا اگر پروجیکٹ وقت پر مکمل کرکے حوالے کردیا جاتا۔‘‘
عامر قریشی ایک عام شہری ہیں، جو لاتعداد سماجی اور سیاسی و اقتصادی حالات کا شکار ہیں،جو گزشتہ سال سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بدنام زمانہ ووٹ سے ایک سال قبل شروع ہوئے تھے۔
مختلف تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور موجودہ تعمیراتی معاہدوں کے ناقابل عمل ہونے کے بعد دیگر صنعتوں کی طرح تعمیراتی شعبہ بھی زوال پذیر ہے۔
ذاتی گھرعام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے۔ اس طرح، گھر بنانے والوں کا اعتماد ڈوب گیا ہے، کیونکہ بڑھتی ہوئی شرح سود، اشیاء کی بلند قیمتیں اور روپے کی قدر میں کمی مکانات کی طلب کو مسلسل کمزور کرتی جا رہی ہے۔
ایم اے این کنسٹرکشن کنٹریکٹرز کے نعمان یعقوب نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں تعمیراتی صنعت میں تیزی آئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ’’یہ واحد صنعت تھی، جو کوویڈ 19کے دوران جاری رہی، اور اس نے معاشی پہیے کو رواں رکھا۔ لیکن موجودہ حکومت نے انڈسٹری کی بہتری کے لیے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جاری منصوبوں پر کام بھی رک گیا ہے۔نعمان یعقوب نے مزید کہا کہ اگر حکومت سیمنٹ اوراسٹیل کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے اقدامات کرتی ہے اور تعمیراتی شعبے کو سہولیات فراہم کرتی ہے تو تعمیراتی شعبے کا پہیے دوبارہ گھومنے لگے گا۔
کیمبرج رئیل اسٹیٹ اینڈ کنسٹرکشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) فضل الٰہی نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں صرف تعمیراتی لاگت میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ’’اسٹیل، جو گزشتہ برس 1لاکھ25ہزار روپے فی ٹن تھا اب 2لاکھ50ہزار روپے فی ٹن میں دستیاب ہے۔ اسی طرح سینیٹری فٹنگس، ٹائلز اور دیگر لوازمات کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔
فضل الٰہی کے مطابق بلڈرز نے تعمیراتی لاگت میں اضافے کے بعد فروخت کی قیمت بڑھا دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر، میں نے ایک اپارٹمنٹ چار سالہ اقساط کے منصوبے پر ایک کروڑ روپے میں فروخت کیا۔لیکن، اب گھر کی لاگت ڈیڑھ کروڑ روپے ہے۔لہٰذا تقریباً تمام منصوبوں پر کام رکا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ’’حال ہی میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے اجلاس میں ہم نے اس مسئلے پربات کی۔ یہ ہم سب کیلئے مشکل وقت ہے۔‘‘
خیال رہے کہ حال ہی میں رہائش کی طلب میں نمایاں کمی آئی ہے۔حیران کن طور پر جائیداد کی قیمت (خالی پلاٹ) ایک سال سے نیچے کی طرف جارہی ہے۔
نعمان یعقوب نے کہا کہ پلاٹ زیادہ منافع اور کم ٹیکسیشن اور ضوابط کی وجہ سے سب سے محفوظ سرمایہ کاری ہوا کرتے تھے۔ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد بھی اس شعبے میں زیادہ تر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر، رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سیکٹر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی آمد کا بنیادی وصول کنندہ رہا ہے۔ اگرچہ، کوئی صحیح اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں، پھر بھی دنیا بھر سے کروڑوں ڈالر رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں آتے تھے۔
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ’’عوام،بالخصوص بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنا پیسہ منتقل کررہے ہیں اور مائع اثاثوں جیسے کہ سونا، غیر ملکی کرنسی، نوادرات اور گھڑیوں کی صورت میں لے جا رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے غیرملکی ادائیگیوں میں دیوالیہ اور بدترصورتحال سے خوفزدہ، ان تارکین وطن نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا بند کر دی ہے، جس کی عکاسی گرتی ہوئی غیر ملکی ترسیلات زر سے بھی ہوتی ہے۔
فضل الٰہی کے لیے غلط پالیسیوں اور حد سے زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے سرمایہ کار پراپرٹی کے کاروبار سے پیسہ باہر نکل رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پیسہ اب سونے، زرمبادلہ اور آف شور اثاثوں میں جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر طرح کی جائیداد کے لین دین پر 7 فیصد کیپٹل گین ٹیکس (سی جی ٹی) لگایا گیا تھا۔ اس سے پہلے، تین سلیب تھے اور تین سال تک جائیداد پر قبضہ رکھنے کے بعد سی جی ٹی سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔لیکن اب ٹیکس زیادہ اور منافع کم ہے۔ سرمایہ کار منافع بخش مواقع کی طرف رخ کر رہے ہیں۔‘‘
ایک پریس کانفرنس میں، آباد نے لوہے اور اسٹیل کی ہمہ وقتی بلند قیمتوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پڑوسی ممالک کے ساتھ بارٹر درآمد کی اہمیت پر زور دیا۔
آباد کے چیئرمین الطاف تائی نے کہا کہ تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بلڈرز اور ڈیولپرز نے اپنے منصوبوں پر کام روک دیا ہے اور حکومت کو تجویز دی کہ موجودہ صورتحال میں بہتری لانے کے لیے ہمسایہ ممالک سے بارٹر پر تعمیراتی سامان کی درآمد کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے حکومت کو سرمایہ دوسرے ممالک میں منتقل کرنے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے صورتحال کو بہتر نہ کیا تو بلڈرز اور ڈویلپرز کے پاس اپنا سرمایہ دوسرے ممالک میں منتقل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ پاکستان کی معیشت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
گلوبل ڈیٹا کے مطابق، 2021ء میں پاکستان کی تعمیراتی مارکیٹ کا حجم 18اعشاریہ5 ارب ڈالر تھا۔ 2023/26 کی مدت کے دوران مارکیٹ میں 5 فیصد کی اوسط سالانہ ترقی کی شرح (AAGR) سے بڑھنے کی توقع ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News