Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

مشکل سے نکلنے کا آسان راستہ!

Now Reading:

مشکل سے نکلنے کا آسان راستہ!

Advertisement

پاکستان مسلم لیگ (ن)کی زیرقیادت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت نےعوام پر 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس کے نفاذ کے ذریعے اضافی آمدنی پیدا کرکے معاشی بحران سے نکلنے کا آسان راستہ منتخب کیا ہے۔

بجلی کی بلند قیمتوں کے تلے پسے عوام کو اب کھپت کے ٹیکس کا نیا جھٹکا لگایا جارہا ہے۔

حکمران جماعت نے حال ہی میں متعارف کرائے گئے منی بجٹ میں سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ 15 فروری 2023ء کو منی بجٹ پیش کرنے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ نئے محصولاتی اقدامات سے غریب طبقہ متاثر نہیں ہوگا۔

اس کے ساتھ ہی ضمنی فنانس بل پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’حکومت نے اشیائے تعیش کی درآمد پر جنرل سیلز ٹیکس کو موجودہ 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے، جب کہ مجموعی طور پر جی ایس ٹی کو موجودہ 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دیا گیا ہے۔

سیلز ٹیکس ایک کھپت ٹیکس ہے اور یہ ہر اس شے پر لگایا جا رہا ہے، جسے صارف خریدتا ہے۔ پاکستان میں وفاقی حکومت کو اشیاء پر سیلز ٹیکس وصول کرنے کا حق حاصل ہے، جب کہ صوبائی حکومتوں کو خدمات پر سیلز ٹیکس وصول کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ 18 فیصد سیلز ٹیکس کے اطلاق کے بعد ہر چیز مہنگی ہو جائے گی۔

Advertisement

کے ٹریڈ ریسرچ کے تجزیہ کار یوسف رحمان نے کہا کہ حکومت کا مقصد منی بجٹ کے ذریعے 170 ارب روپے اکٹھا کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ’’اس کا مقصد سیلز ٹیکس میں اضافے کے ذریعے 65 ارب روپے اکٹھا کرنا ہے، جو مہنگائی کے دباؤ میں اضافہ کرے گا۔‘‘

اطلاعات کے مطابق، حکومت نے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کے تحت قرض پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے کہنے پر ایسے سخت محصولاتی اقدامات کیے ہیں۔ تاہم، آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے حال ہی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے ایسے کسی بھی اقدام کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے ایک غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ایسے اقدامات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ جو پاکستان کو ایک ملک کے طور پر کام کرنے کے قابل ہونے کے لیے لینے کی ضرورت ہے اور وہ اس خطرناک  مقام پر نہ پہنچے جہاں اسے اپنے قرض کی تنظیم نو کی ضرورت پیش آئے۔

انہوں نے اچھی آمدنی والے افراد پرٹیکس عائد کرکے آمدنی بڑھانے اور تقسیم کے منصفانہ نظام کو یقینی بنانے پرزور دیا۔

کرسٹینا جارجیوا نے کہا کہ ’’ہم دو چیزوں پر زور دے رہے ہیں، نمبر ایک ٹیکس ریونیو،اچھا پیسہ کمانے والے پبلک اور نجی شعبہ، وہ لوگ جو دے سکتے ہیں، انہیں معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اور دوسرا، صرف مستحق افراد کو سبسڈی کی منتقلی کے ذریعے دباؤ کی منصفانہ تقسیم کرنا ۔ ایسا نہ ہو کہ سبسڈی سے امیر مستفید ہوں۔ غریبوں کو ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘‘

Advertisement

ماہرین اقتصادیات نے وزیروں اور مشیروں کی فوج پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کی بجائے غریب عوام پر بوجھ ڈالنے پر حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے فنانس اور ریونیو کے ترجمان مزمل اسلم نے آئی ایم ایف کی سربراہ سے اتفاق کیا اور کہا کہ ان کے بیان سے آئی ایم ایف اورحکام کے مؤقف میں فرق ظاہر ہوتا ہے۔

انہوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار پرکڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اضافی سیلز ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس اور اضافی ڈیوٹیز جیسے آسان اہداف پرٹیکس لگانے کے ماہر ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو ٹیکس نہ دینے والوں پر ٹیکس لگانا چاہیے۔ لیکن انہوں نے منی بجٹ کے ذریعے ان لوگوں پربہت بڑا بوجھ ڈال دیا جو پہلے ہی ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

مزمل اسلم کے مطابق پی ڈی ایم حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے معیشت بہت خطرے میں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’پہلے، انہوں نے (پی ڈی ایم حکومت) نے درآمدات پرپابندی عائد کر دی، جس کے نتیجے میں بندرگاہوں پر کنٹینرز کے ڈھیر لگ گئے اورصنعتی شعبے کے لیے خام مال کی قلت پیدا ہو گئی۔‘‘

Advertisement

انہوں نے کہا کہ اب منی بجٹ کی پیش کرنے کے بعد غیرمنصوبہ بند ٹیکسوں کے نفاذ سے مزید خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے۔

ایک سرکردہ ماہرمعاشیات اورسرمایہ کاری کی مشاورتی فرم الفا بیٹا کور کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) خرم شہزاد نے کہا کہ بہتر ہو گا کہ وزراء کی تعداد 30 سے کم کر دی جائے۔

ان کے بقول، ابھی بھی کوئی سخت فیصلے نہیں کیے ہیں، حتیٰ کہ انہیں ادراک بھی نہیں، بس زیادہ تر لیپا پوتی کی ہے، جب کہ ہمیں ایسے سخت فیصلوں کی ضرورت ہے، جو بڑے پیمانے پر ہوں، کم از کم 1 ٹریلین روپے کی مالی گنجائش پیدا کرنے کے لیے کافی ہوں، سیلز ٹیکس، توانائی اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ جیسے آسان کام کے لیے تو سیکشن آفیسرہی کافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’دیگر فیصلوں کے علاوہ سخت فیصلوں میں سرکاری ملکیت والے اداروں کو بند کرنا (کم از کم کل 212 میں سے کچھ)، خوردہ شعبے (2اعشاریہ5 ملین اسٹورز) پر ٹیکس لگانا، زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانا اور ان تمام نان ٹیکسز پر ٹیکس لگانا جو سفر کرتے ہیں، ہوٹلنگ کرتے ہیں، گولف کھیلتے ہیں، بڑی جائیدادیں رکھتے ہیں اور کوئی ٹیکس نہیں دیتے، فوجی اخراجات میں کمی، حکومت کے سویلین اخراجات، جن میں سالانہ 600 ارب روپے کی کھپت ہوتی ہے، صوبوں سے ٹکرانے والی وزارتوں کو بند کرنا، جرمانے اورکارروائیوں کے ذریعے شام 6 بجے سختی سے مارکیٹیں بند کرنا،12 لاکھ روپے سالانہ جیسی بڑی پینشن پرٹیکس لگانا، بیوروکریٹس، ججوں اور جرنیلوں پر یکساں ٹیکس لگانا، ان کی مراعات اور استحقاق ختم کرنا شامل ہیں۔

کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن (KTBA) کے صدر ریحان حسن جعفری نے کہا کہ ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) کے ذریعے سیلز ٹیکس میں اضافہ غیر قانونی ہے، کیونکہ یہ پارلیمنٹ میں منی بجٹ پیش کرنے سے ایک دن قبل جاری کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مزیدبرآں، ٹیکس کی شرحوں میں ترامیم کا اطلاق صدر اور دونوں ایوانوں سے ضمنی مالیاتی بل کی منظوری کے بعد منظوری کے دن سے ہونا چاہیے۔

Advertisement

کے ٹی بی اے کے صدر کے مطابق، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ملکی سامان اور درآمدی سامان دونوں پرسیلزٹیکس وصول کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے سے ملکی اشیاء کے ساتھ ساتھ درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام پیک شدہ اشیاء سیلز ٹیکس کے نفاذ سے مشروط ہیں۔ تاہم، پیکیجنگ کے بغیر فروخت ہونے والی بنیادی اشیاء سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ لہٰذا، روزمرہ استعمال کی اشیاء، بشمول گندم، چاول، دودھ، دالیں اور گوشت کو کھپت ٹیکس سے مستثنیٰ رہیں گی۔

یاد رہے کہ سیلز ٹیکس کے نفاذ سے قبل 16 فروری 2023ء کوختم ہونے والے ہفتے تک مہنگائی گزشتہ سال کے مقابلے  سال بہ سال کی بنیاد پر38 فیصد بڑھ گئی۔

متعددتجزیہ کار اس پراتفاق ہے کہ سیلز ٹیکس عائد کرنے سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
بیانات نہیں، عملی اقدامات سے ہی غزہ میں امن آئے گا، اسحاق ڈار
پنجاب کا کونا کونا چمکائیں گے، صرف لاہور نہیں، ہر گاؤں ترقی کرے گا، مریم نواز
لاس اینجلس، ریفائنری میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی، جیٹ فیول کی فراہمی متاثر
اٹلی، غزہ فلوٹیلا کی حمایت میں ملک گیر ہڑتال، ٹرین اور بندرگاہوں کا نظام درہم برہم
صحافیوں کے سوالات پر بھارتی ایئر چیف خاموش، بھارتی دفاعی بیانیہ ایک بار پھر بدنام
آج سونے اور چاندی کی قیمت کیا رہی؟ جانیے
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر