Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

اسٹیٹ بینک مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ پرمالیاتی سختی جاری رکھے گا

Now Reading:

اسٹیٹ بینک مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ پرمالیاتی سختی جاری رکھے گا

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مالیاتی سختی اور روپے کی قدر میں کمی کے اثرات سے افراط زر کے بلند رہنے کی توقع ہے، جو کہ آئندہ چند ماہ میں 30 فیصد سے زیادہ اور مالی سال 2022/23 میں اوسطاً 27 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔

عارف حبیب لمیٹڈ کے تجزیہ کار کا اس بابت کہنا ہے کہ اس پس منظر میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایک سخت مالیاتی پالیسی برقراررکھنے اورمالی سال کی چوتھی سہ ماہی سے بتدریج نرمی کے ساتھ جون 2023ء سے پہلے شرح سود میں مزید 100 سے 200 بیسز پوائنٹس تک اضافہ متوقع ہے، جیسے جیسے مہنگائی کا دباؤ کم ہوتا ہے۔

ان کا اندازہ ہے کہ مزید مالی اورمالیاتی سختی کے بعد رواں مالی سال کی جی ڈی پی نمو 23/2022 میں 5اعشاریہ97 فیصد کے مقابلے میں 1اعشاریہ1 فیصد تک گرجائے گی۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے عملے کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں اضافی محصولات جیسے کہ پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں اضافہ، درآمدات پر فلڈ لیوی اور بینکوں پر اضافی ٹیکس وغیرہ سمیت مالیاتی فرق کو دور کرنے پر توجہ مرکوزہے۔

مزید برآں، 675 ارب روپے کی سبسڈی کی حد سے تجاوز کو دور کرنا اور بجلی اور گیس کے گردشی قرضوں کا حل فنڈ کے دیگر اہم مطالبات ہیں۔

Advertisement

تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ حکومت کو اب سے سال کے آخر کے درمیان زیادہ تراضافی ٹیکسوں اورانتظامی اقدامات کو نافذ کرنے کے لیے محدود وقت دیا گیا ہے۔ مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 6اعشاریہ8 فیصد پر رہنے کا امکان ہے، جو کہ مجموعی بجٹ کے 4اعشاریہ9 فیصد سے زائد ہے۔

تجزیہ کاروں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے نویں جائزے کے دوبارہ شروع ہونے میں مسلسل تاخیر نے میکرو اکنامک بنیادی اصولوں کو مزید ابتر کردیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر 3اعشاریہ086 ارب ڈالر کی خطرناک حد تک کم سطح پرآ گئے ہیں جو کہ تین ہفتوں کی درآمدات سے بھی کم کا احاطہ کرتےہیں۔

اگرچہ کافی تاخیر کے بعد آئی ایم ایف کی واپسی مثبت اقدام ہے، تاہم، پاکستان کو اپنی میکرو اکنامک کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی غیر یقینی صورتحال اورآئندہ تین سال کے دوران بیرونی ادائیگیوں کی بڑی ذمہ داریوں کے درمیان قرضوں کی تنظیم نو کی بات پھر سے زور پکڑ رہی ہے۔تجزیہ کاروں نے کہا کہ اگرہم پاکستان کے مستقبل کے بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں کے اعدادوشمار پرنظرڈالیں تو تشویش کا بڑا حصہ قلیل المدتی دوطرفہ اور تجارتی قرضوں کے 13 ارب ڈالرسالانہ نئی شرائط پر تجدید سے متعلق ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کوانٹم پرتاریخی طورپر قرضوں کی تجدید گزشتہ پانچ سال میں چارگنا بڑھ گئی ہے اور طویل المدت میں اس کی دوبارہ پروفائلنگ سے گنجائش کی بہت زیادہ ضرورت پیدا ہوجائے گی۔

22 دسمبر 2022ء کوجاری ہونے والی اپنی گزشتہ رپورٹ ’’آئی ایم ایف طویل مدت کے لیے یہاں ہے‘‘ میں تجزیہ کاروں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں کہ وہ طویل مدت تک آئی ایم ایف کے ساتھ منسلک رہے تاکہ وہ اپنی درمیانی سے طویل مدتی بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں کو ادا کرسکے۔

دوست ممالک سے 13 ارب ڈالر کے قلیل المدتی دو طرفہ اورتجارتی قرضوں کی دوبارہ پروفائلنگ مؤثر طریقے سے گنجائش پیدا کرنے اور ہمارے مالیاتی گھر کو درست کرنے کے لیے کم خلل ڈالنے والا آپشن ہے۔

اس نے کہا کہ اس طرح کا لین دین صرف اس وقت ممکن ہوگا جب پاکستان عام انتخابات کے بعد ممکنہ اسٹینڈ بائی معاہدے جیسے طویل المدتی معاہدے پر دستخط کرتا ہے، جو اکتوبر 2023ء میں ہونے والے ہیں۔

Advertisement

دو طرفہ قرض دہندگان نے واضح طور پرکہا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی نگرانی میں رہنے کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ وہ اضافی فنڈنگ یا بیرونی امداد کے لیے تیارہوں۔

کئی ماہ تک مصنوعی طریقوں سے زر مبادلہ کی شرح کو سنبھالنے کے بعد آخر کار حکومت نے مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی اہم پیشگی شرط کو قبول کر لیا، جس سے جنوری کے آخر میں روپیہ آزادانہ فلوٹ(غیرمستحکم قدر) کا موقع ملا۔

اس کی وجہ سے روپے کی قدر 25 جنوری 2023ء سے اب تک مجموعی طور پر 17 فیصد تک گر گئی اورمقامی کرنسی غیر مستحکم رہی، کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل نئی نچلی سطح کو چھو رہے ہیں۔

9 فروری تک آئی ایم ایف فنڈ کے ساتھ جاری مذاکرات اوراہم مالیاتی اصلاحات پر ہونے والے مذاکرات کے پیش نظر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ روپیہ مختصر مدت تک اتار چڑھاؤ کا شکار رہے گا، جب کہ آئی ایم ایف کے جائزے کے اختتام اوردیگر دو طرفہ اور کثیر جہتی بہاؤ شروع ہونے کے بعد یہ مستحکم ہو جائے گا۔

بیرونی ذخائر کی پوزیشن میں نمایاں بگاڑ کے پیش نظر اورتجارتی قرضوں کے 2 ارب ڈالر سے زائد کی تجدید جو پہلے سے متوقع تھی، تجزیہ کارجون 2023ء اور دسمبر 2023ء میں روپیہ بمقابلہ ڈالر کے کلوزنگ ریٹ بالترتیب 275 اور 290 تک جانے کی توقع ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
تمباکو اب بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، ترجمان صدر مملکت مرتضیٰ سولنگی
صدر مملکت سے وزیراعظم کی اہم ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی
مصطفیٰ کمال کی سعودی ہم منصب فہد بن عبدالرحمن سے ملاقات، باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
افغان جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کر رہے ہیں ، خواجہ آصف
انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع
بغیر ڈرائیور خودکار ٹیکسی لندن میں کب چلیں گی؟ گوگل نے بتا دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر