بین الاقوامی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے سخت شرائط رکھی ہیں، جس میں بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، محصولات اور اخراجات کے درمیان مالیاتی فرق کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس میں ہر قسم کی نرمی کو واپس لینا اور نئے ٹیکسوں کا نفاذ شامل ہیں۔
مجموعی طور پر، بین الاقوامی ڈونر ایجنسی نے 600 سے 800 ارب روپے کی حد میں اضافی ریونیو اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
آئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر اور ان کی ٹیم کے ارکان نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے حکام کے ساتھ ایک انتہائی شدید اور مشکل بات چیت کا آغاز کیا، مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 3اعشاریہ086 ارب ڈالر تک کم ہو چکے ہیں، جو صرف تین ہفتوں کی درآمدات کے لیے کافی ہے۔
آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عملدرآمد یقینی طور پر مخلوط حکومت کی مقبولیت کو متاثر کرے گا۔
وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ نہ صرف 850 ارب روپے مالیت کے پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کی وصولی کرے بلکہ تمام پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس بھی عائد کرے، اس کے علاوہ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل آئل پر ٹیکس کی شرح کو بھی پیٹرول اور ایچ ایس ڈی کی قیمتوں کے برابر لایا جائے۔
سیلز ٹیکس کے نفاذ سے پیٹرولیم کی قیمتوں میں 27 روپے فی لیٹر اضافہ متوقع ہے۔
محصولات کی طرف، آئی ایم ایف برآمدی شعبے کو فراہم کی گئی 110 ارب روپے کی سبسڈیز اور ٹیکس چھوٹ واپس لینا چاہتا ہے اور تمام شعبوں پر سیلز ٹیکس کو 17 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے، جو کہ اوسطاً 11 فیصد ہے۔
ذرائع کے مطابق خام مال اور پرتعیش اشیاء کی درآمد پر ایک سے تین فیصد فلڈ لیوی بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کو نان فائلرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں بڑے پیمانے پر اضافے کی تجویز بھی دی ہے۔
آئی ایم ایف مشن نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی کارکردگی پر بھی مایوسی کا اظہار کیا اور محصولات کے ہدف کو 7 اعشاریہ 47 ٹریلین روپے سے بڑھا کر 8 اعشاریہ 2 ٹریلین روپے کرنے کا مطالبہ کیا۔
وزارت خزانہ کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ 25 فیصد سے زائد مہنگائی کے ساتھ 21 فیصد کا اضافہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اور یہ کسی بھی طرح کوئی کامیابی نہیں ہے۔
اہلکار نے مزید کہا، ’’یہ ٹیکس سے جی ڈی پی کے تناسب کو 8 فیصد کی موجودہ سطح سے بڑھا کر 9 فیصد کرنا چاہتا ہے، جو قیمت کے لحاظ سے ایک فیصد، یا 800 ارب روپے کا اضافہ ہے۔‘‘
مشن نے یہ بھی تجویز کیا کہ حکومت بینکنگ شعبے کے زر مبادلہ کی شرح میں ہیرا پھیری اور بعض ودہولڈنگ ٹیکسوں کی شرحوں میں اضافے کے ذریعے کمائے جانے والے بڑے منافع سے 65 سے 70 فیصد ٹیکس کی کٹوتی کے لیے ایک اور لیوی عائد کرے۔
دریں اثنا، آئی ایم ایف کے جائزہ مشن نے نظرثانی شدہ سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان (سی ڈی ایم پی) کو مسترد کر دیا ہے اور حکومت سے کہا ہے کہ وہ بجلی کے نرخوں میں 12 اعشاریہ 50 روپے فی یونٹ اضافہ کرے تاکہ موجودہ مالی سال کے لیے اضافی سبسڈی کو 335 ارب روپے تک محدود کیا جا سکے۔
انہوں نے نظر ثانی شدہ سی ڈی ایم پی کو غیر حقیقت پسندانہ اور بعض غلط مفروضوں پر مبنی قرار دیا۔ اس لیے حکومت کو اپنے پالیسی نسخے میں مزید تبدیلیاں لانی ہوں گی تاکہ کیش بلیڈنگ پاور سیکٹر کے نقصانات کو محدود کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ مالیاتی محاذ پر ایک روڈ میپ تیار کریں گے جس کے تحت مختلف اضافی ٹیکس کے اقدامات کو حتمی شکل دی جائے گی اور آئندہ منی بجٹ میں ان کا اعلان کیا جائے گا۔
1 اعشاریہ 526 ٹریلین روپے کے پہلے کے تخمینہ کے مقابلے میں، نظرثانی شدہ سی ڈی ایم پی نے رواں مالی سال کے لیے گردشی قرضے میں 952 ارب روپے کے اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔ 2023ء کی پہلی دو سہ ماہیوں میں سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے بجلی کے نرخوں میں 7 روپے فی یونٹ تک اور جون سے اگست کی تیسری سہ ماہی کے لیے 1 اعشاریہ 64 روپے تک اضافے کے باوجود، حکومت نے اپنی نظرثانی شدہ سی ڈی ایم پی آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام کے ساتھ شیئر کی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کو 675 ارب روپے کی اضافی سبسڈی کی ضرورت ہے۔
اہلکار نے مزید کہا، ’’آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں 11 روپے سے 12 اعشاریہ 50 روپے فی یونٹ تک اضافہ کیا جائے تاکہ اضافی سبسڈی کی ضرورت کو موجودہ مالی سال کے لیے 675 ارب روپے کی موجودہ سطح سے کم کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف صارفین کے لیے سبسڈی سلیب کو موجودہ 300 یونٹس سے گھٹا کر صرف 100 یونٹ کرنا چاہتا ہے۔
جائزہ مشن نے رواں مالی سال کے لیے 675 ارب روپے کی اضافی سبسڈی کے حساب سے بھی سوالات اٹھائے۔ حکومت نے نظرثانی شدہ سی ڈی ایم پی کا حساب لگانے کے لیے شرح مبادلہ کو کم کیا ہے، اس لیے موجودہ شرح کے ساتھ منصوبے کو تبدیل کیا جائے گا۔
نظرثانی شدہ سی ڈی ایم پی رواں مالی سال کے دوران بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نقصانات کو اوسطاً 16 اعشاریہ 27 فیصد تک محدود کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
حکومت نے گزشتہ موسم گرما میں موخر کیے گئے فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) چارجز کی وصولی کے ہدف کا تصور کیا تھا تاکہ گزشتہ موسم گرما کے موقع پر 65 ارب روپے کے تخمینے کے مقابلے میں 20 ارب روپے حاصل ہو سکیں۔
انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) اسٹاک کی ادائیگی سے مارک اپ کی بچت سے 11 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) اور دیگر ٹیکسوں کی وصولی کی بنیاد پر رواں مالی سال میں 18 ارب روپے کی وصولی میں مدد ملے گی۔
گردشی قرضے کا تخمینہ مالی سال 2023ء کے اختتام تک 2 اعشاریہ 113 ٹریلین روپے کے لگ بھگ رہنے کا ہے، جس میں پاور ہولڈنگ لمیٹڈ (پی ایچ ایل) میں رکھی گئی رقم، 765 ارب روپے اور بجلی پیدا کرنے والوں کو ایک ہزار 248 ارب روپے اور ایندھن فراہم کرنے والوں کو 100 ارب روپے کی ادائیگی شامل ہے۔
گیس کے شعبے میں گردشی قرضے پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا کہ وہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے تجویز کردہ 74 فیصد اضافے پر مکمل عمل درآمد کرتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ کرے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق 40 دن میں ہونا ہے جو 10 فروری کو ختم ہو جائے گا۔
ذرائع کے مطابق حکومت ترمیم شدہ فنانس بل کو 8 فروری تک دونوں ایوانوں میں منظوری کے لیے پیش کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ مستقبل میں اپوزیشن یا کسی دوسری سیاسی جماعت کو الزام تراشی کا موقع نہ مل سکے۔
عہدیدار نے کہا کہ ’’اس وقت تمام اتحادی جماعتیں اور حتیٰ کہ اپوزیشن بھی جانتی ہے کہ آئی ایم ایف ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی آخری امید ہے لہٰذا اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘‘
اقتصادی امور ڈویژن (ای اے ڈی) کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران 22 اعشاریہ 6 ارب ڈالر کے مجموعی تخمینہ کے مقابلے میں 5 اعشاریہ 59 ارب ڈالر کا قرض حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال 2021ء تا 2022ء کے دوران اسی مدت میں 9 اعشاریہ 13 ارب ڈالر کے قرضوں اور گرانٹس کی کل تقسیم حاصل کی تھی۔
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ بجلی کی پیداوار کی لاگت زیادہ ہے جب کہ وصولی کم ہے، یعنی ملک اب سبسڈی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت صرف صارفین پر بوجھ نہیں ڈالے گی اور اشرافیہ اور متمول طبقے کو بھی بجلی کی پیداوار کی پوری قیمت ادا کرکے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ پاور ڈویژن نے گردشی قرضوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنا منصوبہ پیش کیا ہے۔
بات چیت کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستان سے سرکاری ملازمین کے اثاثوں کے اعلان کے قوانین میں ترمیم کا مطالبہ بھی کیا ہے جس میں ججز اور مسلح افواج کے اہلکار بھی شامل تھے۔
ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سرکاری ملازمین کے اثاثوں کا عوامی اعلان چاہتا ہے، اس نے بیوروکریسی، ججز اور جرنیلوں کے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات بھی مانگی ہیں۔
بینک اکاؤنٹ کھولنے سے پہلے بیوروکریٹس کے اثاثوں کی انکوائری کی جائے گی، ذرائع کا کہنا ہے کہ بینکوں کو ایسی معلومات ایف بی آر سے ملیں گی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کھلے عام اعتراف کیا ہے کہ آئی ایم ایف کا وفد وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم کو ٹف ٹائم دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس وقت ہمارا معاشی چیلنج ناقابل تصور ہے۔ ہمیں (آئی ایم ایف کا جائزہ مکمل کرنے کے لیے) جو شرائط پوری کرنی ہیں وہ تصور سے باہر ہیں۔‘‘
تاہم، وزیر اعظم نے پشاور میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے پاس شرائط کو نافذ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
سینئر ماہر معاشیات ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کافی سخت ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’آئی ایم ایف کے مطالبات قدرے سخت ہیں لیکن موجودہ حکومت اور سابقہ حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کا اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ جائز ہے کیونکہ ہمارے وزراء، بیوروکریٹس، ججز اور جرنیل جن مراعات اور دیگر سہولیات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، وہ بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ نہ تو موجودہ حکومت اور نہ ہی پچھلی آنے والی کسی بھی حکومت نے آئی ایم ایف کے قائم کردہ اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ آنے والی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بجلی اور گیس کے شعبوں کے گردشی قرضے میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’وفاقی اور صوبائی محکموں کی اکثریت پاور کمپنیوں کے اربوں روپے کے مقروض ہے لیکن انہیں بلاتعطل بجلی ملتی ہے، جبکہ صارفین کو آئی پی پیز کو اس بجلی کے لیے کیپیسٹی چارجز ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو انہوں نے کبھی استعمال نہیں کی۔‘‘
ڈاکٹر حق کے مطابق 80 سے زائد اراکین پر مشتمل کابینہ کا وزیراعظم عوام سے کفایت شعاری کے اقدامات کو اپنانے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔
اندازوں کے مطابق آئی ٹی سیکٹر کی کچھ کمپنیوں نے ٹیکس کے پیچیدہ معاملات کی وجہ سے 5 سے 25 ارب ڈالر بیرون ممالک میں رکھے ہیں۔
ڈاکٹر حق کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کا خاتمہ اور مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹانا ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کی بنیادی وجوہات ہیں۔
اس دوران، پاکستان اور آئی ایم ایف اگلے دو دنوں میں تکنیکی سطح پر بات چیت جاری رکھیں گے۔ اس کے بعد مالیاتی اور اقتصادی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) دستاویز کو اگلے ہفتے حتمی شکل دینے کے لیے پالیسی کی سطح پر بات چیت ہوگی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News