
ایک تجربہ کار اور عملی سیاست دان چوہدری پرویز الٰہی نے بہت احسن طریقے سے وزیراعلیٰ پنجاب کی نشست سنبھالی ہوئی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی شاید اس حوالے سے کم پریشان ہوں گے جتنا کہ وہ اپریل میں تھے جب ان کی پارٹی وفاق اور پنجاب میں اقتدار سے محروم ہو گئی تھی۔ 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کے بعد پرویز الٰہی کے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب نے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں سیاسی منظر نامے کو مستحکم کر دیا ہے۔ اور اس دوران بڑی سیاسی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے شریفوں کا سیاسی گڑھ لاہور اب ان کا نہیں رہا۔
پنجاب میں وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ ن کی عبوری حکومت بمشکل دو ماہ ، تین ہفتے چل سکی لیکن اس نے وفاق میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت کو شدید نقصان پہنچایا ہے جب کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے 20 میں سے 16 صوبائی نشستیں کھو دی ہیں جو پارٹی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔
مسلم لیگ (ن) طویل عرصے سے شمالی اور وسطی پنجاب میں مقبول ترین جماعت رہی ہے اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ 20 میں سے 16 سیٹیں جیت لے گی لیکن شریفوں کے آبائی شہر لاہور میں پارٹی کو ایسے وقت میں تین میں سے صرف ایک حلقے میں کامیابی ملی جب صوبائی اور وفاقی انتظامیہ ان کی اپنی تھی جب کہ ن لیگ کو بعض حلقوں میں 10 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے بڑے فرق سے شکست ہوئی۔
ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آنے پر ’لاہور کو شریف خاندان کا قلعہ قرار‘ دینے والی افواہیں بھی دم توڑ گئیں۔ شریفوں نے گزشتہ تین دہائیوں میں 5 مختلف مواقع پر 20 سال تک پنجاب پر حکومت کی اور اپنی سیاسی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے صوبائی ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ صوبائی دارالحکومت لاہور پر خرچ کیا۔ اس شہر میں انہوں نے ایک زمانے کی مقبول ترین لیڈر بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کا تقریباً صفایا کردیا تھا تاہم اس وقت عمران خان نے لاہور کو شریفوں سے چھین لیا ہے۔
لاہور کا کھونا شریفوں کے لیے کوئی چھوٹا دھچکا نہیں کیوں کہ لاہور ہی باقی پنجاب کی سیاست کا فیصلہ کرتا ہے ۔ شہر میں شریفوں کی گرتی ہوئی سیاسی مقبولیت نہ صرف جولائی کے ضمنی انتخاب کے نتائج بلکہ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے منعقد کیے گئے عوامی اجتماعات میں بھی نظر آئی۔
لبرٹی چوک پر عمران خان کے ہزاروں پرجوش حامیوں کا بڑا ہجوم اکھٹا ہوا، جسے التحریر چوک (مصر) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں پی ٹی آئی کے اکثر اجتماعات ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی وہاں اپنی قسمت آزمائی، لیکن وہ عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔
مسلم لیگ (ن) نے 24 جولائی کو لبرٹی چوک میں ایک عوامی تقریب کا اہتمام کیا اور ہجوم کو کھینچنے کے لیے اللہ رکھا پیپسی عرف پانی پوری جیسے مزاحیہ فنکاروں کو لایا لیکن اس کے باوجود پنڈال تقریباً خالی تھا۔ تقریب میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے بھی بہت کم تعداد میں شرکت کی۔
پی ٹی آئی نے اب تک لاہور میں سیاسی طاقت کے مظاہرے میں تسلسل برقرار رکھا ہے۔ یوم آزادی سے پہلے کی رات، عمران خان نے مون سون کے گرم موسم میں ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ ایک ہنگامہ خیز ہجوم سے خطاب کیا۔ عمران خان کے اس خطاب کو یوٹیوب پر 80 لاکھ سے زائد صارفین نے دیکھا۔ اس کے برعکس اسی شام وزیراعظم شہباز شریف کے قوم سے خطاب کو صرف ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پی ٹی آئی کے جلسوں کی کوریج کرنے والا ایک بڑا نیوز چینل آف ائیر ہے اور صرف ایک یا دو چینل پی ٹی آئی کے شوز اور پریس کانفرنسز کی کوریج کر رہے ہیں۔ عمران خان کا بیانیہ عوام میں زیادہ مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ یہ عوامی مزاج کو کنٹرول کرنے میں ریاست کی طاقت کی حدود کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
عمران خان کی عہدے سے برطرفی کے بعد ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے عوامل کو ایک طرف رکھیں تو یہ بات عیاں ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین ریاستی آلات کو استعمال کرنے کے باوجود انہیں عوام میں شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔ عمران خان نئی نسل کے سب سے مقبول رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کی اپیلیں علاقائی اور نسلی تقسیم کو ختم کرتی ہیں۔ پشاور سے لاہور اور کراچی تک کوئی اور لیڈر اتنی مقبولیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ سوشل میڈیا پر ان کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے حکومت کی کوششوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لاکھوں لوگ پی ٹی آئی رہنماؤں کو فالو کرتے اور سنتے ہیں لہذا سمندر پار پاکستانیوں کو خاموش نہیں کیا جاسکتا۔
پنجاب میں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی اور مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مل کر صوبائی حکومت کی تشکیل کے بعد، کچھ لوگوں کو توقع تھی کہ عمران خان اپنے مخالفین سے نمٹنے میں جارحانہ ہوجائیں گے، لیکن انہوں نے اس کے برعکس راستے کا انتخاب کیا۔
پی ٹی آئی کے لیے پنجاب میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنا نہ صرف پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے بلکہ ملکی سیاست میں بھی گیم چینجر ثابت ہوا ہے۔ عمران خان اپنے نقطہ نظر میں قدرے معتدل ہوگئے ہیں۔ لاہور میں یوم آزادی کی اپنی تقریر اور اس کے بعد کی کئی عوامی تقریروں میں، انہوں نے قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد پر زور نہیں دیا۔ پی ٹی آئی کے سربراہ 4 اکائیوں، خیبرپختونخوا، پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اپنی پارٹی کی حکومت ہونے پر خوش دکھائی دیتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی وزیراعظم شہباز شریف کی وفاقی حکومت کو دن بہ دن غیر مقبول بنا رہی ہے جب کہ عمران خان اپنے مخالفین خصوصاً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو مزید مشکل میں پھنسانے کے لیے ڈھیل دے رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ دوہری روش پر عمل پیرا ہیں۔ ایک طرف وہ حکومت کی جانب سے اچانک عام انتخابات کے اعلان کی توقع رکھتے ہوئے پورے ملک میں جلسوں کے بعد ریلیاں نکال کر اور سوشل میڈیا پر ایک بیانیہ کو فروغ دے کر عوامی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف اس بات کے آثار ہیں کہ نہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے کا ایک راستہ کھول رکھا ہے اور وہ ان کے ساتھ تصادم کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وفاقی حکومت ان کے حامیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کروا کر انہیں مشتعل کرنے کی کوششیں کر رہی ہے ۔ 18 اگست کو اپنی تقریر میں عمران خان نے درحقیقت اسٹیبلشمنٹ سے اپیل کی کہ وہ شریف اور زرداری خاندانوں کی حمایت پر نظرثانی کرے۔
پنجاب نے سب کچھ بدل دیا ہے ، عمران خان اور ریاستی ادارے دونوں کو، اور 17 جولائی کے ضمنی انتخابات نے طاقتور حلقوں کو ایک مضبوط پیغام بھیجا ہے کہ عمران خان ماضی کا قصہ نہیں بنے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News