Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

آبادی میں اضافہ،استحکام لانے کا ہدف کیسے حاصل ہو؟

Now Reading:

آبادی میں اضافہ،استحکام لانے کا ہدف کیسے حاصل ہو؟

1951 میں پاکستان کی آبادی 30 ملین  تھی ۔  2022 میں ملک کی آبادی  بڑھ کر  220 ملین ہو گئی ۔ آبادی میں حیران کن طور پر6  گنا اضافے نے پاکستان کو دنیا کے 5 ویں  سب سے زیادہ آبادی والے ملک  کے نمبر  پرپہنچادیا ۔ مشرقی پاکستان  سے  علیحدگی کے ایک دہائی بعد 1951 میں پاکستان سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کی فہرست میں 13 ویں جبکہ  1981 میں 8ویں  نمبر پر تھا۔ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام پڑوسی اور علاقائی ممالک کے مقابلے میں  بہت پہلے شروع ہو چکاتھا  لیکن  دیگر اقدامات کی طرح یہ  پروگرام بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی رفتار کھوتا چلا گیا۔ نتیجہ  یہ  ہوا کہ  آبادی میں  تیزی  سے اضافہ ہوتا   چلا گیا جس کی وجہ سے   آج ہمارے وسائل پر  دباؤ واضح طور پر نظر آرہا ہے ۔ ملک میں  سالانہ 11 ہزار  اموات صرف زچگی کے دوران  ہورہی ہیں ۔ 62 شیر خوار بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی  دنیا  سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔  5 سال سے کم عمر 40 فیصد بچوں کی نشوونما ہوپاتی ہے جبکہ پاکستان میں 5 سے 16 سال عمر  کے درمیان ہر 3 میں سے ایک بچہ اسکول نہیں جاتا ۔

آبادی میں پائیدار اضافہ پاکستان کی ترقی کے لیے  بہت  ضروری ہے کیونکہ یہ قومی ترقی کے دیگر تمام پہلوؤں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ خواہ وہ تعلیم ہو  یا  پھر صحت ،  موسمیاتی تبدیلی یا غذائیت ۔بھوک کو ختم کرنے، غذائی تحفظ کے حصول، غذائیت  کے معیار کو بہتر بنانے اور پائیدار زراعت کو فروغ دینے کی مہم، آبادی میں اضافے کو مستحکم  سطح تک لائے  بغیر ممکن نہیں ۔ پاکستان دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ پانی کی کمی کا شکار ملک ہے ۔1951 میں ملک کا  فی کس پانی  5300 کیوبک لیٹر فی کس تھا جو کہ 2022 میں کم ہوکر  780 کیوبک لیٹر فی کس رہ گیا۔ ملک موسمیاتی تبدیلیوں کی بھی  زد میں رہا ۔ شدت گرمی کی لہر اور پھرطوفانی بارشوں جیسے  حالیہ واقعات  اس کی تازہ مثال ہیں ۔ کبھی خشک سالی جیسی صورتحال پیدا ہوئی تو    کبھی شدید  اور  غیرمعمولی  بارشوں نے سیلابی صورتحال سے دوچار کیا ۔سیلاب نے    ملک بھر  خصوصاً جنوبی حصوں کو  شدید  متاثر کیا۔

دوسری طرف آبادی  میں تیزی سے اضافے  کے ساتھ خوراک کی پیداوار  میں بھی کم ہو تی رہی ۔ خوراک کی سپلائی بڑھتی ہوئی طلب کے مقابلے  میں کافی  کم ہے ۔  1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پاکستان چاول اور دیگر اشیائے خوردونوش کے علاوہ گندم  بھی برآمد  کرتا تھا  لیکن  آج ہم اپنی آبادی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے اہم غذائی اشیاء درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 85 فیصد  پیداواری زرعی فارم 5 ایکڑ سے بھی کم اراضی پر مشتمل ہیں جبکہ عالمی سطح پریہ  کم سے  کم 7 اعشاریہ 5 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہیں  جو ایک خاندان کے زندہ رہنے کے لیے کافی  ہے ۔ اسی طرح پاکستان  بھی  آبادی کی شرح میں استحکام  لانے کا ہدف حاصل کر کے اپنی غربت کی سطح کو کم کر سکتا تھا ۔

 2017کے  اعدادو شمار کے  مطابق اگر  پاکستان  کی کل زرخیزی کی شرح بنگلہ دیش کی کل زرخیزی کی شرح یعنی 169 فیصد کے برابرہوتی تو  تقریبا  41  ملین  افراد   غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے  پر مجبور ہوتے ۔15 ملین بچے اسکولوں سے باہر  ہوتے ۔انھیں   ضرورت کے مطابق پینے کے  صاف پانی کی سہولت بھی میسر نہ ہوتی ۔تیزی سے بڑھتی بے لگام آبادی   وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے وسائل کو  کھا تی جارہی ہے۔

1960 میں  جنوب مشرقی ایشیائی ممالک جیسے   ملائیشیا، جنوبی کوریا، سنگاپور ، تھائی لینڈ اور پاکستان میں فی ایک خاتون    اوسطا  6 بچو ں کو جنم دیتی تھی ۔   1980 کی دہائی تک دو  ایشیائی ٹائیگرز جنوبی کوریا اور سنگاپور بالترتیب 10 اور 16 سالوں میں اپنی زرخیزی کو نصف کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ 1990 کی دہائی تک  تھائی لینڈ اور ملائیشیا  نےمعاشی میدان میں تیزی سے ترقی کرتے ہوئے کم شرح پیدائش کا ریکارڈ بنا لیا ۔ 1960 میں  پاکستان میں شرح پیدائش  6 اعشاریہ  6  فیصد تھی ۔ اسے کم کرکے  3 اعشاریہ 6 فیصد تک لانے میں کم سے کم 50 سال کا عرصہ لگ گیا ۔

Advertisement

 4 ایشیائی ٹائیگرز   یعنی سنگاپور، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور  جنوبی کوریا میں اوسط عمر 75 سال سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں یہ 66 سال کے لگ بھگ ہے۔ کوریا اور تھائی لینڈ میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات فی  ہزار  میں  10 فیصد  سے بھی کم ہے  جبکہ پاکستان میں یہ شرح 62 فیصد  کے قریب  ہے ۔۔  2000 سے لے کر آج تک سنگاپور، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں شرح خواندگی 90 فیصد سے تجاوز  کرچکی ہے  لیکن پاکستان میں یہ شرح  16 فیصد  سے بھی  کم ہے ۔ بدقسمتی سے  پاکستان میں  15 سال یا اس سے زائد عمر  کی آبادی  کا تہائی حصہ  ناخواندہ ہے۔

دنیا میں عام طور پر   گھروں میں خاندانی منصوبہ بندی سمیت  دیگر معاملات جیسے بچوں کی  تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال   کے حوالے سے فیصلے لینے سے خواتین کی  فیصلہ سازی کی قوت  بہتر ہوتی ہے  لیکن پاکستان میں    خواتین کو  یہ اختیا ر حاصل نہیں ۔ملک کی  خواتین کی آبادی کا صرف ایک چوتھائی حصہ باضابطہ طور پر  خدمات انجام دیتے ہوئے   عملی طور پر اپنے  حصے کا کردار ادا کر  رہا ہے ۔ہمارے یہاں آبادی کی منصوبہ بندی کو ترجیح نہیں دی گئی ۔ اہم مسئلے کےلئے  وسائل بھی مختص نہیں ہوئے ۔

  بنگلہ دیش جیسے دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے پاکستان میں آبادی کے اخراجات  مجموعی پیداوار  کے مقابلے میں سب سے کم یعنی صفر اعشاریہ  26 فیصد  ہے ۔ گزشتہ چند سالوں میں، بنگلہ دیش کی جی ڈی پی بڑھ کر6 اعشاریہ 5 فیصد تک   پہنچ گئی ۔ وہاں کی  آبادی میں ایک  اعشاریہ 9  فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان کی آبادی میں  2 اعشاریہ 5  فیصد   کی بلند ترین شرح  ریکارڈ کی گئی  جبکہ  شرح نمو کے مقابلے میں جی ڈی پی صرف  3 اعشاریہ 5 فیصد بڑھی ۔

بجٹ میںشدید کمی کی وجہ سے آبادی کو حاصل اخراجات کےحوالے سےرجحان  میں کمی آئی اگرچہ گذشتہ  4 سالوں میں آبادی کی خدمات کے لیے مالی اعانت میں تقریباً 6 فیصد سالانہ کی اوسط شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ اس بجٹ کا تقریباً 2 تہائی حصہ اجرت اور تنخواہوں کی ادائیگی پر  خر چ ہوتا ہے ۔۔ مانع حمل ادویات، سہولیات اور تربیت یافتہ عملے کےلئے کبھی غور نہیں کیا گیا ۔نتیجہ یہ ہو اکہ  زیادہ  تر  لوگ خاندانی منصوبہ بندی  اور صحت کے معاملات پر   آنے والے اخراجات اپنی جیب سے دینے پر مجبور ہوگئے ۔خاندانی  منصوبہ بندی کےلئے  ملنے والی خدمات میں تعطل  یا دیر سویر  کی وجہ سے  خاطر خواہ  نتائج برآمد نہیں  ہورہے ۔

پاکستان نے آبادی میں تیزی سے اضافے پر قابو پانے کے لیے متعدد طریقوں  سے کوشش کی کئی بار اقدامات بھی اٹھائے ۔ 1990 کی دہائی میں “بچے د و ہی اچھے ” اور “دو بچے  ،خوشحال گھرانہ” جیسی مہم  چلا کر عوام میں  بیداری پیدا کرنے کی کوش کی گئی   لیکن  مطلوبہ نتائج پھر  بھی برآمد نہیں کیے جاسکے ۔  حال ہی میں آبادی  سے متعلق ایک نیا قومی بیانیہ سامنے  آیا جس کی بنیاد توازن کے  تصور پر رکھی گئی ہے ۔  پاپولیشن کونسل  نے خاندانی منصوبہ بندی کے لئے  رضاکارانہ استعمال کو  فروغ دیتے  ہوئے  بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانے کا منصوبہ  بنایا ہے۔ اس منصوبے پرعمل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اجازت  کے بعد  متوقع ہے ۔

سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے نئے بیانیے کی ترویج وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے ۔اس ضمن میں مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرنے  کےلئے وفاق ، صوبوں اور  علاقائی سطح پر بجٹ تفویض کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔خاص طور پر غریب اور پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی مالی مدد کے حوالے سے حکام کو جوابدہ تصور کیاجائے گا۔

Advertisement

ملک میں آبادی کے پروگرام کو بہتر بنانے کے لیے جدت اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ قائم کی جانی چاہئے۔ آج کے دور میں  قومی سلامتی کا تعلق انسانی سلامتی سے ہے اور آبادی میں اضافے کی بلند شرح سے نمٹے بغیر انسانی ترقی ممکن نہیں۔

پائیدار سیاسی وابستگی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ نظام خاندانی منصوبہ بندی کی ضروریات کو پورا کر رہا ہو۔ آبادی کی خدمات پر اخراجات میں اضافہ کیا جائے تاکہ پاکستان کے فی کس 1 ڈالر کے اخراجات کو دوگنا کیا جاسکے۔ اس طرح خاندانی منصوبہ بندی کا مقصد باآسانی حاصل ہوسکے گا۔

 تمام نجی شعبوں سے تعلق رکھے والے محکمہ صحت کے طبی  مراکز لازمی طور پر خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات فراہمکریں ۔ مواصلاتی ٹیکنالوجی میں وسیع تکنیکی ترقی، الیکٹرانک آلات اور ای کامرس نے تعلیم اورکاروباری شعبوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔موبائل  ہیلتھ کے ذریعے خاندانی منصوبہ بندی سمیت صحت سے متعلق  دیگر معاملات کے حوالے سے معلومات تک رسائی دیں ۔مزید  وقت ضائع  کئے بغیر ہم جدید ٹیکنالوجی کو مؤثر طریقے سے استعمال کرکے آبادی میں اضافے  پر قابو پانے کا ہدف  حاصل کرسکتے ہیں ۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پہاڑوں میں چھپی ایک مقدس نشانی
بابا گرونانک کا 556 واں جنم دن، بھارتی سکھ یاتریوں کی ننکانہ صاحب آمد
مفتی تقی عثمانی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر دنیا کے با اثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل
27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پہلے سینیٹ میں پیش کی جائے، اسحاق ڈار
متنازع ترین نائب امریکی صدر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
ایشیا کپ میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی، آئی سی سی نے سزاؤں کا اعلان کر دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر