
پاکستان میں دو ریاستیں شانہ بشانہ موجود ہیں، ایک ڈی جیور(آئینی) اور دوسری ڈی فیکٹو(حقیقی)۔ عملی طور پر، اسٹیبلشمنٹ کی اصل طاقت سب سے زیادہ نظر آتی ہے، جبکہ ملک کے باقی ادارے اور اس کے لوگ ، یا تو اس کے ساتھی ہیں یا پھر اس کی رعایا میں شمار ہوتے ہیں۔ان کے اقتدار پر قبضے کے حوالے سے سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ان کا ٹرائل نہیں کیا جا سکتا۔اس سے قبل اسٹیبلشمنٹ کو اپنی شناخت ظاہر کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی تھی۔تاہم جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے پردے کے پیچھے سے اختیار استعمال کرنے کا انتخاب کیا ہے۔یہ اس کے لیے زیادہ موثر اور فائدہ مند ثابت ہوا ہے ۔ یہ تمام اہم فیصلے کرتا ہے، لیکن ذمہ داری کا اشتراک نہیں کرتا، اس طرح ان فیصلوں سے عام لوگوں کی طرف سے کسی بھی قسم کے الزام کو دور کرنا ممکن ہے۔براہ راست فوجی حکمرانی نے خفیہ سیاسی انجینئرنگ کو راستہ دیا ہوا ہےاور آئین اور قانون کی پاسداری عالمی برادری کے ان خدشات کو دور کرنے میں مدد کرتی ہے جن پر ہماری ریاست بہت حد تک انحصار کرتی ہے۔اس لحاظ سے ، پاکستان کی جمہوریت ایک غیر فعال طریقہ کار ہے اور عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ کی حکمرانی تحریری قانون، پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا سے زیادہ طاقتور ہے۔
سیاسی انجینئرنگ میں سیاسی اور مذہبی سیاسی گروہوں کی تشکیل، اسلامی جمہوری اتحاد جیسی مختلف جماعتوں کے اتحاد، پراکسی سیاسی اداکاروں (وہ اداکار جو ریاست کی صلاحیتوں کو تقویت دے سکتے ہیں، وہ ریاست کی خود مختاری اور سلامتی کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں) کی سرپرستی اور مخالف سیاسی جماعتوں سے منحرف ہونے کی تدبیریں شامل ہیں۔اسٹیبلشمنٹ مالی اعتبار سے اور اس کے وسیع انفراسٹرکچر کے لحاظ سے سیاسی جماعتوں سے زیادہ وسائل کی حامل ہے ۔ یہ مقامی اشرافیہ اور سول سروس میں اپنے دوستوں کے ذریعے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اس میں شراکت داروں کو جیتنے، ناقابل قبول سیاسی رہنماؤں کو بدنام کرنے، انہیں عوام کی نظروں میں غدار کے طور پر پیش کرنے ، انہیں گھناؤنے مجرم یادعنوانی کے مقدمات میں پھنسانے، اور جب تک چاہے انہیں قید کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔یہاں امیر زیادہ تر مستفید ہوتے ہیں اور اصل حکمرانوں کے ساتھی کہلاتے ہیں، جبکہ غریب طبقہ روزی کمانے کےلیے جدو جہد کرتا رہتا ہے ۔ اور اس طرح وہ قائم شدہ نظام کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتا ،جبکہ متوسط طبقہ، وصول کرنے والوں میں شامل ہے ۔ یہ طبقہ اختیار کرنے کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا اسے بے اثر کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے بڑی ہوشیاری سے ایک قدامت پسند مذہبی طبقے کو تیار کیا ہے اور اس سے کام لیا ہے ، جو یا تو جذباتی فرقہ وارانہ بیانیے کے ذریعے یا پھر ترقی پسند سیاسی اور سماجی کارکنوں کے خلاف پُرتشدد ذرائع استعمال کرتی ہے۔
مذہبی سیاسی جماعتیں اور فرقہ وارانہ گروہ ریاست کے ہاتھوں میں مہلک غیر ریاستی اداکار ہیں جو لوگوں کے حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے کسی بھی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ایک ناموافق لیکن قانونی نمائندہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں ۔ایک کارکن
یا سیاسی جماعت ریاستی اداکاروں کے غضب سے بچ سکتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہےکہ یہ خود ساختہ، مستحکم مالی امدا د رکھنے والے ایمان افروز جنگجوؤں کی طرف سےفائز کیا گیا ہو۔
پاکستان کا آئین آزادی اظہار رائے سمیت تمام بنیادی حقوق کی اجازت دیتا ہے۔ ملک میں نجی الیکٹرانک میڈیا غیر معمولی ترقی کی جانب گامزن ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں صارفین پُرجوش انداز میں سو شل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں ۔ہر قسم کے میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے قوانین اور ریگولیٹری فریم ورک موجود ہیں۔ لیکن ریاست کے پاس تنقیدی آوازوں کو روکنے کے اپنے مخصوص طریقے موجود ہیں۔ نافرمان صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، اغوا کیا جاتا ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ ان مجرمانہ کارروائیوں میں کون ملوث ہے ؟ اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے ان کے حق میں واضح فیصلوں کے باوجود بعض
ٹی وی چینلز کو آف ایئر کردیا جاتا ہے ۔کیبل آپریٹرز عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں لیکن ریاستایسا نہیں کرسکتی ۔حال ہی میں کچھ ’ناقابل قبول‘ صحافیوں کو نوکری سے نکال دیا گیا ، جب کہ کچھ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا ۔بہت سے دیگر لوگوں کو اتھارٹی پر تنقید کو کم کرنے پر مجبور کیا گیا ہے،کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انہیں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑتے، یا پھرا ن کی زندگیاں خطرے میں پڑجاتیں ۔
میڈیا کی غیر اعلانیہ سنسر شپ کے باعث بعض صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا معمول بن چکا ہے۔ کوئی بھی نظام اپنے ناقدین اور کسی مزاحمتی سرگرمی میں حصہ لینے والوں کو خود اذیت دیتا ہے،بعض صورتوں میں یہ انہیں غائب کر دیتا ہے اور زندگی بھر جیل میں قید رکھتا ہے یا پھر ان کو معافی دینے کے بعد ان کا خاتمہ کردیا جاتا ہے ۔
جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی وارداتیں عروج پر ہیں۔ 2021ء میں جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن کو ایک ہزار 108 شکایتیں موصول ہوئیں، جبکہ خیبرپختونخوا میں لاپتہ افراد کے ایک ہزار 417 کیسز زیر التوا تھے۔بہت سے واقعات میں ریاست کی طاقت کا خوف پیدا کرنے کے لیے سیاسی کارکنوں کو نامعلوم افراد اغوا کر لیتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد انہیں رہا کر دیا جاتا ہے۔ڈی فیکٹو کے تحت حکمرانی ایک ناکارہ اور نیم فعال عدلیہ پر پروان چڑھتی ہے۔حقیقی حکمرانوں کو سیاسی بنیادوں پر بعض افراد کے مجرمانہ یا بدعنوانی کے مقدمات کو اکثر کامیابی کے ساتھ غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے یا ضرورت پڑنے پر ان کے مقدمات کو تیزی سے ٹریک کرنے کی ضرورت ہے۔سیاسی طور پر کچھ نتیجہ خیز معاملات میں اعلیٰ اور طاقتور افراد شامل ہیں ،ان معاملات کو برسوں تک سرد خانوں کی نذر کردیا جاتا ہے۔مجرموں کو جیل سے یا طبی بنیادوں پر بیرون ملک بھیجنے کے لیے جعلی میڈیکل رپورٹس بنائی جاسکتی ہیں ۔ ایک گدلا عدالتی نظام جمود کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے2021ء کے آخر تک ملک میں 2 اعشاریہ 14 ملین سے زائد مقدمات زیر التوا تھے۔
ہر سال، پولیس سینکڑوں مشتبہ افراد کو جعلی مقابلوں (ماورائے عدالت قتل) میں مار دیتی ہے۔ قانون کے تحت جوڈیشل مجسٹریٹس کو ان ہلاکتوں کی تحقیقات کرنی چاہیے اور فرضی مقابلوں میں قصوروار پائے جانے والے افسران کے ٹرائل کی سفارش کرنی چاہیے لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ۔ پولیس کو لائسنس ٹو کل دے دیا گیا ۔ 2014ء میں پنجاب پولیس نے لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں واقع ادارہ منہاج القرآن میں دن دیہاڑے فائرنگ کر کے 14 افراد کو قتل کر دیا ۔واقعے میں ملوث کسی افسر پر تاحال مقدمہ قائم نہیں ہوا، اور نہ ہی کسی کو سزا سنائی گئی ۔ اسی طرح 2019ء میں پنجاب کے انسداد دہشت گردی محکمے کےاہلکاروں نے ایک ہی خاندان کے چار افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ واقعے میں مارے جانے والوں کو ساہیوال میںدہشت گردوںکے ساتھ مقابلے کے طور پر رپورٹ کیا گیا۔اکتوبر 2021ء میں، انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے ان تمام6 اہلکاروں کو بری کر دیا جنہیں ابتدائی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
ڈی فیکٹو طرز حکمرانی اس کے کارندوں، ساتھیوں اور پراکسیوں کی بدعنوانی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔
بدعنوانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھیوں کو سرپرستی فراہم کرنے کا ایک طریقہ بن چکا ہے ۔ بدعنوان مقامی معززین ریاست کے قابل قدر شراکت دار ہیں کیونکہ ان کی بدعنوانی کی فائلیں انہیں لائن میں رکھنے اور سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو بنانے یا گرانے میں استعمال کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔موثر احتساب اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کو کمزور کر دے گا۔کیونکہ بدعنوانی سے استثنیٰ دینے کا مطلب اپنے ساتھیوں کو فتح سے قریب کرنے کے برابر ہے ۔ ایک بار جب یہ کشش ختم ہوجائے تو، خود ساختہ بنائے گئے نظام کی عمارت اپنے آپ گر جائے گی ۔جنرل پرویز مشرف قومی احتساب بیورو (1999ء-2000ء) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد امجد سے جان چھڑانے کےلیے تیزی سے آگے بڑھے۔جنہو ں نےاپنے کام کو سنجیدگی سے لیا تھا۔عمران خان موجودہ نظام کے لیے کرپشن سے استثنیٰ کی اہمیت کو محسوس نہیں کر سکےاس لیے انہیں باہر نکال دیا گیا ۔ ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے فوراً بعد، احتساب قانون کو 39 ترامیم کے ذریعے بے بس کردیا گیا جس کے تحت تمام ہائی پروفائل ملزمان کو بدعنوانی کے مقدمات سے باہر کر دیا گیا۔
بدعنوانی کے مقدمات سے عام معافی ملنے ؛گی ، جسے این آر او کا نام دیا گیا ۔اسٹیبلشمنٹ کا ڈی فیکٹو راج گزشتہ 7دہائیوں سے برقرار ہے۔اس نے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو ریاست سے دور کر دیا ہے۔ ہر سال ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان دوسرے ممالک جانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
ریاست نے معاشرے میں طبقاتی، نسلی اور فرقے کی بنیاد پر دراڑیں پیدا کر دی ہیں۔ مذہبی سیاسی گروہ، جنہیں ریاست کی سرپرستی حاصل ہے، دو دھاری تلوار بنی ہوئی ہیں۔وہ اپنے حریفوں سے لڑنے میں ریاست کی مدد کرتے ہیں، لیکن تقسیم کرنے والے اداروں کے طور پر وہ عدم استحکام پیدا کرتے ہیں اور معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، جیسا کہ پاکستان میں کئی دہائیوں سے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔مزید یہ کہ آئینی ادارے، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش کے نتیجے میں اپنی جگہ کو وسعت دینے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہےکہ ملک مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔
ان حالات کے پیش نظر اندرونی امن و سلامتی، گڈ گورننس اور معاشی ترقی ممکن نہیں۔ پاکستان اقتصادی اور انسانی ترقی کے اشاریوں کے لحاظ سے اپنے پڑوسی جنوبی ایشیائی ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ۔اب تک، اسٹیبلشمنٹ نے اپنی گرفت برقرار رکھی ہوئی ہے، بنیادی طور پر اس کی وجہ مغرب نے اسے کمیونسٹ روس کے خلاف اور پھر افغانستان میں اسلام پسندوں کے خلاف جنگ میں مالی امداد فراہم کی ہے ۔مغرب کی سرپرستی اس کی بقا کے لیے ضروری ہے۔کوئی تعجب کی بات نہیں، فی الحال امریکہ کے ساتھ نئی شراکت داری قائم کرنے کے لیے سخت کوششیں جاری ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News