
ملک کو مستقبل میں تسلسل کے ساتھ آنے والے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے
اگست کے آخری ہفتے میں ہونے والی مون سون بارشوں کی وجہ سے ملک کا بیشترحصہ سیلابی پانی میں ڈوب گیا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو مستقبل میں تواتر کے ساتھ طاقت ورمضبوط سیلابوں کے لیے تیاررہنا پڑے گا، اوران کے پیچھے مون سون بارشیں ہی واحد وجہ نہیں ہوں گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (جی ایل او ایف) پاکستان کے شمال میں واقع کم اونچائی والے علاقوں یعنی گلگت بلتستان اورچترال میں تباہی پھیلانے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ماہر برائے پانی اور ماحولیات ڈاکٹر آصف خان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ کئی وجوہات کی بنا پر گلیشیئرز کے پگھلنے شرح بلند ہورہی ہے، جس کے نتیجے میں ہمالیہ، قراقرم اورہندوکش کے علاقوں جنہیں عموما HKH ریجن یا عام طورپرتیسرا علاقہ بھی کہا جاتا ہے، میں برف تیزی سے پگھل رہی ہے، یہ خطہ قطب شمالی اورجنوبی کے بعد برف کے تیسرے بڑے ذخائرپرمشتمل ہے۔
ڈاکٹرآصف نے بول نیوزکو بتایا کہ ’مختلف ذرائع کے مطابق، HKH خطے میں 7,000 سے 15,000 گلیشیئرزہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پائے جانے والے گلیشیئرزمیں 15000 کیوبک کلومیٹر صاف پانی کاذخیرہ ہے۔ ہمالیہ اورقراقرم کے علاقوں میں میں برف تیزی سے پگھلتی ہے جب کہ قراقرم میں اس کی شرح سست ہے۔ جس سے کچھ جگہوں پر بڑے پیمانے پرمثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہاں برف کی مقدار بڑھ رہی ہے۔‘
مختلف محققین کا خیال ہے کہ پاکستان کے شمال میں موجود گلیشیئرتین سے چاردہائیوں تک پینے کا صاف پانی فراہم کرسکتے ہیں، تاہم، ملک کوتیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔
گلیشیئرز کے پگھلنے سے مورینز(پتھروں، چٹانوں بجری اوردوسرے ملبے کا ڈھیرجو برفانی تودے نے جمع کر دیا ہو) اوربرفانی جھیلیں بنتی ہیں۔ یہ برفانی جھیلیں اکثربرف کی دیواروں کے اندرلاکھوں کیوسک پانی ذخیرہ کرتی ہیں جو بعض صورتوں میں اتنی مضبوط نہیں ہوتیں کہ زیادہ دیر تک برقرار رہ سکیں۔ پاکستان کے شمال میں مختلف سائز کی 500 سے زیادہ برفانی جھیلیں ہیں۔ ان جھیلوں میں سے کم از کم 52 کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے، جو غیر معمولی طورپرزیادہ درجہ حرارت اور بارش میں مسلسل ٹوٹنے کے خطرے سے دوچارہیں۔
ڈاکٹر آصف خان کا کہنا ہے کہ ’درجہ حرارت بڑھنے اوربارش کے مسلسل برسنے کی وجہ سے یہ جھیلیں پھٹ سکتی ہیں۔ زیادہ درجہ حرارت کے نتیجے میں برف اورگلیشیئرز تیزی سے پگھلتے ہیں۔ اسی طرح، قلیل مدت میں غیر معمولی طورپرزیادہ بارشیں ان جھیلوں کے اندرپانی کی سطح بڑھا دیتی ہیں جس سے برفانی جھیلوں کی اندرونی دیواروں پردباؤ بڑھ جاتا ہے اوران کے پھٹنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘
برفانی جھیل کے پھٹنے کی صورت میں، سیکنڈوں میں پیدا ہونے والی پانی کی بڑی لہریں نیچے کی طرف سفر کرتے ہوئے اپنی راہ میں موجود ہرچیزکو تباہ کردیتی ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان چھوٹے گاؤں، فصلوں، باغیچوں اورچھوٹے مائیکرو ہائیڈل پاوراسکیموں کو پہنچتا ہے جنہین گلیشیئرز کو نیچے دریا میں فلڈ چینلزاورنالے کے قریب تعمیرکیا جاتا ہے۔
محقق تنویر اختر، جن کا تعلق دانین لشٹ، لوئر چترال سے ہے، نے اپنے ماسٹرز پروگرام میں’ کونٹیسکچوئل ورنیبلیٹی آف دی کمیونیٹیز ان ریلسشن شپ ود‘ کے GLOF ‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا۔ انہوں نے بول نیوز کو بتایا کہ چترال میں ممکنہ طور پر کم از کم 18 خطرناک برفانی جھیلیں ہیں، جن میں 53 برفانی جھیلوں میں سے دو ان کے تحقیقی علاقے گولین وادی، زیریں چترال کے ازغور گاؤں میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ پاکستان میں کئی برفانی جھیلیں پھٹنے کے خطرے سے دوچار ہیں اوران سے انسانی جانوں کو بھاری نقصان پہنچ سکتا ہے، یہ ماحولیاتی نظام اورانفراسٹرکچر کو تباہ کر سکتی ہیں۔ حکومت اور مختلف این جی اوزان جھیلوں کی نگرانی کر رہی ہیں۔ تاہم، مستقبل میں ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے،‘ اختر نے وضاحت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ گلیشیئرز کی مسلسل نگرانی ضروری ہے تاکہ ان جھیلوں میں پانی کی موجودگی کا اندازہ لگایا جا سکے۔ تاہم، انہوں نے ارلی وارننگ سسٹمز کی تنصیب کے دوران مناسب تحقیق کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا، جو کہ کمیونٹیز کو GLOF ایونٹ یا فلڈ فلڈ کی صورت میں نقصان کے راستے سے باہر جانے کے لیے کافی وقت فراہم کر سکتے ہیں۔
اختر کا کہنا ہے کہ ’ میری تحقیق کے دوران جواب دہندگان نے زیادہ تریہ کہا کہ GLOF کے بارے میں حکومت کا ردعمل غیرموثر ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ جواب دہندگان نے روہڑی گلیشیئرپرابتدائی وارننگ سسٹم کے بارے میں بات کی۔ لاکھوں کی لاگت سے انتباہی نظام نیچے موجود لوگوں کو وارننگ جاری کرنے کے بجائے پہلی لہر میں ہی بہہ گیا۔ ارلی وارننگ سسٹم (ای ڈبلیو ایس) کو مناسب جگہ پر نصب نہیں کیا گیا تھا اور تنصیب سے پہلے کوئی مناسب فزیبلٹی بھی نہیں تھی،‘
انہوں نے حکومت پرزوردیتے ہوئے کہا کہ ’ کوئی بھی واقعہ پیش آنے سے پہلے منصوبہ بندی کرنی چاہیے، جوحکومت کو محدود وسائل کے ساتھ چیلنجوں سے لڑنے کے قابل بنائے۔ جب کہ ردعمل کا انداز حکومت کو ہونے والے نقصانات کو کنٹرول کرنے کے لیے لامحدود رقم خرچ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔‘
موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین گلیشیئرزکی نگرانی کے دوران جدید، موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ضرورت پرزوردے رہے ہیں۔ “ہمیں برفانی جھیلوں کی نگرانی کے لیے سیٹلائٹ امیجز کے آلات اور ٹیلی میٹری سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے ارلی وارننگ سسٹم کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی جدید تکنیک کا استعمال ہمیں برفانی جھیلوں کے سیلاب سے کچھ حد تک تحفظ فراہم کرسکے گا، اوراس سیلاب کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جاسکتے ہیں، اس بابت ڈاکٹر آصف خان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’ انفراسٹرکچرکو بچانے کا ایک طریقہ مناسب طریقے سے ماڈلنگ اور ہائیڈرولک طریقے سے گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ سیلاب کے اثرات کو ڈیزائن کرنا ہے۔‘
جنوب امریکی ملک پیروکی مثال دیتے ہوئے اخترنے کہا کہ حکومت خطرناک گلیشیئرزکی نگرانی کرتی ہے اورپھرماہر گلیشیات اورانجینئرزپرمشتمل دواداروں کوان خطرناک گلیشیئرزکا دورہ کرنے کا کام سونپتی ہے، گلیشیئرزکا معائنہ کرنے اوربیرونی خول کی موٹائی کا پتہ لگانے کے بعد، یہ انجینئرز موٹے بیرونی خولوں کے ساتھ گلیشیئرمیں ذخیرہ شدہ پانی کو باہرنکالنے کے پائپ لگاتے ہیں، اس سے گلیشیئر کے اندر پانی کا دباؤ اور ان کے پھٹنے کے خطرات کو مؤثرطریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، گلیشیئرزکے گرد مصنوعی دیواریں پتلی یا کمزوربیرونی گولوں کے ساتھ تعمیر کی جاتی ہیں، جو انہیں اتنا مضبوط بناتی ہیں کہ پھٹنے کی صورت میں پانی کوبرقراررکھ سکیں اوراس کمیونٹیزمحفوظ رہیں۔‘
ناروے یونیورسٹی آف لائف سائنسزسے ڈویلپمنٹ اسٹڈیزسے پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹرکاشف سعید نے گلیشیئرزکے تیزی سے پگھلنے کی ایک اوراہم وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جنگلات کی غیر معمولی کٹائی تیزی سے اہم جنگلات کوکم کررہی ہے جوگلیشیئرز کے قریب درجہ حرارت کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سعید کا کہنا ہے کہ ’ہمیں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتارکو کم کرنے کے لیے فوری طور پر جنگلات کے رقبے کو بڑھانے پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، کلوروفلورو کاربن (CFC) اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا بھی ضروری ہے۔‘
مزید برآں، پہاڑوں میں وسیع پیمانے پر مویشیوں کو چرانے سے بھی درجہ حرارت میں اضافے میں کا سبب بن رہاہے، کیونکہ جانورسبزا اورجھاڑیوں کو کھا کرمٹی کو خراب کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا گوبرمیتھین گیس پیدا کرتا ہے جو گلیشیئرزکے پگھلنے میں کم از کم 15 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News