
ہائیڈرولوجی اورآبی وسائل کے ماہرڈاکٹرحسن عباس نے علم آب میں وسیع تحقیق کی ہے، یہ آبی وسائل کی تشخیص، ہائیڈرولوجیکل فیلڈ کی تحقیقات، ماحولیاتی تبدیلی، ہائیڈرومیٹری، سول انجینئرنگ ورکس اورزیرزمین پانی کی ماڈلنگ اوردیگرشعبوں کی صنعت میں وسیع تجربے کے حامل ہیں۔
اور اس شعبے میں امریکہ، کینیڈا،آسٹریلیا، عراق، دوحہ، قطر، سعودی عرب، پاکستان سمیت دیگرممالک میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
ڈاکٹرحسن عباس نے امریکہ کی مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی سےہائیڈرولوجی اورآبی وسائل میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی سےامتیازی نمبروں کے ساتھ ہائیڈروجیولوجی اورزیرآب پانی کی انتظام کاری میں ایم ایس سی اورنیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ) پاکستان سے سول انجینئرنگ میں بی ایس سی کیا۔ وہ تین براعظموں میں مذکورہ بالا شعبے میں کام کرچکے ہیں، اپنے شعبے پرغیرمعمولی دسترس رکھنے پرمتعدد ایوارڈزحاصل کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر حسن زیڈآئی زیڈ اے کے پرائیوٹ لمیٹڈ کے بانی چیئرمین بھی ہیں۔
انہیں پاکستان میں انضمام آبی وسائل کے لیے اقوام متحدہ کی پہلی تعلیمی، سائنسی اورثقافتی تنظیم (یونیسکو) کا سربراہ نامزد کیا گیا۔ وہ اس وقت ملک بھر کے بڑے شہروں میں پانی کی فراہمی اورطوفان کے پانی کی نکاسی کے نظام کے ماسٹرپلان پر کام کر رہے ہیں۔
بول نیوزنے ڈاکٹرحسن عباس کے ساتھ کی جانے والی گفتگومیں سندھ کے اندرونی علاقوں میں کھڑے سیلابی پانی کے حل کے ساتھ ساتھ متبادل اورجدید ٹیکنالوجی کا احاطہ کیا۔ جس پرملک کے موجودہ فرسودہ بیراجوں، ڈیموں اورنہری نظام کے برخلاف عملدرآمد کیا جا سکتا ہے، جن کوبہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اورپورے صوبے کو گندے پانی کے جوہڑمیں تبدیل کرتے ہوئے سندھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
مقامی سول سوسائٹی تنظیموں کے بہت سے ماہرین اب سندھ کو ملک کا قومی نالہ (نکاسی آب کا راستہ) قراردیتےہیں۔ جیسا کہ دریائے کابل کے پانی میں اضافہ ہوتا ہے یا بھارت کی جانب سےزیادہ پانی چھوڑ دیا جاتا ہے، تواس کا صوبے پرمنفی اثرپڑتا ہے کیونکہ وہاں سے آنے والا پانی بالآخرسمندرمیں گرے گا، یہ ساراعمل سندھ کو تباہ کردے گا۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟
ڈاکٹرحسن عباس: میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا، سندھ ملک کا قومی نالہ نہیں ہے۔ تاہم، سندھ ایک بہتے ہوئے تالاب کی شکل اختیارکرچکا ہے، جس میں ٹھہرے ہوئے تمام گندے پانی سے بدبوآتی ہے۔ سندھ میں پانی آتا ہے تو سمندر کی طرف کوئی مناسب یا کھڑی ڈھلوان نہیں ہوتی۔ اگر بہت زیادہ بارش ہوتی ہے، تو بارش کا پانی قدرتی طورپردریا میں نہیں جا سکتا کیونکہ وہاں زیادہ سے زیادہ دریائی پشتے ہوتے ہیں،اس لیے سیلابی پانی سمندر کی طرف نکل جاتا ہے، جہاں دیگر چیزوں کے علاوہ نہروں، ریلوے اورسڑکوں کے دوسرے بند ہیں۔
اگرآپ ابھی سندھ میں کھڑے سیلابی پانی کی سیٹلائٹ تصاویردیکھیں توآپ کو نظر آئے گا کہ پانی بڑی مقدارمیں انسانی فضلہ کے ڈھانچے سے متاثرجیومیٹرک حدود کی وجہ سے کھڑا ہے۔ یہ ایک غیر پائیدارترقیاتی ماڈل ہے، جس نے ماحولیات اورقدرتی ہائیڈرولوجی کی مطابقت پرغورنہیں کیا، درحقیقت اسے مکمل طورپرنظراندازکیا گیا ہے۔
ہائی ٹیک پمپنگ مشینیں بھی علاقوں سے سیلابی پانی کو نہیں نکال سکتیں، بارشوں کے بعد جمع ہونے والے سیلابی پانی کو اب کیسے ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے؟
حسن عباس: پمپ کسی علاقے میں پانی کو ٹھکانے نہیں لگا سکتے کیونکہ وہ صرف گھرکے ٹینک، تہہ خانے یا محلے سے جمع پانی کو نکالنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
فرانس نے سرکاری پمپ فراہم کیے ہیں جو فی منٹ 3ہزارلیٹرپانی نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر 100 پمپ لگائے جائیں تو صوبے سے سیلابی پانی کو نکالنے میں ڈھائی صدیاں لگیں گی۔ ہمیں قدرتی ڈھلوانوں پرہرقسم کی رکاوٹ یا تجاوزات کوہٹانا چاہیے۔ لوگوں نے دریا کے کنارے پرتجاوزات قائم کررکھی ہیں لیکن بیراجوں پرتجاوزات سب سے زیادہ ہیں۔ پہاڑوں کے اندرڈیم دریاؤں پربیراجوں سے بھی زیادہ تجاوزات ہیں۔
ہمیں متبادل حل،جیسے کہ سولرپمپس اورپائپ سسٹم کے حق میں بیراجوں، ڈیموں اورنہروں جیسی تجاوزات کوترک کر دینا چاہیے تاکہ دریائی پانی کو کھیتوں اورشہروں تک پہنچایا جا سکے۔ سولرپمپ اورپائپ نیٹ ورک دریا سے پانی کھینچ کراسے مخصوص مقامات جیسے زرعی اراضی یا شہروں تک بغیر پہنچا سکتے ہیں اور اس کے لیے اضافی فنڈنگ یا بین الاقوامی ڈونرایجنسیوں سے بڑے قرضے لیے جا سکتے ہیں۔
ہمارے پاس متبادل حل موجود ہیں،لیکن ہمارے پالیسی سازیا تو ان جدید حل سے ناواقف ہیں یا نادانستہ طور پران طویل المدتی حل پرتوجہ نہیں دیتے، کیونکہ ان متبادلات میں عوامی فنڈز کو ممکنہ طور پرہڑپ کرنے کے لیے کک بیکس یا کمیشن نہیں ہوتے۔
موجودہ ڈیم، بیراج اور نہریں دو صدی پرانے نظام کا حصہ ہیں۔ اب کوئی بھی ٹائپ رائٹرزپرپیسہ خرچ نہیں کررہا ہے، جو کہ ایک اچھی ٹیکنالوجی تھی لیکن یہ اب متروک ہو چکی ہے۔ یہی حال ملک کے قدیم پانی کے نظام کا بھی ہے۔ پانی کےاس پرانے نظام کو مرحلہ وارختم کیا جائےاورایک نیا جدید نظام نافذ کیا جائے۔
رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آربی او ڈی) اورلیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) کس مقصد کی تکمیل کرتے ہیں؟ سندھ میں سول سوسائٹی کے کارکنان انہیں کئی علاقوں کے ڈوبنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
حسن عباس: یہ پرانے ترقیاتی ماڈل ہیں۔ انہوں نے پہلے پانی کو کھیتوں تک پہنچانے کے لیے نہروں کے ساتھ بیراج بنائے، لیکن نہروں کی وجہ سے پانی جمع ہو گیا اورکھارا پن پیدا ہوگیا، لہٰذا انہوں نے نمکیات کو دورکرنے کے لیےنالے بنائے۔ یہ نالے سمندر کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اوران نالوں کے ذریعے سمندر سے آنے والا پانی حاصل کرتے تھے۔ وہ پرانے حل ہیں جن میں پالیسی سازایک مسئلہ حل کرتے ہوئے دوسرا پیدا کرتے ہیں۔ آج کوئی پائیدارترقی کا ماڈل نہیں ہے۔ وہ سیلاب کے پانی کے نمایاں دباؤ کوکم کرنے کے لیے پشتوں، رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آربی اوڈی) اورلیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی اوڈی)، یا نہروں کو لگاتارایک کے بعد ایک حفاظتی کٹوتی دے رہے ہیں، لیکن یہ بیکار ہے۔
رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آربی او ڈی) اورلیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) جیسی بڑی ترقیاتی تباہی کی کوئی نظیرنہیں ملتی، جس نے پورے صوبے کے کئی اضلاع کو سیلابی پانی میں ڈبو دیا۔ یہ نالے ایک بڑی غلطی ہیں کیونکہ یہ بہت کم کارآمد ہیں اوربڑے خطرات اورمزید تباہی کا باعث بنے ہیں۔
مستقبل میں سیلاب کے بعد بارش سے نمٹنے کے لیے آپ کی کیا سفارشات ہیں؟
حسن عباس: ڈیموں، بیراجوں اورنہروں جیسے تمام پرانے ترقیاتی ماڈلز کوترجیحی طورپرایک ایک کرکے منہدم کیا جانا چاہیے۔ پرانے ماڈلزکوبرقراررکھنے کے لیے کسی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں ان فرسودہ اورغیرمؤثرماڈلزکوترک کرنا چاہیے اورفوری طورپرپمپ – کم -پائپ سسٹم کونصب کرنا چاہیے۔ پمپس اورپائپ سسٹم جدید آبپاشی کے ضروری اجزاء ہیں۔ درحقیقت اسرائیل جہاں نہرنہیں ہے، جدید آب پاشی کے لیے دنیا کی بہترین ریاست ہے۔ ایک ماڈل سسٹم جیسا کہ اسرائیل، آسٹریلیا، اور کیلیفورنیا ودیگراستعمال کرتے ہیں، ہمارے ملک کو اپنانا چاہیے۔
یہ جدید نظام دو فائدے دے گا، جن میں پرانے نظام کا خاتمہ بھی شامل ہے، جس میں زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے۔ اس نئے اورجدید نظام کواستعمال کرنے والے کاشت کارفصل کی پیداوا، زرخیزی اورآمدنی میں اضافے سے مستفید ہوں گے۔ اس سے آنے والے برسوں میں ماحولیات اورکاشت کاروں کو بھی فائدہ ہوگا۔
سکھر، گڈواورکوٹری جیسے بیراج کے ترقیاتی ماڈلزمیں کیا خامیاں ہیں؟
حسن عباس: وہ ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے کیونکہ سندھ کی زمین ہلکے سے جھکاؤ کے ساتھ ہموارہے۔ دریا اپنے قدرتی بہاؤ کی تال کوبرقراررکھتا ہے، لیکن وہ اس سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ وہ دریا کی پائیداری اورلاقے کی آب و ہوا کوذہن میں رکھ کرنہیں بنائے گئے ہیں۔ نتیجے کے طور پرجب دریا میں اضافی پانی آتا ہے، تو یہ اوربھی زیادہ تباہی پھیلاتا ہے۔
زیادہ ترلوگوں کا یہ خیال ہے کہ ڈیم سیلاب کو روک سکتے ہیں۔ یہ بات کس حد تک درست ہے؟
حسن عباس: اگرمعمولی سیلاب کی بات کی جائے تو یہ درست ہے۔ ڈیم چھوٹے سیلابوں کو برداشت کرنے کے قابل ہیں، لیکن وہ بڑے پیمانے پرآنے والے سیلابوں کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں، جوہر10 سے15 سال بعد آتے ہیں۔
سیلاب سے بچاؤ کے پشتے، بیراج، اورڈیم لوگوں کو دریا کے کنارے یا قدرتی دریا کے راستوں پر تجاوزات پھیلانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ فطرت خلا سے نفرت کرتی ہے، اورجب ضرورت مند لوگوں کو یقین ہوجاتا ہے کہ سیلاب رک گیا ہےاوردریا خشک ہو گیا ہے، تووہ چند سال بعد دریا کے راستوں پر تجاوزات کرنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن دریا کبھی بھی صحیح معنوں میں خشک نہیں ہوتا۔ یہ 10، 20، یا اس سے بھی زیادہ 30 سال بعد واپس آسکتا ہے۔ جب دریا واپس لوٹتا ہے، تو اس میں تجاوزات کو تباہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
تربیلا اورمنگلا ڈیم پانی کو پانی کو ذخیرہ کرنے اوربجلی پیدا کرنےجیسے دونوں کاموں کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا جاسکتا؟
حسن عباس: جب یہ ڈیم تعمیر کیے گئے تھے تو ان کا مقصد صرف بجلی پیدا کرنا تھا۔ ہماری معلومات کے مطابق ڈیموں میں فرضی پانی کا ذخیرہ موجود ہے۔ وہ آبی ذخائررکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن جب دریا میں پانی موجود ہو، تب ہی یہ بند مناسب ہیں۔
آب پاشی کا نظام ہرسال زرعی زمینوں کو 104 ملین ایکڑفٹ (ایم اے ایف) پانی فراہم کرتا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ دونوں ڈیموں (تربیلا اورمنگلا) میں 4 ایم اے ایف سے کم پانی ہے اوریہ نظام میں صرف 2 یا 3 فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔ جو بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ڈیم آب پاشی کا نظام چلاتے ہیں وہ غلط ہے۔
مزید برآں، بھاری سرمایہ کاری یا بہت زیادہ لاگت کے ساتھ ساتھ فرسودہ ڈیموں کی تعمیر کے لیے درکارطویل وقت اس جدید دور میں ہمارے فائدے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ لوگ بہتراورجدید اختیارات (آپشنز) سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
ملک میں کتنے چھوٹے اوربڑے ڈیمزموجود ہیں؟
حسن عباس: ملک میں مجموعی طورپرچھوٹے اوربڑے ڈیم ملا کر150 سے 175 تک ہیں، تربیلا اور منگلا میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 13 ایم اے ایف ہے اور اقی چھوٹے ڈیموں میں 19 یا 20 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ اگرآپ ہمارے ماحول کو دیکھیں تو ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنا بےمعنی ہوگا۔ یہاں تک کہ اگر آپ مزید ڈیم بناتے ہیں، تب بھی پانی کا یہ ذخیرہ آب کے قابل نہیں رہے گا۔
ڈیمزکیوں تعمیرکیے جاتے ہیں؟ ان کا مقصد کیا ہے؟
حسن عباس: ڈیم بنانے والے اس بات پرزوردیتے رہتے ہیں کہ ڈیم تین وجوہات کی بنا پر بنائے جاتے ہیں،سیلاب کوبرداشت کرنے، بجلی پیدا کرنے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے۔
میں آپ کو سچ بتاتا ہوں کہ ان تینوں افعال میں سے کوئی بھی فی الحال ٹھیک سے کام نہیں کررہا ہے۔ زمینی پانی ذخیرہ کرنے کی اصل گنجائش 5 سوایم اے ایف ہے۔
ڈیم بنانے والے غلط بیانی کرتے ہیں، سفید جھوٹ بولتے ہیں کہ چونکہ ملک میں 30 دن کا پانی ذخیرہ ہے اس لیے ڈیموں کی ضرورت ہے۔ تاہم، دریا کے نیچے تین سال کا پانی ذخیرہ ہے۔ اس کی تحقیقات کی جانی چاہیے تاکہ ہم زیرزمین پانی کا صحیح انتظام کرسکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس زیرزمین پانی کو ٹیپ کرنے کے لیے یہ پروجیکٹ نہیں بناتے ہیں، باوجود اس کے کہ یہ بہت کم خرچ ہوتے ہیں، اس طرح کی کوششوں میں زیادہ کمیشن نہیں ملتا ہے۔
ڈیم کے حامی چھوٹے شہروں یا یونین کمیٹیوں یا کونسلوں کی مدد کرنے کے بجائے مسلسل بڑھتی ہوئی کک بیکس اور کمیشن اکٹھا کرنے کے لیے اربوں ڈالر کے میگا پروجیکٹس بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگروہ زیرزمین پانی کواستعمال کرنے کے چھوٹے منصوبوں پرتوجہ مرکوزکرتے ہیں، تو وہ بڑے قرضوں کے بغیر دیہی اورشہری باشندوں کے خدشات کو دور کریں گے، اورمنصوبہ سازوں کے پاس اپنی کوششوں کے لیے دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ دیہی اورشہری دونوں کے باشندوں کو ان کے کھیتوں اورشہروں میں ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی پانی ملے گا۔
کیا ہمیں ڈیم پرمبنی نقطہ نظرکی بجائے بہتے دریا کے ماڈل کواپنانا چاہیے، جو سندھ طاس کو پانی سے محروم کرسکتا ہے؟
حسن عباس: یہ پرانے ماڈل دریا کے بہاؤ کی پیروی نہیں کرتے۔ ڈیلٹا کوپانی ، گاد اورمٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آدھا گاد اب ڈیموں پربیٹھتا ہے، جب کہ باقی آدھا نہروں سے نکالا جاتا ہے۔ یہ گاد ڈیلٹا کو سمندری کٹاؤسے بچانا تھا۔ سمندرکیچڑاکھاڑتا تھا، اورنئی مٹی قدرتی طورپرپہاڑی علاقوں سے ڈیلٹا میں آتی تھی۔ ڈیلٹا سمندرمیں پھیل رہا تھا۔
1930ءتک ڈیلٹا ہرسال 3 سے 4 میٹرتک سمندرمیں نفوذ کررہا تھا، جس سے زمین بنتی تھی۔ سمندر اب روزانہ کی بنیاد پرکئی ایکڑ ڈیلٹائی زمین کو ختم کررہا ہے۔ نہریں، ڈیم اوربیراج ڈیلٹا سے گاد نکالتے رہتے ہیں۔ بارش کے پانی میں گاد نہیں ہوتا ہے، جب کہ سیلابی پانی میں گاد ہوتا ہے،اوراگر ہم ڈیلٹا کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں سمندری کٹاؤ کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے سیلابی پانی کو داخل ہونے دینا چاہیے۔
شمسی توانائی پن بجلی کے مقابلے میں نمایاں طورپرکم مہنگی ہے۔ گھروں، کاروباراور کارخانوں میں بجلی بنانے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟
حسن عباس: سولرٹیکنالوجی کو 10سے15 سال کے عرصے میں اپنایا جائے گا، ہرکوئی اسے گھر گھرنصب کرے گا، کیونکہ موبائل فون سیٹ نے مواصلات کو قابل رسائی بنا دیا ہے اوراب آپ کو فون کمپنیوں کوفون کنکشن کیلئے درخواست دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب آپ باآسانی اپنی پسندیدہ فون سروس اورپیکیج کا حصول اوراس سے لطف اندوزہوسکتے ہیں۔
ڈیسکوکے بڑھے ہوئے بلوں، غیرمنصفانہ بلوں اوردیگر طریقوں کے نتیجے میں صارفین کو ہونے والے نقصان کی وجہ سے پاورڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈیسکو) کومرحلہ وار ختم کردیا جائےگا۔ موبائل فون سیٹ کی طرح سولرسسٹم بھی جلد ہی ڈیسکوز کے پاورسسٹم کوقابل رسائی بنا دے گا۔ اگر ہم شمسی مواقع پرغور نہیں کرتے تو ٹیکس دہندگان ایک بار پھر کنڈےپرآجائیں گے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News