Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

تاریخی مقامات بارشوں سے بچ گئے، لیکن کب تک؟

Now Reading:

تاریخی مقامات بارشوں سے بچ گئے، لیکن کب تک؟

ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے تاریخی مقامات کے تحفظ کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے

کراچی

حالیہ مون سون سیلاب نے نہ صرف بڑے پیمانے پر انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، بلکہ انہوں نے ملک بھر میں بالخصوص جنوبی صوبہ سندھ میں کئی تاریخی اور آثار قدیمہ کے مقامات کو بھی تباہ کر دیا ہے۔

ان میں بین الاقوامی سطح پر مشہور مقامات جیسے موہن جو دڑو، مکلی کا قبرستان اور بھنبور کے کھنڈرات شامل ہیں۔ کئی تاریخی قلعوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، جن میں کوٹ ڈیجی، رنی کوٹ اور نوکوٹ شامل ہیں۔اس خطے میں شاہی ریاستوں کے کچھ محلات اور تاریخی مذہبی مقامات جیسے امام بارگاہوں، مندروں اور مساجد کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

بول نیوز نے موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے آثار قدیمہ کے متعدد ماہرین سے بات کی۔

Advertisement

حمید اخوند، سیکریٹری انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ فار  پرزرویشن آف ہیریٹیج آف سندھ

سندھ میں 60 فیصد سے زائد تاریخی مقامات کو نقصان پہنچا ہے۔ کچھ کو معمولی نقصان پہنچا ہے، جیسے مکلی قبرستان، جبکہ  دوسرے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں بھنبور، بدھ مت کا تھل میر رکان اسٹوپا اور کئی دیگر ورثے کے ڈھانچے شامل ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے جو نقصانات کا سروے کرے اور ان مقامات کی بحالی، تحفظ اور دیکھ بھال کے لیے مستند ماہرین کو شامل کرے۔ اس کے لیے حکومت کو خصوصی فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہوگی۔

افسوس کی بات  یہ ہے کہ تحفظ کے کاموں کے لیے تربیت یافتہ ماہرین آثار قدیمہ زیادہ نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو انہیں نظام کے اندر موجود  بدعنوان بیوروکریسی مافیاز کے ذریعے اپنے فرائض انجام دینے کی اجازت نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پرجوش نوجوانوں کی تلاش اور بھرتی کرے، انہیں تربیت دے اور انہیں بحالی اور تحفظ کا کام مسلسل بنیادوں پر تفویض کرے، جن کو بیوروکریسی کی مداخلت کو ختم کرنے کے اختیارات حاصل ہوں۔

اس وقت سندھ کے محکمہ آثار قدیمہ اور ثقافت کے افسران خالی بیٹھے وقت گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو کوئی کام کا منصوبہ ہے اور نہ ہی کوئی کام کا شیڈول۔ حکام کو اس محکمے کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس کے سالانہ بجٹ میں کروڑوں روپے مختص کیے جاتے ہیں اور کوئی واضح نتیجہ سامنے نہیں آتا۔

Advertisement

لیکن محکمہ اس رقم کو مکلی یا موہن جو داڑو پر میوزک میلوں اور بین الاقوامی کانفرنسوں کے انعقاد پر خرچ کر رہا ہے جب کہ مقامی کاریگر بھوکے مر رہے ہیں تو اسے حقیقت پسندانہ پالیسی کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔

منظور احمد کناسرو، ڈائریکٹر جنرل برائے محکمہ سندھ ثقافت، سیاحت و نوادرات

موہنجو دڑو کا تقریباً 10 فیصد حصہ تباہ ہو چکا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ نقصان سائٹ کی دیواروں کو ہوا ہے۔ دریں اثناء کوٹ ڈیجی اور رنی کوٹ سائٹس کی دو دیواریں مکمل طور پر گر گئی ہیں۔

ہم نے اب تک صوبے کے تمام مقامات سے جمع پانی کو نکال دیا ہے۔ ہماری 25 سائٹس کو نقصان پہنچا ہے، اور محکمہ نے حال ہی میں نقصانات کا ایک سرسری سروے کیا ہے۔ ہمیں مطلوبہ مرمت اور بحالی کے لیے 3سو50 ملین سے 5سو ملین روپے کے درمیان ضرورت ہوگی۔

جہاں تک موہن جو دڑو اور مکلی کے مقامات کا تعلق ہے، دونوں فی الحال کم و بیش محفوظ ہیں۔ دونوں سائٹس اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (UNESCO) کی عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہیں، اور ان کی دیکھ بھال ہورہی ہے۔

Advertisement

ہمارا محکمہ پہلے ہی یونیسکو کے ساتھ سندھ میں عالمی ثقافتی ورثہ کے مقامات کے ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ پر کام کر رہا ہے، اور تربیت یافتہ ماہرین آثار قدیمہ زمین پر موجود ہیں، مقامات کا معائنہ کر رہے ہیں اور تحفظ کے کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔

یونیسکو نے آفت زدہ مقامات کی بحالی میں مدد کے لیے 3لاکھ50ہزار ڈالر مالیت کی مالی امداد کا اعلان کیا ہے، جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کم از کم 1سو30 تاریخی و ثقافتی مقامات، جن میں سیکڑوں انٹرا سائٹ ڈھانچے ہیں،کو ملک بھر میں نقصان پہنچا ہے۔ صرف سندھ کو 4ہزار کے قریب انٹرا سائٹ ڈھانچے کی بحالی کا سامنا ہے۔ اس پر بہت زیادہ رقم خرچ ہوگی۔

ہم ایک بین الاقوامی فنڈ ریزنگ کانفرنس کی میزبانی کرنے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن سیلاب کی مسلسل صورتحال کی وجہ سے اسے ملتوی کرنا پڑا۔ لیکن ہم مستقبل قریب میں اسے منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

کالی لاشاری، چیئرمین ٹیکنیکل کنسلٹیٹو کمیٹی برائے موہن جو ریٹس

موہن جو داڑو اور بھنمبور دونوں کے ڈھانچے کمزور ہیں، جو صدیوں سے قدرتی عناصر جیسے کہ دھند، بارش، سیلاب اور دیگر آفات کا شکار ہیں۔ لیکن حالیہ بارشوں کے دوران یہاں  کچھ معمولی نقصانات کے باوجود، ان کے بنیادی ڈھانچے برقرار ہیں۔

تقریباً 40 دنوں تک جاری رہنے والی جولائی کی بارشوں نے ڈھانچے کو کچھ شدید نقصان پہنچایا ہے لیکن ان علاقوں کے مہتم نے حتی المقدور ان کی حفاظت کے لیے بہت محنت کی ہے۔

Advertisement

موہن جو ڈرومیں چند تین یا چار چھوٹے ڈھانچے طوفانی بارشوں کی وجہ سے زمین بوس ہو گئے، اور سیلاب زدہ سکھر بیراج کے نتیجے میں آنے والے پانی نے کچھ ڈھانچوں کی ’قربانی کی تہوں‘ یا حفاظتی ملمعوں کو بھی اکھاڑ پھینکا۔

سکھر بیراج ایک طرح سے موہن جو داڑو کا دشمن رہا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوئی، جس سے قریبی موہن جو دڑو کے 5ہزار سال قدیم ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر رساؤ پیدا ہوا۔

موہن جو دڑو کا عظیم حمام ’ ایک بڑا قلعہ کمپلیکس ‘میں نکاسی کا ایک اچھا نظام ہے، جس نے بارش کے پانی کو بہنے میں مدد کی۔ لیکن کمپلیکس میں بہت سے دوسرے مقامات پر پانی بھر گیا تھا اور مہتمین کو پانی نکالنے کے لیے دن رات کام کرنا پڑا۔

یہ بارشیں خدا کی طرف سے ایک انتباہ ہیں کہ ہمیں فوری طور پر ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے جو مستقبل میں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔

مورخ پروفیسر نور احمد جھانجی

Advertisement

موہن جو دڑو جیسے آثار قدیمہ کے تاریخٰ مقامات نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان اور بھارت کے خطے میں معاشرے کے تاریخی، فکری اور سماجی ارتقا کو سمجھنے میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

تازہ ترین تحقیق کے مطابق، یہ تہذیب تقریباً 8ہزار سال قبل موجود تھی اور اس کی وجہ سے  پورے برصغیر میں پاکستان، بھارت کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر مقامات پر تقریباً 2ہزار5سو مقامات کی پیدائش ہوئی۔

جاوید حسین سوجھلائی، ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کنسلٹنٹ

دریائے سندھ میں پانی میں اضافے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ، اور موہن جو ڈروسائٹ کے قریب دریا کے پشتوں کی ناقص دیکھ بھال اس عالمی ثقافتی ورثے کے لیے مستقل خطرہ ہے۔

 780 ملی میٹر تک کی موسلا دھار بارش جو بغیر کسی وقفے کے 51 گھنٹے تک جاری رہی، نے سائٹ کو کئی جگہ سے نقصان پہنچایا۔ تاہم متعلقہ حکام فوری طور پر وہاں پہنچ کر ایک وسیع تباہی کو روکنے میں کامیاب رہے۔

Advertisement

لیکن بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں مستقبل میں اس طرح کی مزید بارشوں کی توقع کرنی چاہیے، ۔ ہمیں اس مقام پر ایک فرسٹ ایڈ سنٹر قائم کرنا چاہیے، جس میں ہنر مند انسانی وسائل اور جدید ترین آلات ہوں۔ ہمیں ثقافتی تحفظ کے روایتی طریقوں سے تباہی کے خطرے میں کمی کی جانب اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنا چاہیے تاکہ اپنے ورثے کے مقامات کی حفاظت کی جا سکے۔

افسوس کی بات ہے کہ مقامی برادریاں،سائٹ کے عہدیداروں، دیگر اسٹیک ہولڈرز اور محکمہ نوادرات کے درمیان شاید ہی کوئی ہم آہنگی ہو۔ ہمیں ایک مربوط رسک مینجمنٹ پلان تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پی ٹی اے اور میٹا کا مشترکہ قدم، پاکستان میں انسٹاگرام پر کم عمر صارفین کیلیے فیچر متعارف
سونے اور چاندی کی قیمتوں میں ایک بار پھر بڑا اضافہ ریکارڈ
شہرقائد میں ٹریفک کی خلاف ورزی؛ دوسرے روز بھی ڈھائی کروڑ سے زائد کے ای چالان
بنگلادیش کے وزیرخزانہ کا ایف ٹی او سیکرٹریٹ کا دورہ؛ ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی قیادت کو خراجِ تحسین
پاک بحریہ کے بابر کلاس کورویٹ "پی این ایس خیبر" کے فائر ٹرائلز کامیابی سے مکمل
پاک امریکی تجارتی معاہدہ؛ خام تیل کی درآمد کا آغاز ہو گیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر