Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سرحدوں کے انتظامی مسائل

Now Reading:

سرحدوں کے انتظامی مسائل

پاکستان اور افغانستان کو ایک موثر بارڈر مینجمنٹ سسٹم کی ضرورت ہے جو ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف عوام اورسامان کی نقل و حرکت میں آسانی پیدا کرے

افغانستان کے ساتھ پاکستان کے دو طرفہ تعلقات اورافغانستان اورخطے میں پائیدار امن، استحکام اور روابط کی تلاش میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی حرکیات کا ہم آہنگ انتظام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ سرحدی انتظام صحیح معنوں میں تب ہی موثر ہو سکتا ہے جب تمام سرحدوں پر سیکورٹی کے ساتھ ساتھ عوام اورسامان کی نقل و حرکت کے انتظامات دونوں فریقوں کے درمیان تعاون اورحقیقی ہم آہنگی کے جذبے کے ساتھ کئے جائیں۔ تاہم، اب تک دونوں ممالک سرحد کے دونوں اطراف رہنے والے لوگوں کی ضروریات کے لیے ایک بارڈرمینجمنٹ سسٹم تیارنہیں کرسکے ہیں۔

26سو کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد ایک پٹی سے گزرتی ہے جس میں تقریباً 50 ملین افراد پر مشتمل آبادی رہتی ہے اورسرحد کے اس پارگہرے خاندانی، سماجی اوراقتصادی روابط ہیں۔ تاریخی طورپر سرحد نے خاندانی رابطوں، کاروبار، طبی سہولیات اورتعلیم کی وجہ سے روزانہ 50ہزار یا اس سے زائد افراد کی روزانہ کی بنیاد پر نقل وحرکت کی سہولت فراہم کی ہے۔

1970ء کی دہائی سے اورخاص طورپرافغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے ساتھ پاک افغان سرحدی پٹی مسلح تصادم، جہاد، شورش اورسرحد پاردہشت گردی کی تحریکوں کا مرکزبن گئی ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے عوام کی زندگی متاثرہوئی ہے، جن میں زیادہ تر پشتون اوربلوچ قبائل آباد ہیں۔ سرحد کے آر پار تجارت، ٹرانزٹ اور تجارتی سرگرمیوں کو بھی سرحد پار سیکورٹی کے طول و عرض کی وجہ سے منفی دھچکا لگا ہے۔ پاکستان اورافغانستان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ سرحد پاررابطوں پر مبنی معاشرہ اورمعیشت کو بحال کریں۔

 گزشتہ دو عشروں کے دوران اس سرحد کے انتظام کے حوالے سے دونوں فریقین کے نقطہ نظر میں اختلاف دراصل بڑھ گیا ہے۔ خلاء اورتضادات کودورکرنے کے لیے باہمی طورپرحقیقت پسندانہ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے معاملے میں جان بوجھ کرشدیدعوامی جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ سرحد کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جا سکے جسے عالمی برادری تسلیم کرتی ہے۔ لوگوں کی نقل و حرکت پر یکے بعد دیگرے افغان حکومتوں نے افغانوں کی پاکستان میں آزادانہ، غیر چیک شدہ اورغیر دستاویزی نقل و حرکت کا مطالبہ کیا ہے، لیکن افغان حکام نے پاکستان سے آنے والے زائرین کو ویزے جاری کرنے کے حوالے سے پابندیاں اپنا رکھی ہیں۔

Advertisement

2001ء کے بعد سے پاکستان پر سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ امریکہ اور نیٹو اتحاد مسلسل یہ الزام لگاتا رہا کہ تحریک طالبان افغانستان (TTA) پاکستانی سرزمین اورپاکستانی حمایت کا استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں حملے کر رہی ہے۔ لہذا، 2016ء میں پاکستان نے سرحد کے ایک بڑے کمزور حصے پرباڑلگانا شروع کردی۔ ان اقدامات نے قدرتی طورپرسرحد کے دونوں جانب رہنے والے قبائل کی آزادانہ نقل و حرکت میں بھی رکاوٹیں پیدا کیں۔ باڑ لگانے کی عام طورپرافغانوں کی جانب سے مزاحمت کی گئی تھی، لیکن کچھ واقعات کو چھوڑ کراسے اگست 2021ء میں طالبان کے افغانستان پر قبضے تک جاری رہنے دیا گیا۔

افغانستان میں بین الاقوامی اتحاد کی دو دہائیوں کی موجودگی کے دوران بھارت نے اس سرحد کو غیر مستحکم کرنے کے لیے وہاں بھاری سرمایہ کاری کی۔ اس وقت کی افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس اورجلال آباد اورقندھارمیں بھارتی قونصل خانوں کے ساتھ قریبی رابطوں کے ذریعے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اوربلوچ عناصر کو پاکستان میں تشدد اوردہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے مالی اورلاجسٹک مدد فراہم کی گئی۔ بھارت کے ملوث ہونے کے دیگر شواہد کے علاوہ 15 اگست 2021ء کے قریب جب طالبان نے افغانستان پرقبضہ کرلیا، بھارت نے خاموشی سے اپنا سفارت خانہ اور قونصل خانے بند کر دیے اورافغانستان سے اپنے تمام عہدیداروں کو واپس بلا لیا اور جون 2022ء میں اپنا ایک سفارتی مشن دوبارہ کھولا۔

اس طرح گزشتہ دو دہائیوں میں افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کے نتیجے میں پاکستان نے افغان سرحد سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی پرمبنی نقطہ نظر اختیار کیا ہے، یا اسے اپنانے پرمجبورکیا گیا ہے، جس کی عوام سے عوام اوراقتصادی جہتیں قریبی ہیں۔ پاکستان نے سرحد کے جس حصے پرباڑ لگانے کا منصوبہ بنایا تھا اس کے تقریباً 90 فیصد حصے پر باڑ لگا دی گئی ہے۔ ایک ایسی سرحد جس پر 2001ء تک پاکستان کی طرف کوئی نہیں یا بہت محدود فوجی تعیناتی تھی، آج اسے دنیا کی سب سے زیادہ حفاظتی سرحدوں میں شمارکیا جاتا ہے۔ لوگوں کی نقل و حرکت اورتجارت کے لیے استعمال کیے جانے والے کراسنگ کی تعداد محدود ہے۔ اس سرحد سے گزرنے والی تجارت اورتجارتی سامان کا حجم، جو کہ سالانہ 20 ارب ڈالرسے زائد ہونا چاہیے، دوارب ڈالر کے لگ بھگ ہورہا ہے۔ لوگوں کے لیے کراسنگ پوائنٹس بھاری حفاظتی اثرات سے متاثر ہیں اورمجموعی طور پر ایک غیر مہذب اورانسانی تذلیل کی تصویر پیش کررہے ہیں۔

گزشتہ سال افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان طالبان کی عبوری حکومت نے ایک موقف اپنایا ہے جس میں پاکستان کے سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے اٹھائے گئے بہت سے اقدامات کو چیلنج کیا ہے، جس میں باڑ لگانا بھی شامل ہے۔ رواں برس کے آغازمیں سرحد کے ساتھ متعدد علیحدہ علیحدہ واقعات کی بھی اطلاع ملی تھی، جہاں کچھ افغان سیکیورٹی اہلکاروں یا دیگر گروپوں نے پاکستان کی جانب سرحد پرباڑ لگانے اوردیگرتعمیرات سے متعلق کام میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ افغان طالبان کی قیادت اورادارے پاکستان کی سرحد کے قریب واقع صوبوں میں افغانستان کے اندرٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کے حوالے سے پاکستان کے خدشات کو دورنہیں کر سکے ہیں،جہاں سے وہ پاکستانی سویلین اورسیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کومستقل نشانہ بناتے رہے ہیں۔

دونوں ممالک متعلقہ سیکیورٹی حکام پرمشتمل مشترکہ سرحدی رابطہ کمیٹی کے ذریعےان مسائل کو حل کرنے میں مصروف ہیں اوراس کی سربراہی پاکستان کی جانب سے خصوصی ایلچی محمد صادق اور افغانستان کی طرف سے نائب وزیرکررہے ہیں۔ اگرچہ دونوں فریقوں نےان معاملات کو میڈیا سے دور رکھنے اوران معاملات کو ادارہ جاتی چینلز کے ذریعے نمٹانے پراتفاق کیا ہے،عوامی اورسرکاری سطح پرسوات اور خیبرپختونخوا کے کچھ اورعلاقوں میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں حالیہ بحالی کے بعد پاکستان میں بے چینی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے صورتحال روز بروزبگڑتی جا رہی ہے۔

اس سے سرحد کے دونوں اطراف رہنے والے لوگ، جن میں اکثریت پشتونوں کی ہے، چاہتے ہیں کہ پاکستان اورافغانستان اپنی سرحدی حرکیات کوسرحد پارسیکیورٹی اوردہشت گردی کے خطرات سے دوچارنہ ہونے دیں۔ انہیں تجارت، ٹرانزٹ، اقتصادی انضمام اورعلاقائی روابط میں جڑے جامع تعلقات کو فروغ دینے کے لیے دونوں ممالک کی توجہ کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ ساتھ ملحقہ خطے کے لیے یہ 1990ء کی دہائی جیسی ایک اور تباہ کن اورافراتفری کی دہائی کو دہرائے جانے سے روکنے کے لیے اہم ہے ۔

Advertisement

سرحد پار چیلنجوں کو باہمی طور پر فائدہ مند مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے درج ذیل عملی اقدامات کی ضرورت ہے:

– دہشت گردی، دہشت گرد گروپوں کوپناہ دینے اوران کی سرحد پارنقل و حرکت پرعدم برداشت کے لیے ایک معاہدہ طے کیا جانا چاہیے۔ ٹی ٹی پی اوراس طرح کے دوسرے گروپوں (مثال کے طور پر ETIM اور IMU) سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کا طریقہ لٹمس ٹیسٹ ہے۔ افغان عبوری حکومت اورافغان طالبان قیادت کوافغانستان اورخطے کےمستقبل کے مفادات میں ایسے گروپوں کے ساتھ اپنے ماضی کے تعلقات کو ختم کرنے کے دانشمندانہ فیصلے لینے چاہئیں۔ پاکستان کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ عسکری اورسماجی اورسیاسی جہتوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع انداز اپنایا جائے۔

– اس سرحد سے لوگوں، خاص طورپرافغانوں کی پاکستان میں آمد کا ایک باوقاراورسہولتی نظام تیار کرنا بھی مستحکم دوطرفہ تعلقات کے لیے ضروری ہے۔ سرحدی گزرگاہوں کو تجارت اور ٹرانزٹ گاڑیوں کے لیے ایک مؤثر طریقہ کاربھی فراہم کرنا چاہیے۔ جن ابتدائی طریقوں سے ان سرحدی گزرگاہوں کا انتظام کیا جا رہا ہے وہ اقتصادی تعاون بڑھانے کے مقاصد کی حمایت نہیں کر سکتے۔

– خطے کےممالک کوتمام سمتوں میں افغانستان کے ذریعے مشرقی-مغرب اورشمال-جنوب رابطے کو فروغ دینے پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔ ایک جانب وسطی ایشیا اوردوسری طرف جنوبی ایشیا کے ساتھ افغانستان کا رابطہ افغانستان میں پائیدارامن و استحکام اورعلاقائی اقتصادی انضمام کے حصول کے لیے ایک نسخہ ہے۔ترکمانستان،افغانستان،پاکستان اور انڈیا گیس پائپ لائن منصوبہ( TAPI)، سینٹرل ایشیا-جنوبی ایشیا پاورپروجیکٹ( CASA-1000) اورٹرانس افغان ریلوے اورٹرانسپورٹ کوریڈورجیسے میگا پروجیکٹس علاقائی ممالک کے ذمہ دارانہ فیصلوں کے منتظر ہیں۔

اگر تاریخ سے کوئی سبق ملتا ہے تو یہ وہ لمحہ ہے جس سے پاکستان اور افغانستان اپنی سرحد کو دہشت گردی اور تشدد کے دوسرے مرحلے میں داخل نہ ہونے دیں۔ دونوں ممالک کے عوام امن، دوستی اور بات چیت کے دن واپس چاہتے ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
تمباکو اب بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، ترجمان صدر مملکت مرتضیٰ سولنگی
صدر مملکت سے وزیراعظم کی اہم ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی
مصطفیٰ کمال کی سعودی ہم منصب فہد بن عبدالرحمن سے ملاقات، باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
افغان جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کر رہے ہیں ، خواجہ آصف
انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع
بغیر ڈرائیور خودکار ٹیکسی لندن میں کب چلیں گی؟ گوگل نے بتا دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر